Nawaz Sharif Sahib Ke Naam Aik Khula Khat
نواز شریف صاحب کے نام ایک کھلا خط
میاں صاحب! تیسری دنیا کے ایک ملک کا دوسرے درجے کا شہری آپ سے مخاطب ہے۔ میرے دوست مسلم لیگ ن ضلع منڈی بہاؤالدین یوتھ کے صدر اور آپکی جماعت کے نصابی کتابوں کے علاوہ بھی کچھ پڑھنے لکھنے والے چند سیاستدانوں میں سے ایک خرم مشتاق صاحب نے غالباً 2018 کے انتخابات کے بعد "دائروں کا سفر" کے عنوان سے ایک شاہکار مضمون لکھا تھا۔ شاید خرم صاحب اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ آپ کو باور کروا سکیں مگر میں یہ جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ آج پھر ایک دائرے کے سفر سے وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔
قصہ یوں ہے کہ پاکستانی سیاست کا ایک ادنی سا طالبعلم ہوں ارتقاء جسکی دلچسپی کا موضوع ہے۔ آپ نے پاکستانی سیاست میں بلاشبہ ایک ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ یہ طنز نہیں زمینی حقیقت ہے جنرل ضیاالحق اور جنرل جیلانی کے ہاتھوں پروان چڑھ کے ایک دہائی میں آپ جنرل مشرف کے بالمقابل کھڑے تھے۔ اپنی ازلی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو شہید (بقول اس وقت کی مقتدرہ کے) "سیکورٹی رسک" کے خلاف آئی جے آئی اور انکی حکومت غیر جمہوری طریقے سے گرانے سے لے کر انکے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی اور ووٹ کو عزت دو تک آپکا کا سفر بلاشبہ آپکی ارادے کی حد تک سیاسی و جمہوری بالیدگی کی ایک دلیل تھا۔
مگر افسوس کہ مشرف دور میں پہلے محترمہ بے نظیر شہید صاحبہ کی طرف سے لندن میں آپکی بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں عدم شرکت، جنرل مشرف سے ڈیل اور یہ بیان کہ وہ مشرف کو آپ پر ترجیح دیں گی اور پھر بعد میں آپکے میموگیٹ میں سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہننے سے میرے جیسے جمہوریت پسندوں کے دل میں اس چارٹر سے بننے والی امیدیں خاک میں مل گئیں یوں تو ہم ایسے جیتے جی خود بھی خاک میں ملے ہوتے ہیں۔
اسکے بعد آپ 2013 میں پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم بنے۔ کوئی شک نہیں کہ آپ نے امن و امان اور معیشت کے محاذوں پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پھر آپکو پانامہ کیس میں نااہل قرار دلوا کر جیل بھیج دیا گیا۔ آپ نے "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ پاکستانی قوم کے سیاسی و جمہوری سفر میں ایک اہم پیشرفت تھا۔
مگر بصد احترام مجھے کہنے دیجیے کہ آپکے پاس دو مواقع ایسے آئے جہاں آپ پر جمہوریت اور اس نعرے کی قیمت اور خراج ادا کرنے کا امتحان ایک قرض کی صورت آن پڑا۔ مگر آپ نے اپنے کمفرٹ زون Comfort Zone کو ترجیح دی۔ آپ پہلی بار معاہدہ کرکے جدہ اور دوسری بار لندن روانہ ہو گئے۔ یہ انفرادی حیثیت میں آپکا حق تھا مگر ایک قومی رہنما کو خود کو ایسے موقع پر انفرادی حیثیت میں نہیں اجتماعی تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ تیسری دنیا کی عوام اپنے لیڈران کی خاطر ساری زندگی قربانیاں دیتی ہے کبھی کبھار ہی لیڈروں پر یہ وقت آتا ہے۔
آپ نے "ووٹ کو عزت دو " کو ایک بارگیننگ ٹول کے طور پر استعمال کیا اور لگے یورپ سے اپنی تصاویر شائع کرنے۔ ذرا برابر بھی شک کرنے کا کوئی حق نہیں کہ آپکی بیماری کے متعلق کوئی بھی نہ گفتہ بہ بات کی جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے آپکو صحت دی۔ لیکن میاں صاحب یہی وہ سوال ہے جسکا شہباز شریف تک منصور علی خان کو جواب نہ دے پائے کہ آپکے معالج نے آپکو کیا صرف پاکستان کے سفر سے منع کیا تھا چلیں مان لیا کیا ہوگا لیکن کیا "معالج" نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے بھی منع کر دیا جسکے بارے میں شہباز شریف صاحب نے پچھلے دنوں وضاحت کی کہ وہ تو ہم اپنے منتخب نمائیندوں سے کہتے تھے کہ ووٹر کی عزت کریں حلقے میں جائیں عوام کی خدمت کریں۔ یہ تھا "ووٹ کو عزت دو" کا مطلب۔ یقین کیجیے گا یہی وہ "گڈ کاپ بیڈ کاپ Good Cop /Bad Cop کی سیاست کی ہنڈیا ہے جو اب بیچ چوراہے پھوٹ چکی۔ یہی وہ ڈبل گیم تھی جسکی وجہ سے آپکے ووٹرز اور سپورٹرز کے بارے خواجہ آصف صاحب کو کہنا پڑا کہ میاں صاحب کی کال پر سو بندہ بھی نہ نکلا۔
یہ کیسی نظریاتی اساس ہے کہ جب آپ عوام سے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگواتے تھے تو پارٹی صدر اور آپکے بھائی ہی اس سے متفق نہ تھے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ جمہوریت کی ایک تحریک لے کر نکلی تھیں اور حمزہ شہباز صاحب ٹی وی پر آکر کہتے تھے بڑی بہن کو سمجھا لیں گے اور پھر وہی ہوا انکا ٹویٹر اکاؤنٹ خاموش ہوگیا آپ باہر تشریف لے گئے اور سلمان شہباز صاحب نے شہباز شریف صاحب کی "The Game Changer" والی تصویر ٹویٹ کر دی۔
حیران کن امر یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب نے تو بطورِ وزیراعظم کھڑے ہو کر کہا تھا کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ نے الیکشن سے دو روز قبل انٹرنیشنل میڈیا کی ایک خاتون کو سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کیسے کہہ دیا کہ " I had never any problem with Military"۔ میاں صاحب کیا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ماضی میں مسائل رہے مگر اب ادارے اپنی اپنی ڈومین میں رہ کر کام کرنے کا اعادہ کر چکے۔ یہ کیسی ڈیل ہے جس میں تاریخی حقائق کو بھی جھٹلانا ضروری تھا۔
میاں صاحب! آپ بلا شبہہ ایک بڑے لیڈر ہیں۔ آپکی ملک و قوم کے لیے خدمات ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کے لیے بھی آپ نے عرق ریزی کر رکھی ہے۔ قوم جن معاشی مشکلات کا شکار ہے ان میں آپکے تجربے کی ہمیں ضرورت تھی۔ لیکن کاش اے کاش کہ آپ بھی اپنے تجربے سے کچھ سیکھتے۔ آپ جب تشریف لائے تھے تو مطیع اللہ جان صاحب کے سوال "سب کچھ اللہ پر ہی چھوڑا ہے یا کچھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی چھوڑا ہے " سے رائے عامہ کی تشخیص کر پاتے۔ مگر افسوس کہ مجھ جیسے عامی "بیانیے کی تلاش میں ن لیگ" لکھ لکھ کر تھک گئے مگر آپ ایک ہی سوراخ سے ایک بار پھر ڈسے جانے پر مصر رہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کے "نئے سیاسی سفر" کے مطابق آپ سب نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے کہنے پر عمران حکومت کو چلتا کیا۔ افسوس یہ ہے کہ آپ جنرل باجوہ کی ڈبل گیم میں عمران خان صاحب کا انجام دیکھ کر بھی انہی کا آلہِ کار بنے۔ انجام مختلف کیسے ہوتا۔
آپ نے 2021 میں عمران حکومت کو ساڑھے تین سال بعد اس وقت چلتا کیا جب وہ انتہائی غیر مقبول تھی۔ اس پر وہی گڈ کاپ /بیڈ کاپ والی سیاست بری طرح پٹ گئی کہ "بڑے میاں صاحب اس پر خوش نہیں" جبکہ فیصلے بھی لندن میں ہوتے ہیں اور پھر اچانک ایک ٹویٹ کیا جاتا ہے کہ "بڑے میاں صاحب پیٹرول /ڈیزل بڑھانے والی میٹنگ سے غصے میں اٹھ کر چل دیے "۔ باقی کسر خاندانی معاملات میں ڈار-مفتاح کھینچا تانی نے نکال دی۔ اور چھے مہینے میں معاشی بہتری کے وعدے پر آئی ہوئی پی ڈی ایم نے عوام کا بھرکس نکال دیا۔ حیرت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی آپکے سیاسی پروں میں کوئی جنبش پیدا نہ کی۔
آپ نے جو معزرت کے ساتھ بے وقت کی راگنی کے مصداق وکٹری سپیچ میں ایٹم بم سے لے کر ترقیاتی منصوبوں (جو بلاشبہ آپکے کریڈیٹ پر ہیں) کا ذکر کرتے ہوئے سادہ اکثریت نہ ملنے پر اظہارِ تاسف کیا، یہی آپکے لیے ایک جواب تھا کہ آپ نے عوامی بیانیے کی بجائے "ساڈی گل ہوگئی اے" پر بھروسہ کیا اور اسکا انجام دیکھ ہی لیا۔ یقین کیجیے ایک سیاسی طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میرا یہ دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ نون کو جو ووٹ نہیں پڑا وہ ووٹ کو عزت دو کا ووٹ تھا۔ کاش کہ آپ نے اس پر سودے بازی نہ کی ہوتی۔
الیکشن سے دو دن قبل قومی اخباروں کے مین پیجز پر "پاکستان کو نواز دو" اور وزیراعظم نواز شریف کی بجائے کاش اے کاش کہ اپنے "تجربے " سے واقعی پاکستان کو "نواز دینے" کا فیصلہ کر لیا ہوتا۔ کاش اے کاش کہ آپ کی سیاست زمینی حقائق سے اتنی قطع تعلق نہ ہوتی کہ آپ انکا ادراک نہ کر پاتے۔ مگر اسکے لیے آپ کا اپنے لوگوں میں اپنی دھرتی پہ رہنا ضروری تھا۔ کاش یہ جو "ساڈی گل ہوگئی ہے"۔ یہ گل عوام سے ہوئی ہوتی۔ If you love me then I love you too کہہ کر آپ ہر بار عوام کو مشکل میں چھوڑ کر چلے نہ جاتے۔ کاش کہ آپ اپنے دہائیوں کے سفر کو "دائرے کا سفر " نہ بناتے۔
پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان اور تین بار کے وزیراعظم کی یہ بے وقعتی کسی طور پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے لیے سودمند نہیں کہ جنہوں نے پاکستان کو برطانوی راج کے اثراتِ بد سے نجات دلوانی ہے مگر یا للعجب کہ برطانیہ میں رہ کر۔۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
خدا حافظ
تیسری دنیا کا ایک دوسرے درجے کا باسی ایک پاکستانی عام آدمی جسکو انتظار ہے کہ اسکے لیڈر یہ کہیں کہ "ساڈی عوام نال گل ہوگئی اے"