Zindagi Ke Saal, Saal Ki Zindagi
زندگی کے سال، سال کی زندگی
وہاں دور چیڑھ کے درختوں سے بھرے اور برف سے لدے پہاڑوں کے پیچھے جہاں فلک جھک کر زمین سے ملتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ صرف محسوس ہوتا ہے ملتا نہیں کہ اس ہجر میں ہی وصال کی ساری کتھا مضمر ہے۔ وہاں ایک بوڑھا آخری سانسیں لے رہا تھا۔ سرہانے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ بوڑھا آہستہ آہستہ آواز میں سرگوشیاں سی کر رہا تھا۔ اتنی معدوم کہ نوجوان کو جھک کر سننی پڑ رہی تھیں۔ بوڑھا کہنے لگا۔
میرا غروب تیرا طلوع ہے۔ میرا ڈھلنا تیرا ابھرنا ہے۔ میرے اختتام سے تیرا آغاز ہے اور میری روانگی ہی تیری آمد ہے میرے بچے۔ تیرا عروج میرے زوال کے خمیر سے اٹھایا گیا۔ یہی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ زمان و مکاں کی سب سے بڑی آفاقی سچائی۔ سچائی پر آنسو نہیں بہائے جاتے اسے مسکرا کر قبول کیا جاتا ہے لعل۔
مجھے وہ وقت یاد ہے جب تیری جگہ میں تھا میری جگہ میرا بوڑھا تھا۔ مجھے اس نے جو کہا تھا وہ صدیوں سے ہر باپ اپنے بیٹے کو کہتا آیا ہے مگر میں اس روایت کو توڑنا چاہتا ہوں، میں آج تجھ سے دل کی بات کہنا چاہتا ہوں۔ وقت کم ہے غور سے سُن۔
تو جب زمین پر جائے گا تو بڑی گھن گرج سے تیرا استقبال ہوگا۔ بڑے شادیانے بجائے جائیں گے۔ چراغاں کیا جائے گا آتش بازی ہوگی، الغرض بڑے اہتمام سے بڑے چاؤ سے تیری آؤ بھگت ہوگی امیدوں کے ہار اور عزائم کی مالائیں تیرے گلے میں پہنائی جائیں گی۔ وعدوں کے گلابوں کی پتیاں تجھ پر نچھاور کی جائیں گی۔ یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔ مگر میں اعتراف کرتا ہوں۔۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے گلے میں ان امیدوں کے مرجھائے ہوئے پھول ہیں۔ عزائم کی مالاؤں کی کلیاں اور موتی گہنائے گئے۔ وعدوں کے گلابوں کے اب صرف کانٹے ہی بچے ہیں۔ میں جو وہاں جیتے جی کہنا چاہتا تھا، نہ کہہ سکا۔ اب مرتے ہوئے تجھ سے کہتا ہوں۔ جو تلخ یادیں میں یہاں سے لے کر ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں میں چاہتا ہوں کہ جب تیرا وقتِ رخصت ہو تو، تو انکا بار نہ اٹھائے تیرے پاس یاد کرنے کو کچھ سہانہ ہو۔ کچھ حسین یادیں ہوں۔
زندگی وقت کی پگڈنڈی سے یادوں کے پھول اور کانٹے چننے کی ریاضت ہے اور بس۔ ساری دوڑ کا حاصل بس یادیں ہی ہیں۔ تنہائی کی دیوی انہیں سہلاتی ہے اور آخر یہ سرمایہ بھی نسیان کا آسیب لے اڑتا ہے۔ اخیر ہمیشہ خالی ہاتھ ہوتی ہے۔ ان ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا ہے ہمیں نظر نہیں آتا۔ اسے نظر آتا ہے جس سے کچھ اوجھل نہیں ہوتا۔
سن آخری الفاظ ہیں پیارے۔ لوگ اگر محض خیالات کے چمن سے امیدوں کے گلوں کے ہار ہی چن پائیں، تصورات کے خزینوں سے صرف عزائم کے موتیوں کی مالائیں ہی بُن پائیں اور نچھاور کرنے کو ان کے پاس فقط وعدوں کے گلابوں کی پتیاں ہی ہوں تو ان سے کہنا۔۔
کتنا زمانہ ہوا ہمارے گلوں میں یہ چیزیں ڈالتے اور انہیں مرجھایا اور گہنایا ہوا دیکھتے۔ ایک بار ایسا کرو میرے گلے کے لیے گلستانِ حیات سے عمل کے پھولوں کا ایک ہار بن کر لاؤ۔ عملیت کے خزینوں سے ہمت کے موتیوں کی مالائیں چن کر لاؤ۔ کردار کے گلوں کی پتیاں نچھاور کرو۔ اصولوں کے دیے جلاؤ، سچائی کا چراغاں کرو اور اس کائنات کی فضا میں تدبیر کی آتش بازی کرو۔
ان سے کہنا کہ میں تو فقط ایک ہندسہ ہوں۔ اسی خالق کی ایک مخلوق جسکے تم اشرف المخلوقات ہو۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تعبیر سے دور پرے آنکھوں میں پلتے خوابوں میں مجھ سے امیدیں وابستہ کرتے رہو گے رسمی مبارکبادیں دو گے اور اگلوں کی طرح میں بھی گزر جاؤں گا اور جاتے ہوئے مجھے کوسو گے، اچھے برے القابات دو گے۔ میرے ہاتھ میں تو کچھ نہیں جو کچھ ہے تمہارے ہاتھوں میں ہے۔
آج میری آمد پر عہد کر لو کہ میری روانگی پر یہ دنیا آج سے بہتر ہوگی۔ یہاں امن ہوگا۔ محبت ہوگی۔ انسانیت کا درد ہوگا۔ ہر طرح کی تفریق ختم ہونے کی راہ پر ہوگی۔ غربت آج سے کم ہوگی۔ سماج انسانیت کے بسیرے کے لیے ایک بہتر جگہ ہوگا۔ اگر نہیں تو پھر زندگی سے ایک سال کم ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ جسطرح زندگی کے سال ہوتے ہیں اسی طرح ہر سال کی بھی زندگی ہوتی ہے۔ ہر سال کو زندگی سمجھ کر جیو۔
یہ کہہ کر بوڑھے کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ سرد رات کی یخ بستگی رگوں میں دوڑتے لہو کو منجمد کرنے لگی۔ دھڑکنیں سیکنڈز کی سوئی کی طرح معدوم ہوتی چلی گئیں اور سانسیں آخر وقت کی تینوں سوئیوں کے ایک ہونے سے رک گئیں۔
بوڑھے کی قبر پر مٹی ڈالتے اور اسکے نام کا کتبہ لگاتے نوجوان کو جلدی تھی اسے دھند اور بادل سے اٹے افق کے راستے پر اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ آج اس کا پہلا دن تھا۔ بوڑھے کا پیغام دہراتے اس نے اسکی قبر کی جانب ایک آخری نگاہ ڈالی اور نم آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ افق کی جانب بڑھ گیا۔۔