Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Transgender Act (2)

Transgender Act (2)

ٹرانسجینڈر ایکٹ(2)

ٹرانسجینڈر ایکٹ مضمون کے پہلے حصے میں خواجہ سراؤں کی بنیادی محرومیوں کا ذکر کیا تھا۔ جو ظاہر ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کوئی شک ہی نہیں کہ دوسرے مظلوم طبقات کی طرح خواجہ سرا بھی "اسلام خواجہ سراؤں کو سارے حقوق دیتا ہے " کی منافقانہ آڑ میں پاکستان میں اپنے حقوق سے محروم ایک مظلوم ترین طبقہ ہے۔

پاکستان میں 75 سالوں کے بعد ان بے چارے "نام نہاد" انسانوں کے حقوق کا کسی کو خیال آتا ہے اور وہ حقوق جو اسلام خواجہ سراؤں کو دیتا ہے، وہ مسلمان دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکی پارلیمان میں ایک بل پیش کیا جاتا ہے۔ "Transgender Act 2018" اس بل کو جب پاس کیا جاتا ہے تو محض تین ارکانِ پارلیمان اسکی مخالفت کرتے ہیں یہ بل چار سال قبل سینیٹ سے منظور ہوتا ہے۔

یہ بل ان معدودے چند قوانین میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان میں جاری سیاسی رقابت کی آگ سے بچ جاتا ہے اور پارلیمنٹیرینز کے اس اصل کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ جو ان سے آئین تقاضا کرتا ہے اور جسے وہ سولنگ گلیوں نالیوں کے ڈھکوسلوں سے پُِر کرتے ہیں۔ اس بل کے بغور مطالعہ کے بعد میں یہاں اسکے تمام قابلِ ذکر اور اہم نقاط آپکی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

اس قانون کے مقاصد۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور آئینِ پاکستان کے مختلف قوانین کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں سے جنسی /صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور حق تلفی کی روک تھام اور حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا۔

ہر فرد کو صنفی /جنسی شناخت کا حق اپنی محسوسات اور ذاتی تشخص کی بنیاد پر ہے۔

اٹھارہ سال کی عمر میں پہنچ کر اگر کوئی بھی فرد اس تشخص کی بنیاد پر شناختی کارڈ میں اپنی جنس پہلے سے مقرر کردہ جنس سے مختلف درج کروانا چاہے تو یہ اسکا حق تسلیم کیا جائے گا۔

جنس کی بنیاد پر ہر طرح کا امتیازی سلوک جرم قرار۔

18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنوانے کی اہلیت حاصل ہو گی۔

خاندان کے "ب فارم " میں اندراج لازمی قرار۔

جنسی امتیاز برتتے ہوئے گھر سے نکالنا جرم قرار۔

سفری سہولتوں میں مساوی مقام۔

جرم کی صورت میں علیحدہ جیل کا قیام۔

ماں باپ کی وراثت میں حقوق کی فراہمی۔

تعلیم کا حق۔

صحت کا حق۔

ملازمت کا حق۔

سیاست میں حصہ لینے اور الیکشن لڑنے کا حق۔

عوامی عہدہ رکھنے کا حق۔

اکٹھے ہونے کا حق۔

پبلک پلیسز پر داخلے کا حق۔

بھیک مانگنے یا کسی بھی لحاظ سے مجبور نہ کیے جانے پر تحفظ۔

اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی جبر ظلم پر درخواست دینے کا حق۔

دل پر ہاتھ رکھیے اور سچی گواہی دیجیے کہ کیا یہی وہ تمام انسانی حقوق نہیں، جنکی پامالی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو کیا کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ تک کرتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو مزہب پر سیاست کرنے والوں کا کہ جو ہر عقلی، شعوری، استدلالی اور تکنیکی معاملے کو مزہبی جزباتیت کی آنچ پر رکھ جوشِ خطابت کی پھونکوں سے عوامی حساسیت کی دیگ میں ابال لے کر آتے ہیں اور پھر اسے کھاتے ہیں۔

جب یہ دیگ تیار ہو جاتی ہے، تو اس میں سے اپنا حصہ بٹورنے دوسرے سیاسی و مذہبی مفاد پرست بھی آجاتے ہیں۔ اس تمام بل میں ایک شق میں ممکنہ اطلاقی خرابی موجود ہے کہ اگر آپ جنس کے تعین کو فرد کی اپنی محسوسات پر چھوڑیں گے تو اسکا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے سماجی اور قانونی مسائل دونوں طرح کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ جیسے وراثتی قانون میں پیچیدگیاں یا اسکی آڑ میں ہم جنس پرستی ہونا۔

اطلاقی خرابیاں ہر ایک قانون کے ساتھ ہوا کرتی ہیں۔ جن میں بہتری اور ترامیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں بھی بجائے، اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگوں کو ساتھ ملا کر اسکی اطلاقی خرابیوں سے بچاؤ کا سامان کیا جانا چاہیے۔ طبی قانونی تکنیکی ماہرین کو ٹرانسجینڈر ایکٹ کے سقم دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن مزہبی بڑھک بازی کہ قانون کو واپس لیا جائے وغیرہ محض سیاست ہے۔

مزہبی سیاست کی دکانوں میں فقط وہ چیز سجائی جاتی ہے۔ جس کی بِکری اچھی ہو۔ ہر مزہبی سیاسی جماعت اس جزباتیت کی دیگ میں سے اپنا حصہ وصول کرتی پائی جاتی ہے۔ میں یہاں ایک مثال سے اپنی معروضات کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر غریب بچوں کے تعلیمی حقوق کے لیے مدارس قائم کیے جائیں اور ان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز سامنے آنے لگیں۔

اور کوئی طبقہ اٹھ کر کہے کہ بچوں سے زیادتی اور ہم جنس پرستی کا راستہ کھولا گیا گھروں سے دور بچوں کے مدرسے بنا کر تو علما کرام یقینا اکا دکا واقعات کے لبادے میں چھپا کر اسے اسلام کے خلاف سازش بھی قرار دیں گے۔ یہی اصول یہاں بھی لاگو کیا جائے اور پچھتر سال بعد اگر ایک محروم طبقے کے حقوق کا ریاست کو خیال آ ہی گیا تو اسے واپس کرنے کی بجائے بہتر بنایا جائے اسکے سقم دور کیے جائیں۔

آخری سوال کہ جو علماءِ کرام اس بل کو احکامِ الٰہی سے بغاوت قرار دے رہے ہیں اور سیلابوں اور زلزلوں کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ ان سے یہ پوچھنا تھا کہ اس ایکٹ سے پہلے اور خدانخواستہ واپس لیے جانے کی صورت میں آنے والے زلزلے اور سیلاب کس وجہ سے آتے ہیں اور خواجہ سرا بہنوں بھائیوں سے رکھا جانے والا ناروا ترین سلوک احکامِ الٰہی سے کیا بغاوت نہیں ہے؟

پسِ تحریر، علماء کرام کے تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرانسجینڈر ایکٹ سے ایک مثبت بات براآمد ہوئی کہ مدارس تو کیا مساجد تک میں نماز کی صفوں پر قرآن ہاتھ میں پکڑ بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز آتی رہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک کا بیان سامنے نہ آیا۔ نہ کسی نے عذابِ الہی کی وجہ قرار دیا نہ ہی اسے احکامِ الٰہی سے بغاوت قرار دیا۔ کسی ایک نے یہ بھی نہیں کہا کہ۔

ہمارے علما نے اس پر غوروخوض کر کے اسکے تدارک کے لیے تجاویز یا متبادل مرتب کیا ہے۔ اب جبکہ تمام سیاسی و غیر سیاسی مذہبی جماعتیں ہم جنس پرستی کے خلاف صف آراء ہیں تو انتظار اس جزبے کو مدارس کی طرف موڑنے کا ہے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat