Talash
تلاش
ماں کڑاہی گوشت کھانا ہے مجھے۔ لائنوں پار والا میرا دوست ملا تھا اس نے مزے لے لے کر مجھے بتایا کہ اس نے کہیں سے کڑاہی گوشت کھایا ہے تب سے بھوک دل کی طرح دھڑک رہی ہے پیٹ میں۔ بچے نے ماں سے لپٹتے ہوئے کہا۔ جواب میں ماں نے اسے ڈانٹ کر خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ چپ چاپ سو جا۔ اس وقت تیرے لیےکڑاہی گوشت کہاں سے لاؤں؟
مگر ماں بھوکے پیٹ نیند نہیں آتی۔ دو دن سے بھوکا ہوں تو نے تو کہا تھا عید پر خدا کوئی نہ کوئی بندوبست کر دے گا۔ اب خدا سے کہہ نہ کوئی بندوبست کرے، بچے نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہنے لگی، کیا کروں آج ایک گھر کے پچھواڑے میں گھنٹوں دھوپ میں کھڑی ہو ہو کر واپس آ رہی ہوں جہاں ایک عورت بچی کھچی کچھ ہڈیاں پھینک دیتی ہے۔ لیکن آج وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔ گوشت مارکیٹ گئی تو وہ بھی بند۔
شام میں ایک ہوٹل میں آس لیے گئی تو وہاں پر ایک ظالم انسان نے جو پتھر مارا تو ٹانگ چلنے سے بھی گئی۔ درد کے مارے میں ایک کونے میں جاکر نڈھال ہو گئی۔ میرے منہ سے بد دعائیں سن کر لوگ ہنسنے لگے۔ اشرف المخلوقات۔ ہونہہ بچے نے ماں کو روتے دیکھا تو وہ ماں کی ٹانگ کو سہلانے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ماں اور دکھیاری ہو گئی۔ بے بسی کی انتہا بھی ایک طمانیت ہوتی ہے اضطراب کی انتہا سے ایک الگ تسکین کی شروعات ہوتی ہے۔
آنکھوں کی نمی اور درد نے کسی لوری کا کام کیا اور ماں سو گئی۔ بچے نے آسمان کی طرف دیکھا۔ نمناک آنکھوں سے اسے ستارے کئی گنا زیادہ محسوس ہوئے۔ کہنے لگا اے میرے خدا۔ میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ ہمت اور کوشش سے جڑی ہوئی خدا سے امید کبھی نہیں ٹوٹتی، تو بس میں نکل رہا ہوں تلاش میں۔ اے خدا یہ کڑاہی گوشت کی نہیں تیری تلاش ہے۔ آج اگر میں بھوکا رہا تو دل کے ساتھ یہ امید بھی ٹوٹ جائے گی۔
تو صرف بڑے گھروں والوں کے پالے ہوؤں کا خدا تھوڑی ہے۔ ہمارا بھی ہے۔ ہے؟ تو آج بتا ناں کہ ہے۔ لے میں نکل رہا ہوں تلاش کی راہ پر امید کا چراغ لیے۔ ادھر خواب نگر ملکوال سے نکلے ہوئے کچھ مسافر محبت کے زادِ راہ کے ساتھ اسکندرآباد میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ بچھڑے ہوئے جب ملیں عید ہوتی ہے۔ ایک بھائی کی فیملی بیرونِ ملک سے یہاں آئی ہے۔ جڑواں بھائیوں کی بیٹیوں کی محبت جینیات کے خدا کا الگ سے تعارف کرواتی رہتی ہے۔
ان کے ماں باپ انہیں مختلف مواقع پر اکٹھا کر کے اس عہدِ خوابناک کی تجدید کرتے پائے جاتے ہیں جسے بچپن کہتے ہیں۔ رات باہر کھانے کا پروگرام بنا۔ ہوٹل پہنچے۔ مینیو دیکھا۔ بچوں نے کہا کڑاہی گوشت۔ کڑاہی گوشت کا آرڈر دے دیا گیا۔ بچوں سالن ابھی بہت پڑا ہے اسے ختم کرنا ہے۔ ایک ماں نے کہا۔ بچوں نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔ ماما کھا تو رہے ہیں لیکن ختم شاید نہ ہو۔
خاتون نے اپنے شوہر کو دیکھا اور کہا اس دن تو انہوں نے ایک کلو کڑاہی بہت تھوڑی سی بنائی تھی ہم نے اس حساب سے آرڈر ڈیڑھ کلو کا دے دیا لیکن اس دن کم پڑ رہا تھا آج بچ رہا ہے۔ بچنے کا سن کر کوئی کہیں مسکرا دیا ہو گا۔ کھانا بہت ہی مزے کا تھا۔ کالج دور میں مکئی کی چھلی کے 5، 5 روپے بچا کر ان سے دنیا کے مختلف ملکوں میں انواع و اقسام کے کھانے کھانے والے خوبرو آدمی نے کہا۔ اس کی اہلیہ کہنے لگی سالن پیک کروا لیتے ہیں۔
اگر ابھی کوئی راستے میں مل گیا تو اس کے کام آ جائے گا ورنہ صبح ناشتے میں کام آئے گا۔ ایک بار پھر کسی نے مسکان بھری ہو گی۔ کس نے کہاں کام آنا ہے؟ وہ مسکراہٹ والا ہی جانتا ہے۔ عید کا دن اختتام کی چادر اوڑھ کر رات کی تاریکی میں گم ہونے کو تھا مگر گاڑی کی روشنی میں سامنے کا منظر دیکھ کر یہ دن کاغذ پر امر ہو گیا۔ تارا یوریا فیکٹری کے موڑ پر اچانک ایک چھوٹا سا کتا گاڑی کے سامنے آ گیا۔ مشکل سے بچا۔
گاڑی کچھ دور پہنچی تو گمنام لکھاری کے کتوں کے شوقین بیٹے نے گاڑی میں سے پیچھے دیکھتے ہوئے اپنی ماں سے کہا ماما پلیز اسے اٹھا لوں یہ بہت پیارا ہے۔ دو دفعہ اس کے شوق کی خاطر کتوں کی آیا بننے والی اس کی ماں نے ہمیشہ کی طرح بغیر لگی لپٹی کے کہا ہر گز نہیں۔ گاڑی کچھ دور ہی گئی تو دونوں بیٹیوں نے بیک زبان کہا۔ وہ کڑاہی گوشت اسے کھلا دیں۔ پلیز ڈیڈا پلیز۔
معلوم نہیں یہ پلیز ان بچیوں نے مجھ سے کہا یا اس کتے نے اپنے خدا سے کہ گاڑی اس سے آگے نہ جاسکی۔ مڑی اور اس چھوٹے سے کتے کے بچے کے پاس۔ عید کے جاتے ہوئے لمحوں کو یادگار بنا چکے تھے یہ بچے اور وہ بچہ۔ بچے اسے کڑاہی گوشت کی بوٹیاں ڈالتے جاتے وہ دم ہلاتا جاتا اور کھاتا جاتا۔ آخر پر ایک بڑا ٹکڑا لے کر جھاڑیوں کی طرف بڑھا تو گمنام لکھاری کا دل جیب میں رکھے قلم میں دھڑکنے لگا۔
اسے یوں لگا کہ وہ کتے کا بچہ یہ ٹکڑا اپنی ماں کے لیے لے کر جا رہا ہے اسے بتانے کہ اٹھ ماں دیکھ خدا نے کڑاہی گوشت بھیجا تیرے لیے۔ خدا نے بندو بست کر دیا ہے۔ آئیندہ مجھے تلاش سے نہ روکیں۔ کڑاہی گوشت کھا لے ماں۔