1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Rahat Fateh Ali Khan Ki Botal

Rahat Fateh Ali Khan Ki Botal

راحت فتح علی خان کی بوتل

حضرت علی رض کا مشہور قول ہے "انسان اختیار ملنے پر تبدیل نہیں ہوتا بلکہ اسکی حقیقت سامنے آتی ہے"۔ سماج نامی اس دشت میں روزانہ اختیار کے استعمال کے مظاہروں سے صاحبِ اختیار کی حقیقت سامنے آتی ہی رہتی ہے۔ طالبعلم کی نگاہ میں جب انسان ایک تربیت یافتہ کردار کا نام نہیں ہوتا تو اسکا ظرف وسعت نہیں پاتا۔ دولت، شہرت اور طاقت اس میں سما نہیں پاتے۔ وہ انکا اظہاریہ چاہتا ہے۔ انکے ملنے پر ایک احساسِ برتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس انانیت کی تسکین کی خاطر وہ خود کو حاصل اختیار کا استعمال ان پر کرتا ہے جنہیں وہ خود سے کمتر سمجھتا ہے۔ اس کم ظرفی کا تازہ ترین کردار راحت فتح علی خان ہے۔

مذہب نے اس پر خو پر بہت بڑا بند یہ کہہ کر کہ باندھا تھا کہ مسلمان ہے ہی وہ جسکے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ لیکن آئے روز جس معاشرے میں مساجد اور مدرسوں میں کم سن بچوں پر بربریت کر کرکے انہیں اذیت ناک موت تک سے دوچار کر دیا جائے وہاں مسلمان کی تعریف کیا اسلام کیا؟

راحت فتح علی خان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ اپنے ملازم کے چہرے پر جوتے برسا رہا ہے اور وہ اسے مولا کے واسطے دے رہا ہے لیکن کم ظرف آدمی بس کرکے ہی نہیں دے رہا۔ جوتا چھوڑتا ہے تو آخر پہ تھپڑ مارنے لگتا ہے۔ اسرار یہ ہے کہ "میری بوتل کہاں ہے"؟

جب یہ ویڈیو وائرل ہوگئی تو اس کی وضاحت پر مبنی جو ویڈیو جاری کی گئی وہ طالبعلم کی نگاہ میں اس سماج میں انسانیت کی تذلیل کا پچھلی سے بڑا اور شرمناک مظاہرہ تھی۔

آج سے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک بچے پر ایک موٹر سائیکل مکینک لوہے کی تار سے تشدد کر رہا تھا۔ جب ویڈیو وائرل ہوئی اور سی سی پی او لاہور نے بچے کو بلا لیا تو ساتھ بیٹھے پچاس روپے دیہاڑی کماتے بچے کے بے غیرت باپ نے کہا چپیڑ مکا کر لیتا لیکن تار سے تو نہ مارتا۔ کراچی میں ایک بچے کو اسکی بے حسی ماں نے زبردستی مدرسے بھیجا جب وہ نہ جانے پر مصر تھا تو تیسرے دن مدرسے کے باتھ روم سے اسکی لاش ملی۔ جج کی بیوی نے جس بچی کو مار مار کر زخموں میں کیڑے تک ڈلنے دیے اسکے ماں باپ کو تین مہینے تک پتا ہی نہیں تھا کہ انکی بیٹی کس حال میں ہے۔

راحت نے جو وضاحتی ویڈیو جاری کی وہ "عذرِ گناہ بدتر از گناہ "کے مصداق تھی۔ بائیں جانب مضروب لڑکا تھا جسے راحت اپنا بچہ اور بیٹا کہہ رہا تھا جبکہ دائیں جانب اسکا سگا باپ تھا۔ راحت نے کہا کہ وہ پیر صاحب کے دم شدہ پانی کی بوتل تھی۔ اور یہ کہ یہ تو میرا اپنا بچہ ہے اور ہم اچھا کام کرنے پر پیار بھی کرتے ہیں اور غلط کام پر سزا بھی دیتے ہیں۔ اور یہ کہ میں نے اس سے بعد میں معافی بھی مانگی۔ لڑکے نے بھی رٹے رٹائے یہی جملے کہے لیکن اسکے باپ نے قوالی کی روایت کا نام دے کر وہی بات کہی جو موٹر سائیکل والے بچے کے باپ اور مدرسے والے بچے کی ماں نے کہی تھی۔ کہنے لگا استاد کی طرف سے مار تو ہمارے لیے تبرک ہے۔ یاد رہے کہ میں نے خود اپنے کانوں سے مدارس کے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ جس جگہ استاد کی مار پڑتی ہے وہ جگہ جہنم کی آگ سے پاک ہو جاتی ہے۔

(سخت لفظ کی معزرت) مگر ایک باپ ہونے کے ناطے لعنت بھیجتا ہوں ایسی پدری سوچ کی توہین پر کہ جو رزق خدا دیتا ہے کہہ کر بچہ پیدا کرے اور پھر کھلانے کی عمر میں اسے کسی "با برکت استاد" کے پاس چھوڑ کر اسکے چہرے پر پڑتے جوتے کو تبرک کہے۔ فلاں شخص نے اپنے استاد کی زوجہ کے کنگھی کرنے سے منع کرنے پر ساری زندگی کے لیے ٹنڈ کروا دی۔ تف ہے خدا کی پناہ۔

آپ اندازہ لگائیں یہاں"اسلامی ٹچ" دینے کا کہ بوتل کی وضاحت ہوئی پیر صاحب کے دم کردہ پانی سے۔ مطلب کہ یہ دم کردہ پانی تھا جسکی گمشدگی پر ملازم کے چہرے پر جوتوں کے ساتھ "تبرک" برسا کر مسلمان کی تعریف تک ہی کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ بندہ پوچھے اگر یہ تبرک تھا اگر یہ روحانیت کا نام نہاد درس دیتی قوالی کے میدان کی ریت روایت ہے تو پھر بقول راحت کے اس نے لڑکے سے معافی کس بات کی مانگی۔ استاد شاگرد کا ذاتی معاملہ؟ تو گویا ہر استاد شاگرد کے معاملے کو ان پر چھوڑ دیا جائے۔ انتہائی قابلِ مزمت سوچ ہے۔

کاش کہ راحت جیسوں کے پیر صاحب انہیں کسی پانی پر انسانیت کا دم کرکے دیں کہ انہیں یہ احساس ہو سکے کہ کسی کے چہرے پر جوتے برسا کر پیر صاحب والا اسلامی ٹچ دے کر کبھی کہنا کہ استاد شاگرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کبھی ہم استاد سزا بھی دیتے ہیں اور کبھی میں نے تو اس سے معافی مانگ لی یہ تمام انسانیت کی توہین ہے۔

ایک اور رخ اس بھیانک تصویر کا یہ بھی ہے کہ قوالی تو ہوتا ہی روحانیت پر مبنی عارفانہ کلام ہے جس میں اکثر عجز و انکساری اور عبودیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں اس درجہ سنگدلی، تکبر اور وحشت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہاں ہاتھی کے علاوہ بھی اکثر "سماجی جانوروں" کے دانت کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور۔

راحت فتح علی خان پاکستانی سماج کی قابلِ مزمت طرزِ فکر کی ایک کامل مثال ہے۔ جو کہ اپنی رعونت کا شکار اپنے ملازم یا شاگرد کو بناتا ہے۔ یہ تسلسل نہ جانے کب سے جاری ہوتا ہے کہ ایک دن کیمرے کی آنکھ اسے وہاں وہاں آشکار کر دیتی ہے جہاں جہاں اسکا جھوٹا تشخص قائم ہوتا ہے اور وہ پھر اس تشخص کی بحالی کے لیے مذہبی تقدیس کا سہارا لیتا ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ افسوسناک اور انسانیت سوز حرکت اس طبقے کے ایک فرد کی جانب سے سامنے آئی ہے جن سے سماج میں عدم تشدد کے فلسفے کے فروغ کے لیے کام کی توقع ہوتی ہے۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq