Tamgha e Ghairat
تمغہِ غیرت
میں کہیں لکھ چکا کہ ہمارے "غیر" انسانی معاشرے میں بہت ساری دوسری چیزوں کی طرح غیرت بھی ایک ایسی شے ہے جسکو بالکل ہی معکوس یعنی الٹ معانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یاں تلک کہ یہاں انسانی جان تک لینے کی کائنات کی سب سے بڑی بے غیرتی کو "غیرت پر قتل" کہاجاتا ہے۔ کسی نے ٹھیک لکھا تھا کہ اگر بہنیں بیٹیاں عرفِ عام کی اس غیرت پر قتل کرنے لگیں تو سوچیے کتنے نئے قبرستان آباد ہوں۔
یہ رائج غیرت اس لیے بھی منافقانہ بے غیرتی کی سب سے بھیانک شکل ہے کہ ایک گھر کا وہی مرد کسی دوسرے کی بہن بیٹی سے اپنے تعلق پر اسکے باپ بیٹے بھائی کے لیے غیرت کی وہ تعبیر نہیں رکھتا جو اپنی بہن بیٹی کی بابت اپنے لیے رکھتا ہے۔
"بلیک میلنگ " سے متعلق ایک مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ باپ کی رضا کو خدا کی رضا کہا گیا۔ خدا کی رضا یہ ہے کہ انسان "ربنا ظلمنا" کہہ کر اسکے سامنے جھک جائے اور اس غفوروالرحیم سے "وغفرلنا و رحمنا " کی گزارش کرے اور "من الخسرین" ہونے سے اسکی پناہ مانگے۔ ایک باپ کی رضا بھی یہی ہونی چاہیے کہ خدا نخواستہ اگر اسکی بیٹی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ بجائے کسی بلیک میلر کے ہاتھوں برباد ہونے کے اپنے باپ کی پناہ مانگے اور وہ اسے عطا کرے۔ یہ ہے اصل غیرت نہ یہ کہ بلیک میلر یہ جانتا ہو کہ اسکے باپ بھائی غیرت نامی کسی رائج جہالت کو اپنی بیٹی پر ترجیح دیتے ہیں جسکا فائدہ اٹھا کر وہ اسکی زندگی برباد کرتا رہے۔
کچھ عرصہ قبل دعا زہرہ نامی ایک بچی کا کیس سامنے آیا تھا جس نے انٹرنیٹ پر کسی لڑکے سے شناسائی ہونے کو مرضی کی شادی پر منتج کر دیا تھا اور اسکے ساتھ کراچی سے لاہور آ گئی تھی۔ اس کیس پر ناچیز نے اپنی بیٹی کے ساتھ ایک منظوم ویڈیو بھی کی تھی اور ایک مضمون میں دعا زہرہ کے والدین سے یہ گزارش بھی کی تھی کہ وہ دعا زہرہ کو اسکے خاوند سمیت قبول کر لیں۔ اس لڑکے کے بارے میں کیس کی تفصیلات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اس نے اسے بلیک میل کیا اور اس کا رویہ بھی اسکے ساتھ درست نہیں تھا اور یہ کہ میڈیا پر اس نے اپنے ماں باپ کے خلاف جتنے بھی بیانات دیے وہ لڑکے کے دباؤ اور اسکے وکیل کی مشاورت سے دیے۔ بہرحال قانونی لحاظ سے وہ کیس جیت گئے اور بچی واپس انکے حوالے ہوگئی۔
اس موضوع پر بھی ایک مضمون لکھ چکا کہ بچوں کی بتدریج تربیت کے ذریعے کیسے انہیں"محبت" کرنے کے لائق بنایا جائے کہ وہ موزوں عمر میں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کر سکیں اور ہم اپنی تربیت پر بھروسہ رکھ کر انکے پیچھے کھڑے ہو سکیں۔
دعا زہرہ کے بیانات پر اس وقت بھی یقین نہیں آتا تھا اور عدالت میں اسکے والدین کے آنسو بھروسہ پاتے تھے۔ تین بیٹیوں کی ماں جسطرح اسکی طرف روتے ہوئے بڑھی تھی اور دعا نے تاثیر نہ پائی تھی، درد کی ہوک سی اٹھی تھی۔ خوشیاں سچی نہ ہونے کا پتا نہیں دیتیں دکھ مگر جھوٹ نہیں بول پاتے۔ اندازوں کی غلطی زندگی کی مشعلِ راہ رہی اب مگر آنکھیں اندھیروں سے لڑنے لگیں۔ اس لڑائی میں وہ کچھ دکھنے لگتا ہے جو آنکھوں کی روشنی میں نظر نہیں آتا۔
اس سے پہلے بھی دعا زہرہ کے والد محترم جناب مہدی کاظمی صاحب بیٹی کی کامیابیوں کو لوگوں کے ساتھ شئیر کر چکے ہیں۔ کھڑے ہو کر تعظیم ان والدین کی۔ آپ قابلِ فخر والدین ہیں۔ کاظمی صاحب آپ نے والد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آپ نے ہمیں بتا دیا کہ والد کی رضا خدا کی رضا کیوں ہے۔ آپ نے ہمیں باور کرایا کہ اتفاقی طور پر والد ہونے کی اکثریت میں نظریاتی طور پر والد ہونے کی اقلیت کیسے بنا جاتا ہے۔ آپ نے "بے غیرتی" کے اس رائج نظام میں حقیقی غیرت کا ثبوت دے کر اس طالبعلم جیسے بیٹی کے باپوں کی نگاہ میں خود کو ایک مثال ثابت کیا۔ سلام پیش کرتا ہوں میں آپ کو۔
میرے بس میں ہوتا تو تئیس مارچ یا چودہ اگست کو ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی اور پہچان کے لیے دیے گئے تمغہ جات میں ایک "تمغہِ غیرت" متعارف کرواؤں اور جناب محترم مہدی کاظمی صاحب کو بلا کر انہیں اس سے نوازوں۔ اس "غیر انسانی" معاشرے کو ایک انسانی سماج بنانے کے لیے اسطرح کی کاوشوں کو بارش کا پہلا قطرہ جان کر اسکی قدردانی اور پزیرائی کی جانی چاہیے۔ مگر یہ تو میرے بس نہیں مگر یہ ضرور تھا کہ اپنے قلم سے آپکو یہ خراجِ تحسین بطورِ تمغہِ غیرت پیش کروں سو حاضر ہے۔ آپ نے کمال کر دیا۔ خدا آپ کے گھرانے کو شادوآباد رکھے۔ دعا زہرہ بیٹی خدا آپکو قدر دانی کی توفیق دے۔ سلامتی ہو۔۔