Maa Ka Burhapa
ماں کا بڑھاپا
ماں، نہ کر خدارا تجھے واسطہ ہے مت کر یہ سب دیکھنے کے لیے جو آنکھیں چاہئیں وہ میرے پاس نہیں یہ سب کچھ سہہ جانے کے لیے سینے میں جو چٹان چاہیے، اسکی جگہ ایک گوشت پوست کا دل دھڑکتا ہے۔ بڑے بڑے دکھ جزب ہو گئے اس روح میں مگر یہ والا نہیں ہو سکتا ماں۔ ان ہاتھوں کو میں نے تنکا تنکا جوڑ کر اپنی کائنات کا آشیانہ بُنتے دیکھا۔ ذرہ ذرہ سینت کر میری دنیا آباد انہی ہاتھوں نے کی۔
میرے وجود کا خلیہ خلیہ جوڑا ان ہاتھوں نے۔ ان انگلیوں میں، میں نے سبزیوں دالوں کے شاپر اٹھاتے ہوئے دیکھے کہ جن سے پڑنے والے نشانوں اور لکیروں کی مقروض ہے، میری پور پور، ان ہاتھوں کو میں نے آدمیت کے لبوں پر جنت سے جمی ہوئی بھوک مٹاتی گندم کو تھپکتے دیکھا۔ جسم کیا روح کے ملبوس کو اجلا کرتے ان ہاتھوں کا خراج ہیں میرے بچوں کے سکول یونیفارم اور رنگا رنگ ملبوسات دھوتی یہ مشینیں یہ ڈرائیر۔
سخت جاڑے میں اس ریلوے کوارٹر کے چھوٹے سے کھرے میں یخ بن بستہ پانی میں ٹھٹھرتے ان ہاتھوں کو شہروں شہروں ملکوں ملکوں گیزروں سنکوں کے پانیوں کو حرارت دیتے دیکھا میرے ان ہاتھوں نے میری راہوں سے کانٹے چنتے زخموں سے رستے لہو کو رنگِ حنا سمجھا۔ اولاد کی راہوں کی گرد کو زیب و زینت سمجھا۔ اب کوئی بتائے کہ ان ہاتھوں کو لرزتا کیسے دیکھوں۔
اپنی ساری قدرتی توانائیاں مجھے سونپ کر اب ان ہاتھوں کو مصنوعی توانائیوں کی سرنجوں کی نوکوں سے چِھدتے جب تیرے ہاتھ لرزے تو یہاں پوری کائنات ہِل گئی ماں۔ اپنے معمار ہاتھوں کو ریزہ ریزہ ہوتے کوئی کیسے دیکھے ماں، جب ڈرپ چلنے لگی تو میرے اندر وہ بچہ مچلنے لگا جب اسی طرح تجھے ایک ڈرپ لگا کر ریلوے ہسپتال کا ڈسپنسر کوارٹر نمبر 54/اے سے نکلا ہی تھا کہ ڈرپ میں تیرا مقدس خون بھرنے لگا تھا۔
تو نے اونچا اونچا کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا اور میں بھاگا تھا ننگے پیر میلاد چوک سے اسے واپس بلا کر لایا تھا۔ پھر سائیکل پر وہ اینٹی الرجی ٹیکہ تب میرے دل میں ایک چور گھس کر بیٹھ گیا۔ کبھی گیا ہی نہیں۔ کہ میں تجھے کھو دوں گا۔ میرا یار میرا بیٹا میرا جگر میرا بھتیجا جب میرے پاس آیا رہنے تو میں اسے نمناک آنکھوں سے گلے لگاتا تو وہ سمجھتا کہ اس نے میرے سینے میں منہ چھپایا ہے۔
حقیقت یہ ہوتی کہ میں اسکے سائے میں پناہ لیتا کہ زندگی بھر جس دل کے چور سے میں خوفزدہ ہو کر روتا رہا توبی اسکی آنکھوں میں نم آنکھیں ڈال کر مسکراتا رہا۔ بڑا آ دمی بنے گا وہ زندگی میں کبھی تجھے سوتے نہیں دیکھا یوں لگتا ہے ازلوں سے تو جاگ رہی ہے۔ کُل بارہ آنکھیں تھیں۔ دس بند ہوتیں تو وہ دو بند ہوتیں۔ وہ دس آنکھیں کُھلتیں تو ان دو جاگتے پاتیں۔
وہی دو آنکھیں جنہوں نے ہماری کائنات کے گلستاں کِھلانے کے بعد ان سے موتیے کے پھول اپنے لیے چن لیے۔ یوں لگتا کہ سورج ان آنکھوں کو کھلا دیکھے بنا طلوع ہونے سے قاصر ہو۔ وہ دو آنکھیں کل مسیحا نے مصنوعی خماری سے موندنے کے لیے کہا تو اسے میں کیا کہتا، بے قراری میں قرار پاتی یہ دو آنکھیں اب قرار میں بے قراری محسوس کریں گی تو کیا کروں گا۔ کہاں جاؤں گا۔
پھر ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ یہ سوتی رہیں گی معالج نے یہ کہا تو حیران و ششدر اسکے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ وہیل چیئر؟ یا خدایا، جس جفا کش جسم کی گردش کی پیروی میں اپنی زمین کو حرکت کرتے دیکھا اس کو وہ بچہ اٹھا کر وہیل چیئر پر ڈالے وہی بچہ، اس جسم کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا، زندگی کی سب سے بڑی خواہش تب یہ تھی کہ کاش کہ آنکھیں کھول دے اور کہے خود چل کر جاؤں گی۔ مگر طاقتور ایک ہی ہے باقی سب وہم ہے طاقت کا۔
وہیل چئیر سے گاڑی میں بٹھانے میں مدد کرتی میری ہمسفر کو عظمت کا ایک اور جھنڈا گاڑنے کا موقع مل گیا۔ اور وہ دو بچے جو کنکھیوں سے میرے گرتے آنسو دیکھ رہے تھے۔ اور میں انکی آنکھوں میں آنے والے کل کی جھلک دیکھ رہا تھا۔ زندگی وہ میوزیکل چیئر کا کھیل ہے، جسکا آخری راؤنڈ وہیل چیئر پر کھیلا جاتا ہے۔ کھلاڑی جگہیں بدلتے ہیں۔ پیچھے بجنے والا ساز عمر کے وال کلاک کی سوئیوں کی ٹک ٹک ہے۔ اور بس امپائر کا فیصلہ حتمی ہو گا۔
فیضان گاڑی چلا رہا تھا۔ میں پچھلی سیٹ پر اگلی سیٹ پر بیٹھی ماں کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے۔ اچانک زندگی کے سب سے بڑے ناسٹیلجیانے حملہ کیا۔ اگلی سیٹ پر ماں کی جگہ کوئی اور آگیا۔ اپنی زندگی میں فاتح عالم ایک ہی دیکھا۔ جو ایک ہی بار ہارا پھر کبھی مڑ کر دِکھا ہی نہیں۔ اس شکست کا چشم دید گواہ معلوم نہیں خوش بختی یا بد قسمتی سے میں ہی تھا۔
وہ اپنے باپ کے ساتھ انکا جنت کا میرا دوزخ کی جانب سفر، گاڑی بدل گئی منظر بدل گیا۔ شہر بدل گیا۔ اچانک ماں نے سر کو جھٹکا۔ گھبرائی ہوئی عجیب سی آواز۔ مجھے باہر نکالو۔ او بھائی میڈیکل سائنس والو محسن ہو تم انسانیت کے مگر یارو اپنی پیشہ ورانہ بھیڑ چال سے کسی کسی کے لیے نکلا بھی کرو۔ اب وہ آواز ہے کہ کانوں سے جاتی ہی نہیں۔
گھر آیا تو مشکل سے کمرے تک چھوٹے چھوٹے قدم۔ سہارے کے ساتھ عجیب عالم ہے۔ یہ رات مجھے کیا صرف یہ بتانے کے لیے آئی کہ جو بزاتِ خود سہارا ہوتے ہیں وہ ان کاندھوں پر آخر آن سہارا لیتے ہیں۔ جنکو عمر بھر بے سہارا نہیں ہونے دیتے۔ ہڑبڑا کے ہر تھوڑی دیر بعد اٹھتی تو میری اعلی ظرف بیگم اچھل کر انکی چارپائی پر ہوتی۔ مجھے کہتی آپ لیٹ جائیں میں دیکھ رہی ہوں۔
اس سمعے مجھے اچانک لگا کہ کوئی ایثار کا فرشتہ ہے وہ ایک عورت نہیں۔ اس بے بسی کو لفظوں میں ڈھالنا مشکل تھا۔ وقت کا گزر چکنا بھی ایک نعمت ہے۔ صبح ماں نے مسکرا کے دیکھا تو پورا جہان مسکرانے لگا۔ مگر اسے کیا بتاؤں زمین کی گردش ماپتے قدموں کا یوں دھیرج اختیار کر لینا دل کی دھڑکنوں کو معدومیت کا پیام دیتا ہے۔ عرش کی طرف دیکھ کر دوڑتی ماں فرش کی جانب دیکھ کر چلنے لگی۔
حرکت کے قوانین کا اعتبار جاتا رہا۔ اسے کیسے بتاؤں کہ ان قدموں کو خواب نگر کی گلیوں بازاروں اسٹیشنوں پر وقت کو ہانکتے دیکھا۔ دھرتی ماں ہو یا میری ماں اپنے اپنے سورج کے گرد اپنے اپنے مداروں میں ایک دوسرے سے مقابلے پر رہے۔ میں اپنی ماں کو یہ کیسے بتاؤں کہ اس کی گردش میں یہ خلل دھرتی ماں کی گردش کو تھما دے گا۔ یہی قیامت ہے۔
یہ آواز اور اسکی گھن گرج اسکی آغوش سے لے کر آج تک میری ساری کائنات کی فضاؤں میں ثبت ہے۔ خمیر کی سماعتوں میں رچی بسی ہے، یہ آواز، یہ صدا دھیمی کیا ہوئی فضاؤں میں اک عجیب سوگ ہے۔ اسے میں کہنا چاہتا تھا۔ گونج نہ ماں گونجتی کیوں نہیں۔ تیری خاموشی زمانے کی ساری صداؤں کو سہما رہی ہے۔
بے بسی سی بے بسی ہے۔ وہ چہرہ جو بچپن کے افق پر جوبن کا آفتاب بن کر طلوع ہوتا تھا آج اس احساس کے ساتھ سرمگیں شام ہوتا ہوا نگاہوں کو اور بھی رنجور کرتا ہے کہ اس نے اپنی کرنیں میری صبحوں میں تج دیں۔ یہ آنکھیں اپنی بصارتوں کا نور میری اندھیری راہوں میں بکھیر کر ویراں ہوئیں۔ ان گھٹاؤں جیسی زلفوں نے اپنی سیاہی میری حیات کی نظر اتار کر پھینک دی۔
ان ہاتھوں نے اپنی قدرتی توانائیاں مجھے سونپ کر خود کو نوکِ سوزن میں پرویا۔ اس وجود نے اپنی تخریب سے مجھے تعمیر کیا ہے۔ ان پیروں نے اپنی جنبشیں میری جنت استوار کرنے میں لٹا دیں۔ عجیب عالم ہے ماں، میں وہ آدم ہوں جسے اپنی آنکھوں سے ہر بار اپنی جنت کو دور جاتے دیکھنا ہے۔ کاش اے کاش کہ میں تجھے یہ کہہ سکتا کہ۔
ماں بوڑھی نہ ہو۔ خدارا
وہ کل گزرا ہوا آتے ہوئے کل کی خبر دے گا
زہر بیتی ہوئی یادوں کا جو رگ رگ میں بھردےگا
تیرے جوبن سے پائی ہے جوانی میرے بچپن نے
بڑھاپا ماں تیرا مجھکو تیرا ہم عمر کر دے گا