Supreme Court Se Ichra Tak
سپریم کورٹ سے اچھرہ تک
ایک ہی ہفتے میں مذہبی جنونیت و منافرت کے دو کیسز سامنے آئے۔ ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے عدالتی عہدے دار اور آئینِ پاکستان کی تشریح کے مجاز ادارے سپریم کورٹ کے سربراہ ایک فیصلہ دیتے ہیں۔ فیصلے سے اختلاف یا اتفاق ایک طرف اچانک انکے ایمان کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ فیصلے کے محرکات میں بین الاقوامی لابیوں کی سازش کا بھی الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو سلمان تاثیر مرحوم سے بڑا توہینِ رسالت رسول ص کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی جمعہ کو مساجد میں ان کے خلاف تقریروں کے لیے اکسایا جاتا ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے وضاحت کو بھی منہ بھر کر رد کر دیا جاتا ہے ہاتھ کاٹنے اور زبان کھینچنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں اور پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی سے اس سرزمین پر مذہبی منافرت پھیلانے والے کرداروں نے چیف جسٹس کے متعلق جو زبان استعمال کی وہ یہاں لکھ نہیں سکتا کہ گنہگار سا آدمی ہوں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے گرد ریاستی حصار تھا سو ملاؤں کے بیچ بیٹھ کر "سر تن سے جدا کے نعروں کے درمیان "یہ کہتے نہیں پائے گئے کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا، مگر میں جاں بخشی کے عوض معافی مانگتا ہوں۔ اور آئیندہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں دونگا جس سے آپ کی دل آزاری ہو۔ افسوس کہ جیسے ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کی آڑ میں سیاست کرنے والوں نے ایک بار پھر اپنی تاریخ دہرائی اسی طرز پر ریاست نے بھی "سلیکٹو گرفتاری" کے ذریعے اس سزا کی پاداش میں"سیاست" ہی کی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پڑھ کر ملک کے بڑے قانون دانوں اور علماءِ کرام نے کہا کہ اس فیصلے میں ایسا کچھ نہیں جو الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
بہرحال اس بات کو دو سے تین دن ہی گزرے تھے کہ اچھرہ بازار لاہور میں ایک نہتی خاتون ہجوم کے ہاتھ چڑھ گئی، جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے عربی رسم الخط میں لکھے کچھ الفاظ والی قمیض پہن رکھی تھی۔ اسے سرِ بازار ایک ملاں صاحب ملتے ہیں جو فخر سے ریاستی عہدے داروں کو یہ بتا رہے تھے کہ میں نے اس سے کہا یہ قمیض اتار دو تو اس نے کہا کیوں اتار دوں آپ کون ہوتے ہیں مجھے کہنے والے۔ آپ اندازہ کیجیے شرم سے ہاتھ کانپتے ہیں لکھتے ہوئے۔ بیمار ذہنیت کا عالم دیکھیے کہ جو شخص ویڈیو کے آخر پہ اس ریاست کے اپنے پیروں میں گرنے پر اس خاتون کو بیٹی کہتا ہے۔ کیا کوئی باپ اسطرح سر بازار۔۔ نہیں جناب پھر کہوں گا کہ ایک گنہگار سا آدمی ہوں اور ایک بیٹی کا باپ بھی۔ لکھنے کی بھی ہمت نہیں۔۔ خدا کا دین بیچ کر اپنا دستر خوان سجانے والو تم کیا جانو بیٹی کیا ہے۔ بد بختو جس کا نام لے کر اس عورت کو "سر تن سے جدا " کے نعروں سے سہما رہے تھے اس پاک ہستی کے سر مبارک کی پاک آسمانی چادر بیٹی کے لیے زمین پر بچھتی تھی۔
تم سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب دو کہ تم تو کہتے ہو کہ کسی نامحرم عورت پر پڑنے والی دوسری نظر شیطان کی ہوتی ہے تو تمہیں کیسا پتا کہ کسی عورت نے بازار میں کیا پہن رکھا ہے۔ ویسے ان نظروں کے شیطانی ہونے میں کیا شک ہے کہ جو اسے سرِ بازار یہ لباس اتارنے سے لے کر سر تن سے جدا کرنے تک پہنچ چکی تھیں۔
وہ عورت خوش قسمت تھی کہ ہجوم میں کسی نے غازی بننے کی نہیں ٹھان لی اور پولیس آ گئی جو اسے اس ہجوم کے نرغے سے نکال کر لے گئی۔ مگر وہ تھانہ جو ایسے آئی جی صاحب کی زیرِ نگرانی چلتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی کسی عورت کو راہ چلتے Dictate نہیں کر سکتا کہ اس نے حجاب کرنا ہے یا نہیں کرنا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک تھانے میں پہنچ کر الٹا وہ بے چاری جاں بخشی کے عوض معافی مانگتی ہے۔
یعنی وہ رحمت للعالمین کی امتی بیٹی بغیر کسی جرم کے ان سے معافی مانگتی ہے جو کہ ان کے نامِ اقدس کے نعروں کی گونج میں اس پر توہینِ مذہب کا بہتان لگا کر اسے ہراساں کرتے رہے اور ڈراتے دھمکاتے رہے۔ الامان الحفیظ۔
روک لیا بھئی جرم اس ریاست نے کر لی جان مال عزت کی حفاظت۔ جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کی کسی آخری درجے پر ہی سہی مگر بیخ کنی کرنے کی بجائے ریاست مظلوم و بے قصور کو کہے ان سے معافی مانگو۔ واہ میری ماں جیسی ریاست، بیٹی کی زندگی پر بنام مذہب ہاتھ ڈال کر فرد سے ریاست تک کی بے حرمتی کرنے والوں کے قدموں میں بیٹی ہی کو بیٹھنے کا حکم دے دیا۔
اگر اتنے ہی مذہبی غیرت کے متوالے ہو تو کسی ہانپتی کانپتی بے بس عورت اور "لا اکراہ فی الدین " کی آیت دونوں ہر برقعہ اوڑھا کر معافی منگوانے کی بجائے ادھر کلمہ طیبہ والا جھنڈا اوڑھے حسینہِ سعودی عرب کی جانب ذرا اک نگاہ اٹھا کر دکھاؤ۔ نہیں تو یہاں درباروں میں ننگے پڑے "پہنچے ہوؤں" پر پڑی چارقل والی چادروں کی طرف ہاتھ بڑھا کر دکھاؤ۔ نہ نہ بھئی ان جھنڈوں اور چادروں کے کونوں سے اپنے دستر خوانوں کے کونے جو بندھے ہوئے ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی اکثریتی طور پر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے بحث یہ چھڑ گئی کہ قمیض پر آیات لکھی تھیں یا نہیں۔ قمیض پر حلوہ لکھا تھا جسکا مطلب دلکش ہوتا ہے پھر حلوہ اور مولوی کی جگت بازی۔ یعنی اگر آیات لکھی ہوتیں تو پھر کیا اس خاتون کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک ہوا وہ جائز تھا؟
خوش آئیند ہے کہ ہم اکثر و بیشتر اسطرح کے ہر "سماج کش" واقعے پر آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن بے سود۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست سے یہ مطالبہ کریں کہ اس ضمن میں واضح قانون سازی کی جائے کہ توہین ہوئی نہیں ہوئی قصور تھا نہیں تھا کی تفریق اور اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بغیر ہجوم کشی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ چوکوں چوراہوں میں کسی بھی انسان پر توہینِ مذہب کا بہتان لگا کر ہیجان خیز نعروں کے درمیان جج، جیوری اور ایگزیکیوشن بننے والی کسی بھی کوشش کی بیخ کنی کی جائے گی۔
"ہم آپکے ساتھ ہیں" کہہ کر واپسی کا کرایہ دے کر اس آگ کی بنیاد رکھوانے والی ریاست کو ازالے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے وگرنہ جب محترم مفتی تقی عثمانی صاحب جب پہلے قتل پر قاتل کو کم ازکم نیت کا ثواب دے رہے تھے تو ایک مردِ بصیرت نے کہا تھا کہ ایسا مت کیجیے اس سے چوکوں چوراہوں میں مقتل بپا ہونگے۔ ہم نے انہیں"منکرِ حدیث " کہہ کر اپنے بغض کی آگ کو ٹھنڈا کر لیا مگر دیکھیے کہ اچھرہ بازار سے سپریم کورٹ تک وہی کچھ ہو رہا ہے جو انہوں نے کہا تھا۔
ایندھن فروشوں کو مگر مبارک ہو کہ اس سرزمین کو مذہبی جنونیت اور جہالت کا دوزخ بنانے میں کامیاب ہوئے انسانیت جس میں آئے روز جلتی سڑتی ہے۔