Mir e Sahafat
میرِ صحافت
اس جہان میں حکمرانی ایک ارتقائی سفر سے گزر کر جمہوریت تلک پہنچی ہے۔ شہنشاہیت، ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر جمہور کی کھوپڑیوں کے مینار بناتی حکمرانی آج انہی کھوپڑیوں کو اپنے منشور سے لبھا کر انکا ووٹ مانگتی ہے۔ خود کو انکے خون پسینے سے چلتے ایوانوں میں انکا نمائیندہ کہتی ہے۔ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔
دنیا میں جہاں حکمرانی ارتقاء کا سفر طے کرکے جمہوریت تلک پہنچی وہاں خود جمہوریت ابھی ارتقائی مسافت طے کر رہی ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری دنیاؤں میں اسکی منازل مختلف ہیں۔ تیسری دنیا میں اس نے ابھی آزاد عدلیہ اور آزادیِ صحافت کے سنگِ میل طے نہیں کیے۔ جو کہ جمہوریت کے اہم ترین ستون ہیں۔
پاکستانی تاریخ میں زیادہ تر آمریت کا راج رہا۔ آمریت سے آزاد عدلیہ اور صحافت کی امید عبث ہے۔ مگر صد حیف کہ اس آمریت کے سائے میں پلتی جمہوریت بھی خود کو آمرانہ اندازِ فکر سے آزاد نہ کر سکی۔ جاگیردارانہ طرزِ سیاست خود جمہوریت میں بدترین آمریت کی شکل ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ بھی اس جمہوریت کو بزورِ بندوق تاراج کرنے کا جواز نہیں کیونکہ اس جمہوریت نے ہی خود کو ذاتی تطہیر و احتساب کے پیہم عمل سے گزار کر اپنا ارتقائی سفر جاری رکھنا تھا۔ جو کہ بار بار اسکے تعطل کی وجہ سے قائم نہ ہو سکا۔ آج یہی وجہ ہے کہ انسان کے گھر سے خدا کے گھر تک اور میدان سے پارلیمان تک جمہوری اقدار پروان نہ چڑھ سکیں۔
معاشی اور طبقاتی تقسیم کی خلیج گہری ہونے کی وجہ سے اونچے ایوانوں تلک عوام کی رسائی تو ہوتی نہیں۔ ایسے میں صحافت عوام کی آنکھیں اور کان بن کر جمہوریت کی خبر گیری کرتی ہے۔ جس خدا کی ہم قسم کھاتے ہیں وہ قلم کی قسم کھاتا ہے۔ طالبعلم کی نگاہ میں قلم کو اس قسم کا الم بنا کر اٹھانے والا شخص صحافی کہلاتا ہے۔ اس قسم کی لاج رکھنے اور نہ رکھنے والے دونوں طرح کے صحافیوں کا مقام خدا کے سپرد۔
طالبعلم نے خدا کے اس قلم سے بساط بھر کچھ علم پایا اور ہوش کی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ آئینِ پاکستان کو بزورِ بندوق خود اسکے محافظ ہی نے توڑ کر جمہوریت کو یرغمال بنالیا ہے۔ اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی یہ چوتھی کاوش تھی۔ پاکستانی اعلی عدلیہ نے جنرل مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا۔ اور انہیں تین سال تک پاکستان کو ذاتی آئین کے تحت چلانے کی اجازت دے دی۔ بے نظیر بھٹو شہید پہلے ہی جلا وطنی میں تھیں اور وزیراعظم نواز شریف صاحب نے جمہوریت کی خاطر قربانی دینے پر اپنی آسائش کو ترجیح دی اور سعودی عرب کی ضمانت پر پہلے سعودیہ اور پھر اپنے آبائی ملک برطانیہ چلے گئے۔
نئے نئے پروان چڑھتے الیکٹرانک میڈیا میں چند صحافی تھے جنہوں نے آمر کی مطلق العنانیت اور منہ زور غلبے کی اس خو پر اپنے قلم کا بند باندھنا شروع کیا۔ ایسے میں ملک کے سب سے بڑے ٹی وی چینل پر ایک ایسا صحافی تھا جسکے والدِ محترم پاکستان کی تاریخ میں علم و ادب، تعلیم انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ اس سے پچھلے مارشل لاء میں جب اس اگلے مارشل لاء کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے انہوں نے عظیم خدمات سر انجام دیں تھیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی تھیں۔ خدا اپنی قلم کی قسم کی لاج رکھنے کی انکی ریاضت قبول کرے۔
اس چراغ کے نیچے اندھیرا نہیں تھا اور روشنی کو کوئی قید کہاں کر سکتا ہے۔ سو اس نام اور ولد کا حقیقی "وارث" بن کر یہ کل کا اخبار نویس آج کا ایک نامور اینکر بن گیا اور اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے عالمی شہرت پا گیا۔ جب آمر کے اقدامات کا باقاعدہ قومی مفادات سے کھلم کھلا ٹکراؤ ہونے لگا اور ملک میں مختلف تحریکیں اٹھنے لگیں تو عوامی بصارت و گویائی بن کر انکی کوریج کرتے میڈیا پر قدغن لگانے کا فیصلہ ہوا۔ جن صحافیوں کو راندہِ درگاہ کیا گیا ان میں یہ صحافی بھی شامل تھا۔ اس عہد میں عمران خان صاحب کو دونوں بڑے قومی رہنماؤں کی ملک بدری کی صورت میں ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر جگہ بنانے دینے میں اس صحافی اور اسکے ادارے کا بہت نمایاں کردار تھا جسکا سلوگن تھا جیو اور جینے دو۔ یہ نظریہ جمہوریت کا دوسرا نام بھی ہے۔ آمریت کو کیسے بھاتا۔ یاد رہے کہ اس عہد میں یہ صحافی اور یہ چینل دوسری دونوں بڑی جماعتوں کی آنکھ کا بھی تارا تھا۔
اسکے بعد وقت نے کروٹ لی۔ بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف صاحب وطن واپس آئے۔ صد افسوس کہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر صاحبہ نے اپنی شہادت سے قبل اور سانحہ کارساز کے بعد اس صحافی کو ناشتے پر بلایا اور باہر لان میں"بوجوہ" پلاسٹک کی میز کرسی پر بیٹھ کر ناشتے کے دوران بتایا کہ انہیں ڈر ہے کہ جنرل مشرف انہیں مارنا چاہتا ہے اور وہ اس بارے ایک کتاب لکھ رہی ہیں جو کہ شاید انکے مرنے کے بعد شائع ہو۔ عجیب اتفاق ہے اس بہادر خاتون کے والد مرحوم نے اپنے عدالتی + جرنیلی قتل سے قبل جیل میں جب If I am Assassinated لکھی تو اس صحافی کے والد انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبردار تھے آج اسکی بیٹی اپنے قتل کے خدشے کا اظہار اس صحافی کو بلا کر کر رہی تھی جو آج کوئی ایک چوتھائی صدی بعد اسی طرح آمریت کے خلاف خدا کی اٹھائی قلم کی قسم کا بار اٹھائے ہوئے تھا۔
اور پھر وہی ہوا 2007 میں لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان کی خاک ایک اور محب وطن جمہوری رہنما کے خون سے تر ہوئی، بی بی شہید ہوگئیں۔ اور 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی۔ بی بی شہید جو اب کی بار آصف علی زرداری صاحب کے قومی سیاست میں حصہ دار نہ بننے کی خواہاں تھیں نہیں جانتی تھیں کہ پیپلز پارٹی زرداری صاحب کی جماعت بننے جا رہی ہے۔ بے نظیر صاحبہ کے ساتھی آہستہ آہستہ معدوم ہوتے گئے اور زرداری صاحب کی پوری ٹیم پیپلز پارٹی پر چھا گئی۔ وہ نظریات بھی گڑی خدا بخش کی قبروں کے کتبے ہوئے۔
پیپلز پارٹی حکومت نے میڈیا سے متعلق مشرف کی پالیسی میں تبدیلی کے باوجود مقتدرہ کی جانب سے میڈیا پابندیوں کو قبول کیا اور یہ صحافی اور اسکا ادارہ جو کل تلک بی بی شہید اور پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے پیش پیش تھا آج اقتدار کی مجبوریوں کا شکار پیپلز پارٹی کے کئی وزراء کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ محترمہ کی شہادت کو داخلِ دفتر ہوتا دیکھ کر اس صحافی کا احساسِ زیاں کا اظہار "کئی لوگوں" کو بھاتا نہیں تھا۔
اسکے بعد جب 2013 میں اقتدار کا ہما میاں صاحب کے سر بیٹھا تو ایک سال بعد اس صحافی کو کراچی میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا اس سے پہلے خدا اپنی عطا کردہ اسکی جان اسکی گاڑی کے نیچے نصب کیے ایک ریموٹ کنٹرول بم سے بچا چکا تھا۔ مگر شکر خدا کا کہ جان ایک بار پھر بچ گئی۔ اس صحافی کے بھائی نے اس حملے میں کچھ "مقدس" نام لیے تو اس صحافی کے ادارے کو باوجود میاں صاحب کی حکومت اور اس صحافی کی تیمارداری کے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں صاحب کے اس عہد تلک یہ صحافی پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان صاحب کا پسندیدہ ترین صحافی تھا۔ مگر اس محبت کے انجام پر بھی ابھی رونا آنا باقی تھا۔
2014 میں انتخابات دھاندلی کے خلاف دھرنے کے دوران خان صاحب نے مشرف دور میں خود کو اپوزیشن لیڈر بنانے والے جنگ جیو گروپ کے خلاف ایک محاذ کھول لیا۔
یاد رہے کہ یہ صحافی عالمی سطح پر پاکستان کی صحافت کی پہچان بن چکا تھا۔ کئی جنگوں کی کوریج، افغانستان جنگ، پاک بھارت تعلقات، پاک بنگلا دیش ایشوز، کرکٹ ڈپلومیسی میں اسکی رائے کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ داخلی طور پر بھی یہ ہمیشہ ملک کے پسے ہوئے طبقات اور مظلوم لوگوں کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا۔ مثال کے طور پر لاپتہ افراد کے کیس کو قومی سطح پر اجاگر کرنے میں اسکا بہت بڑا کردار تھا۔ اپنے کالمز سے کتابوں تک اسکا قلم سچائی کے لیے متحرک دکھائی دیتا ہے حالانکہ اسکی تازہ ترین کتاب کے مطابق "سچ بولنا منع ہے"
2018 میں پھر عمران خان صاحب کی حکومت آئی تو یہ وہ عمران خان نہیں تھے جنہوں نے سہیل وڑائچ صاحب کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک کٹھ پتلی وزیراعظم نہیں بننا چاہتا جسے فوج پہلے لے کر آئے اور پھر اسے کنٹرول کرے۔ خان صاحب کے دورِ حکومت میں اس صحافی نے خان حکومت کی مختلف پالیسیوں اور انتقامی سیاست پر تنقید شروع کر دی۔ جب اسد طور صاحب کو انکے گھر پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو یہ صحافی اسکے ساتھ کھڑا ہوا اور نتیجے کے طور پر پابندی کا شکار ہو کر آف ائیر کر دیا گیا۔ خان صاحب پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا سہرا جس صحافی کے سر باندھتے تھے اسے ٹویٹر سے ان فالو کر دیا۔ تحریکِ انصاف کے کی بورڈ وارئیرز نے باقاعدہ اسکی ان فالو مہم چلائی اور اسے غدار، بھارتی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا۔ اور اس خان حکومت کے اختتام پر ایک تقریب میں کھلکھلاتے ہوئے عمران خان کو یہ صحافی کہہ رہا تھا "Welcome to the Traitors's club"۔
اور آج۔۔ جب 2024 کے انتخابات میں بلا شبہ ایک تاریخی ریاستی جبر کے خلاف پاکستان تحریک انصاف ایک نئی انتخابی تاریخ رقم کر چکی تو انتخابات دھاندلی میں عالمی میڈیا میں مقتدرہ کے حمایت یافتہ کہلانے والے میاں صاحب نے ایک بار پھر کیل کانٹوں سے لیس کرکے جن رانا ثنااللہ صاحب کو اس صحافی کے خلاف میدان میں اتارا ہے وہ خان حکومت میں اپنے خلاف بنائے گئے ہیروئین کیس میں بطورِ صفائی و ثبوت اسی صحافی کا کالم پیش کیا کرتے تھے۔ آج وہی رانا ثناااللہ صاحب اس صحافی کو ملک ریاض کے ہاتھوں بکا ہوا قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ میاں صاحب کی وعدے کے مطابق وطن واپسی کا مطالبہ کرتے یہ صحافی اس خدشے کا اظہار کیا کرتا تھا کہ ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آ کر میڈیا محاذ کھولے گی اور وہی ہوا۔
قصہ تمام ہوا۔ قارئین آپ مجھ لکھاری سے زیادہ واقفانِ حال ہیں۔ دراصل پاکستان میں سیاست دو طرح کی ہوتی ہے۔ حزبِ اختلاف میں اقدار کی سیاست اور حکومت میں یا حکومت کے لیے اقتدار کی سیاست۔ طاقت کے بت کدے میں سیاستدان اقتدار کی خاطر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو انہیں اذان کی آواز بری لگتی ہے۔ اور جب یہ راندہ درگاہ ہوتے ہیں تو عوامی مسجد ڈھونڈتے ہیں۔ جہاں انہیں میرِ صحافت بھی ملتا ہے۔
کبھی بنگلہ دیش میں اپنے والد کو ملنے والے صحافتی ایوارڈ (جسے انہوں نے احتجاجاً واپس کر دیا) لینے پر تو کبھی اجمل قصاب کے جھوٹے پراپیگنڈے پر را کا ایجنٹ، کبھی گمشدہ افراد کی آواز بننے پر تو کبھی اکبر بگٹی کے قتل کی تحقیقات پر ریاست مخالف، کبھی ایک سیاسی جماعت کے عوامی و جمہوری بیانیے کا ساتھ دینے پر دوسرے کے نزدیک لفافہ تو کبھی دوسری جماعت کے مظلوم ہونے پر پہلی ملک ریاض کے ہاتھوں بکے ہونے کا الزام۔ سچ تو یہ ہے کہ میرِ صحافت نے اس دن خدا کی قلم کی قسم کا حق ادا کر دیا جس دن کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح سے مجھ تک غداری کے الزام تو میرے لیے ایک میڈل اور اعزاز ہے۔ خود پر انتہائی متعصب تنقید کرنے والے صحافی عمران ریاض صاحب کے لیے انکی گمشدگی پر آواز بلند کرنا میری نگاہ میں انکی عظمت و رفعت تھی جو ریاضت مانگتی ہے۔
اہلِ جفا ماں باپ بن کر جب سوچتے ہیں تو اپنے تجربات اور احساسِ زیاں کی روشنی میں اپنی اولاد کو اس راہِ کٹھن سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ جناب پروفیسر وارث میر مرحوم نے بھی اپنے کرکٹ کھیلتے بیٹے کو ملک کے بڑے اخبار Dawn میں پہلا سپورٹس کالم چھپنے پر ااس راہِ پر خار سے دور رہنے کی نصیحت کی تھی۔ مگر آج وہ صحافی انہی پروفیسر وارث میر کی میراث تھامے خدا کی اٹھائی قلم کی قسم کی لاج رکھے ہوئے ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرداں صحافت کا میر ہے وہ صحافی۔ حامد میر ہے وہ صحافی۔ میر صاحب خدا آپ کو اپنی قلم کی قسم کی لاج رکھنے کا اجر دے۔ سلامتی ہو۔