Khuda Ka Bagh
خدا کا باغ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچے خدا کے باغ کے پھول ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ شرمناک اور قبیح حرکت اور کیا ہوگی کہ خدا کے باغ کے ان پھولوں کو خدا اور رسول ﷺ کے نام سے منسوب مقدس مقامات تک پر بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر مرجھا دیا جائے۔ اپنی ذہنی پراگندگی کا ہدف بنا کر انکی بھولپنے کی خوشبو بکھیر دی جائے اور سارا دن دوسروں کو شرم و حیا کے درس کا منہ چڑاتی اپنی باطنی خباثت کا نشانہ بنا کر انکی معصومیت کی پتیاں نوچ لی جائیں۔ اور کرنے والے کوئی اور نہیں وہ ہوں جو خود کو انبیاء کا وارث کہتے ہیں۔ الامان الحفیظ۔۔
ایک مدت سے "شیطان کو پہچان بچے" کی اپنی سی سوشل میڈیا آگاہی مہم کے دوران بچوں سے جنسی درندگی کے واقعات پر لکھتا بولتا آ رہا ہوں۔ سال بھر قبل ایک مضمون میں ڈیٹا اکٹھا کیا تھا تو اوسطاً یہ شرح مدارس میں سب سے زیادہ تھی۔ ساحل انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں یہ شرمناک اور افسوسناک حقائق پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا تھا۔ مزید تحقیق میں ملک کے قابلِ ذکر بڑے بڑے جریدے شامل تھے۔
اسکے بعد طالبعلم یہ جاننے میں کوشاں رہا کہ اسکی وجوہات کیا ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے کیسز کی تفصیلات، مدارس سے متعلقہ لوگوں کے ذاتی مشاہدات اور تجربات اور مطالعاتی مشق پر مبنی تحقیق کے نتیجے میں، میں جس حاصلِ فکر تلک پہنچا اسکا ایک ٹیسٹ کیس تاندلیانوالہ میں سامنے آیا۔
انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق مدثر نذر رہائشی جناح کالونی تاندلیانوالہ کا بارہ سالہ بیٹا محمد طیب نمازِ مغرب کی ادائیگی کے لیے مسجد قدس واقع اسلام پورہ میں جاتا ہے۔ کافی دیر بیت جانے پر جب اسکی واپسی نہیں ہوتی تو عالمِ تشویش میں بچے کا والد ہمراہ کچھ گواہان کے مسجد کا رخ کرتا ہے۔ تلاش بسیار کے بعد مسجد سے ملحقہ مکان میں پہنچے تو وہاں ابوبکر معاویہ نامی عالمِ دین کلاشنکوف کی نوک پر اس بچے سے زیادتی کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ بچے کے والد اور گواہان کو پا کر ملزم ابوبکر معاویہ اسی کلاشنکوف کے ذریعے انہیں دھمکاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔
اسکے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی دشتِ انسانی کے ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں وہ ملزم ابوبکر معاویہ کو یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ اسکے خلاف رمضان المبارک میں یہ قبیح حرکت کرنے پر علماء سے فتویٰ لے گا۔
اور اسکے بعد واقعی علماء فتویٰ دینے کے لیے آتے ہیں۔ ملک کے مشہور عالمِ دین جنہوں نے ابھی پچھلے دنوں ریاست کو بتایا کہ پنجاب میں عورت کی حکمرانی جیسا گناہِ کبیرہ اگر کرنا ہی ہے تو کم ازکم گناہ سمجھ کے کیا جائے، جی ہاں وہی ابتسام الہٰی ظہیر صاحب تاندلیانوالہ پہنچتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک عالمِ دین کا "کیرئیر" بچانے کے لیے وہ آئے ہیں۔
اگلی ویڈیو میں علامہ صاحب نے بچے کے والد کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک ایسا لفظ کہتے ہیں جسے راقم لکھ چکا کہ پاکستان میں قبیح ترین انسانیت سوز جرائم جیسے ظلم، قتل، ریپ، درندگی اور بدمعاشی کے بعد ہمیشہ کی طرح اہلِ اختیار اسے مذہبی تقدیس میں"صلح" کے نام سے ملفوف کرکے عدل و انصاف کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
مولانا صاحب نے کہا کہ انہوں نے لاہور سے فلاں فلاں اور فلاں سے رابطہ کیا اور پتا چلایا کہ معاملہ جنسی زیادتی و حراسانی کا ہے ہی نہیں بلکہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ ابوبکر معاویہ نے کچھ ہارڈ ٹاک کی ہے وہ ہم دیکھ لیں گے۔ باقی اگر معاملہ جنسی زیادتی کا ہوتا تو ہم قرار واقعی سزا کا مطالبہ کرتے۔
اچھا اب مولانا صاحب کے اس بے بنیاد بیانیے کا پول یہیں سے کھل جاتا ہے کہ آپ کس حیثیت میں رابطے کر رہے ہیں اور اگر کر ہی رہے ہیں تو کن سے؟ فلاں عالم، فلاں عالم، اپنی جماعت کے فلاں عہدے دار۔ بھئی یہ لوگ آپکو اس نتیجے پر پہنچائیں گے کہ آپ انصاف کا مطالبہ کریں تو ہوگیا پھر انصاف۔ ویسے آپ نے آئے روز مدارس میں اسطرح کے واقعات میں کبھی ایک بھی ٹویٹ کرکے ملزم کو قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ کیا؟
مولانا کے بعد بچے کا باپ گفتگو کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ مولانا صاحب کے دباؤ کے زیرِ اثر اور بھی افسوسناک اور شرمناک ہوتی ہے۔ کہتا ہے کہ معاملہ جنسی زیادتی یا ہراسانی کا نہیں تھا مولانا کی باتوں سے میرا دل بہت دکھا تھا لیکن میں مولانا ابوبکر معاویہ کو اللہ کے لیے، مولانا صاحب کے آنے کی خاطر اور جماعت کی بہتری کے لیے معاف کرتا ہوں اور ماشاللہ، ماشاللہ کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔
آپ اندازہ کیجیے اس حساس ترین مسئلے پر متعلقہ لوگوں کی حساسیت کا۔ ریاستی قانون کی پہلی اور بنیادی دستاویز کی وقعت کا عالم یہ ہے کہ اسکی بنیاد پر پولیس اہکار جس کے خلاف خدا کے دین کا فتویٰ لینا چاہتا ہے فتویٰ دینے والے ملزم کا "کیرئیر" بچانے کے لیے تشریف لے آتے ہیں اور وہ بچے کا باپ جس نے مبینہ طور پر اپنے بچے سے زیادتی کی کوشش تین گواہان کے ساتھ آنکھوں سے دیکھی ہے وہ اللہ کے لیے معاف کر دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر بچے کے باپ نے ملزم پر جھوٹا الزام لگایا تو ایک باپ ہونے کے ناطے سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ ایک شخص اپنے کسی بھی کاروباری، سیاسی، سماجی مفاد کے لیے کیا اپنے بیٹے کو اس گھناؤنے طریقے سے استعمال کر سکتا ہے؟ کیا کوئی باپ اپنے بیٹے کی زندگی کو اس تماش بین سماج میں مستقل سوالیہ نشان اور تمسخر و تضحیک کا سامان بنا سکتا ہے؟ کیا کوئی باپ ریاستی قانون کو یہ بتا کر کہ میں جب حجرے میں پہنچا تو میں نے ملزم کی شلوار اترے ہوئے دیکھی جو کلاشنکوف لہراتا اور دھمکیاں دیتا وہاں سے فرار ہوا اور پھر اس رپورٹ کی بنیاد پر جب ریاست اس پر حساسیت دکھائے تو وہ اس ملزم کے کسی "ضمانتی" سے ملاقات کرکے بڑے آرام سے کہہ دے وہ جنسی زیادتی کا معاملہ ہی نہیں تھا اور ضمانتی صاحب "کیرئیر" بچانے کے لیے فرما دیں کہ مولانا صاحب تو بچے سے خدمت کروا رہے تھے تو بچے کے باپ کو غصہ آگیا اور پھر۔۔
کیا کسی کو احساس بھی ہے کہ اس کیس کے جھوٹے یا سچے ہونے کی دونوں صورتوں میں معاشرے پر اسکے اثرات کیا ہیں۔ جہاں کلاشنکوف کی نوک پر شلوار اترنا خدمت اور غلط فہمی بن جائے، جہاں رحمتوں کے مہینے میں بھی ان بچوں پر رحم نہ کرنا کسی "کیرئیر" سے زیادہ اہم نہ ہو، جہاں ریاستی دستاویز کو کوئی اتنی آسانی سے صلح نامی جرم کی آغوش میں چھپا لے اور جہاں ایک باپ اگر کیس جھوٹا ہے تو اس قبیح ترین جرمِ بہتان کی سزا پانے کی بجائے "اللہ والا" بن کر معاف کرکے ماشاللہ، سبحان اللہ کے ساتھ مبارکبادیں وصول کرے وہاں اگلی نسلوں کے لیے جنسی، جسمانی، ذہنی متشدد صیاد تیار ہوتے رہیں گے۔
خدا کے باغ کے پھول بچپن کی شاخوں سے نوچے جاتے رہیں گے اور اس باغ میں تقدیس کی آڑ میں پھولوں کا یہ کاروبار چلتا رہے گا۔ جس میں نام نہاد مقدس گل فروشوں اور عطر کے بیوپاریوں کی اعانت تو قابلِ فہم ہے مگر ایک باپ بھی۔۔ ایک باپ بھی۔۔ او خدایا۔۔
پنجاب کی نئی اور پہلی بار بننے والی خاتون وزیراعلی محترمہ مریم نواز صاحبہ سے گزارش ہے کہ اگر پاکستانی طرزِ حکومت میں واقعی میں کچھ بدلنا چاہتی ہیں تو اس بچے اور اسکے باپ سے ملیں جسکا مبینہ طور پر ایک نیا بیان گردش میں ہے کہ وہ شدید دباؤ میں ہے اور شاید شہر چھوڑ کر چلا جائے۔ اگر ریاست اس دباؤ کی ڈھال بن سکے تو یہ مدارس میں ایسے علماء کا "کیرئیر" بچانے کی بجائے ان مظلوم بچوں کا کیرئیر اس ڈگر پہ چلنے سے بچانے کی طرف پہلا ٹھوس قدم ہو سکتا۔ جسکی اشد ترین ضرورت ہے۔۔