Vote Ko Izzat Do
ووٹ کو عزت دو
انسانیت ارتقاء کی ایک مسافت طے کرکے یہاں تلک پہنچی۔ ہر عہد نے راہِ حیات پر نئے سنگِ میل تراشے۔ اگلا دور ان سے نئی راہیں کشید کرتا آگے نکل گیا۔ اس ارتقائی مسافت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی منزل کوئی نہیں۔ انفرادی حیثیت میں تو سفر محدود ہے مگر اجتماعی حیات کی کوئی منزل نہیں۔ ستاروں کو ماضی میں رشک سے دیکھتی انسانی آنکھ حال میں ستاروں کا مستقبل دیکھ رہی ہے۔
اس ارتقاء کے سفر کو جب ہم انتظامی و ریاستی شکل میں دیکھتے ہیں تو وقت کی آنکھ یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتی ہے کہ کھوپڑیوں کے مینار بنا کر حکمرانی کرتی حاکمیت آج ان کھوپڑیوں کو اپنے منشور کے ذریعے لبھا کر ایک پرچی پر اپنے نام کی مہر لگانے کی متمنی ہوتی ہے۔ جی ہاں جمہوریت زمین پر انسانیت کے ارتقائی سفر کی عظیم منزل ہے
جمہوریت کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ ریاست کو عوام کے منتخب کردہ نمائیندے چلاتے ہیں۔ ان نمائیندوں کو عوام "ووٹ" کے ذریعے مقررہ معیاد کے لیے منتخب کرتے ہیں اور پھر اسی ووٹ کے ذریعے انکی کارکردگی کا احتساب بھی۔ دراصل ارتقاء کا یہ سفر امن کے بغیر ممکن نہیں اور جدید انسانی تہزیب میں جمہوریت پر امن ترین انتقالِ اقتدار کی قانونی و سماجی شکل ہے۔
کل ہمارے پیارے پاکستان میں بھی جمہوریت کے تسلسل کے لیے اس انتقالِ اقتدار کے لیے چھے سال بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ یہ انتخابات کوئی دو سالہ ہنگامہ خیز سیاسی ماحول کے بعد جا کر کہیں منعقد ہو رہے تھے۔ 2018 میں جیتنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو ساڑھے تین سال بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے تحریکِ عدم اعتماد سے چلتا کیا، ڈیڑھ سال انہوں نے حکومت کی اور اسکے بعد لگ بھگ ایک سال نگران حکومت قائم رہی اور پھر خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور کل انتخابات ہوئے۔
جمہوری اقدار کے حوالے سے یہ الیکشن اس لیے کوئی خوشگوار اور متوازن نہیں تھا کہ اس میں"لیول پلینگ فیلڈ" کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلا الیکشن جیتنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس اپنا انتخابی نشان ہی نہیں تھا۔ انکے الیکشن لڑنے والے لوگ روپوش تھے۔ انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ جلسے تو کجا کارنر میٹنگز تک کی اجازت نہ تھی۔
پچھلے دنوں اپنی مزدوری گاہ اسکندرآباد سے خواب نگر ملکوال کا سفر کیا تو اڑھائی سو کلومیٹر بعد پہلا پینا فلیکس پی ٹی آئی کا بھیرہ میں جا کر دیکھا۔ اس سارے عمل کے بینیفشری سیاسی حریفوں کے علاوہ بھلا اسے لیول پلیئنگ فیلڈ کون کہتا۔ جو لوگ اسے 2018 کے انتخابات میں نون لیگ کی کیمپین سے تشبیہہ دیتے ہیں وہ دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کیا نون لیگ کے یہ حالات تھے؟
بہرحال میں لکھ چکا کہ 25 کروڑ کی تیسری دنیا کی ایک بے بس قوم کے لیے یہی غنیمت تھا کہ جیسے تیسے صحیح مگر ملکی انتظام و انصرام منتخب نمائیندوں کے ہاتھ جائے اور بے یقینی کے زنگ سے اٹا پڑا معاشی پیہہ کچھ تو چلے۔
خدا کا شکر ہے سارا دن پولنگ کا عمل خیر خیریت سے سر انجام پایا اور اب سب کی نظریں نتائج پر تھیں۔ سیاسی طالبعلم اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد دن بھر اسکندرآباد کے پولنگ اسٹیشنز کے چکر لگاتا رہا سیاسی گہما گہمی ہی صرف سرخ و سبز جھنڈوں تلے دکھائی دینے سے کم ازکم یہاں کے نتائج کا کچھ نہ کچھ اندازہ تھا۔
پولنگ کا عمل پانچ بجے بند ہوا اور رات گیارہ بجے جب میں بستر پر دراز ہوا تو یہ دیکھ کر بحیثیت ایک جمہوریت پسند کے شدید افسوس تھا کہ پانچ سال میں جس ادارے نے ریاست میں سب سے اہم فریضہ یعنی عوامی حق رائے دہی کے لیے استعمال ہونا ہے وہ چھے گھنٹے بعد ایک بھی سرکاری و حتمی نتیجہ دینے سے قاصر تھا۔ ٹی وی چینلز والے 1 سے 20 فیصد تک غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے اعلانات کر رہے تھے جس میں حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے امیدوار ان جیت رہے تھے۔
گو کہ اتنے کم نتائج پر مکمل نتیجے کا کوئی قیاس قبل ازوقت تھا لیکن چھے سے سات گھنٹے بعد حتی کے ٹی وی چینلز کے خودمختار ذرائع اور رپورٹنگ سے بھی بیس فیصد تک نتائج ان شکوک و شبہات کو جنم دے رہے تھے جنکو بعد میں مکمل نتائج روک کر اور الیکشن کمیشن کے ردعمل سے انکار کے ذریعے باقاعدہ پیدا کیا گیا۔ فیصل واڈا صاحب کہہ رہے تھے یہ جب 200 کلوواٹ کے جنریٹر پر 400کلوواٹ کا لوڈ ڈالا جائے گا تو وہ بیٹھے گا تو سہی۔ تو اس پر شاہزیب خانزادہ صاحب نے سوال کیا کہ 400 کلو واٹ کے کام کے لیے 200کلوواٹ کا جنریٹر دیا کس نے تھا؟
رزلٹس روک دیے جانے کے بعد جیو کے پینل نے کہا کہ ہم فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور کم ازکم بارہ بجے تک انتظار کریں گے کہ نتائج ملنا شروع ہو جائیں اور آخر بارہ بج کر تین منٹ پر میرِ صحافت نے کہا کہ مہربانی کرکے نتائج کو جاری کیا جائے اور انہیں مشکوک بنانے سے گریز کیا جائے انہی خدشات کا اظہار شاہزیب خانزادہ صاحب نے بھی اپنے کسی گاؤں کی مثال دے کر کیا۔
ایک جمہوریت پسند کے لیے قوم کا بیش قیمت سرمایہ، توانائیاں اور وقت لگا کر یوں حق رائے دہی کی ارزانی اور بے وقعتی بہت کربناک تھی دوسرا میں دل سے اپنے ملک کو اس انتشار اور پولرائزیشن کی کیفیت سے نکلتا دیکھنے کا متمنی تھا۔ میں واقعی یہ چاہتا تھا کہ ایک آزاد اور حقیقی انتخابی عمل سے اقتدار کی منتقلی شفاف طریقے سے عمل میں آئے اور منتخب نمائیندے سر جوڑ کر پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت مسائل کے پہاڑ سے نبردآزما ہونے کی حکمتِ عملی بنائیں۔ میں حقیقت میں اس بات کا شدید خواہاں تھا کہ عوام جسے بھی چاہتے ہیں وہی عوامی امنگوں کا ترجمان بنے اور سب سے اہم کہ لیکن تیسری دنیا اسی لیے مندرجہ بالا انسانیت کے ارتقائی سفر میں پیچھے رہ گئی کہ یہاں انفرادیت، اجتماعیت پر حاوی ہے۔
صبح اٹھ کر دیکھا تو وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا تھا شکوک و شبہات کے ساتھ۔ قانون کے مطابق صبح دس بجے تک نتائج مکمل کرنے کا پابند الیکشن کمیشن آف پاکستان بری طرح ناکام تھا۔ کہیں فارم 45 نہ ملنے کی شکایت تو کہیں رات کی لیڈ صبح تبدیل ہوتی ہوئی پائی گئی۔ یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ دل بہت رنجیدہ تھا۔
ایک ایسا ملک جو کہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے جسکے وجود کے بارے پتا نہیں کیسے کیسے نقشے جاری کیے جاتے ہیں۔ جسکی سلامتی کے ضروری ہے کہ ہر طرح کی طاقت کی مرکز مقتدرہ اور عوام میں ایک ہم آہنگی اور بھروسے کا رشتہ ہو۔ میری دلی خواہش اور وقت کی اہم ترین ضرورت تھی کہ ماضی سے حال تک ہر سیاسی جماعت کی مقتدرہ سے شکایات کی صورت عوام اور فوج کے درمیان پائی جانے والی ایک نقصان دہ خلیج کو ووٹ کی طاقت بھر سکے۔ تاکہ ایک قوم یکسو ہو کر آگے بڑھے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ انتخابی نتائج میں یہ تعطل اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والا ابہام اور اسکے نتیجے میں وجود پانے والی پارلیمان عام انتخابات کے بعد بھی پاکستانی قوم کو سیاسی استحکام نہیں دے پائے گا (خدا نخواستہ)۔۔
خدارا! عوامی حق رائے دہی کو تسلیم نہ کرنا پاکستانی تاریخ میں بھیانک نتائج کا باعث بنا۔ پاکستانی عوام نے جبر کے خلاف فیصلہ سنایا اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنا مہا جبر ہوگا۔ یہ کسی طرح بھی ملک و قوم کے حق میں نہیں۔ طالبعلم کی نگاہ میں محرومیوں کے مارے حقوق کے لیے ترستے عوام اور اشرافیہ کے زیر انتظام اس ریاست میں ووٹ ایک واحد نازک رشتہ ہے اسکا تقدس قائم رہنے دیجیے۔ جمہوریت و ریاست کو آگے بڑھنے دیجیے۔ بحیثیت قوم ہمیں انسانیت کے ارتقائی سفر کے کارواں میں شامل ہونے دیجیے۔ خدارا۔۔