Khalil Ur Rehman Qamar Aur Victim Blaming
خلیل الرحمن قمر اور وکٹم بلیمنگ
گفتگو سے جھلکتا کبر، فکرکے تضاد اور نظریے کے کھوکھلے ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اب تک کی زندگی میں متکبر آدمی سے کبھی نہیں بنی۔ کبر کے خلاف خود کو بساط بھر مورچہ زن پایا۔ میری نگاہ میں چھوٹے بن کر رہنے والے لوگ بڑے ہوتے ہیں۔ بڑے بن کر رہنے والے چھوٹے۔ خلیل الرحمن قمر صاحب سے زیادہ اس پر پورا کوئی نہیں اترتا۔ انکے نظریات سے طالبعلم کا اختلاف ڈھکا چھپا نہیں۔ مگر اک ذرا توقف۔ کیا یہ وقت ہے اس کے اظہار کے لیے۔ جی نہیں۔ خلیل الرحمن "قمری" اگر آپ نہیں تو غور فرمائیے گا۔
وہ نور مقدم کا کیس یاد ہے۔ ایک درندے کے ساتھ لوِ ان ریلیشن شپ میں رہ رہی تھی اسکے مکروہ ہاتھوں ماری گئی تھی بے چاری۔ تب بھی یہی لکھ کر خدائی فوجداروں کے لفظی نشتر برداشت کیے تھے کہ اگر آپ مرحومہ کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے تو "مظلوم الزامی" یعنی Victim Blaming کے مرتکب ٹھہریں گے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ قاتل سے اسکا رشتہ کیا تھا ہمیں مقتول و مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ خدا کے کرنے کا کام بندے کو زیبا نہیں اور ملائیت کسی اور شے کا نام نہیں۔
کسی ہسپتال کے سامنے ایک نیم مردہ لڑکی کو اٹھائے ایک لڑکے کی تصویر وائرل ہوئی تھی اس پر لکھے گئے مضمون پر ایک اپنے نے بڑی سخت بات کہی تھی رنج آکر ٹھہرا تھا دل میں۔ موقف یہی تھا۔ لڑکی اسقاطِ حمل کے دوران مر گئی تو مجھے اختیار نہیں کہ مکافات کی لٹھ لے کر چڑھ دوڑوں۔ اسکی زندگی کے ساتھ کیوں کھیلا گیا؟ یہی سوال اٹھایا۔ زندگی میں سیکھا کہ اصول کے سنگ مقید رہنا سب سے بڑی آزادی ہے۔ بے اصولی موقف تضادات کے آئینے کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ تاویل کا فرار واحد راستہ ہوتا ہے۔ دلیل ثابت قدم رہتی ہے موقف اگر عصبیت سے بالاتر اور یکساں اصول کی بنیاد پر۔
آئینہ تو وہ نوچیں جنکے موقف روز بدلتے ہیں۔ جو پیٹی بھائیوں کو اگر مگر چونکہ چنانچہ کی تاویلوں کے پیچھے چھپاتے اور مخالفوں پر باقاعدہ روزِ حشر طلوع کرکے جنت و دوزخ کے فیصلہ ساز بن جاتے ہیں۔ یہاں خود پر آنے والی مصیبت آزمائش اور دوسرے پر مکافات کہلاتی ہے۔
خلیل الرحمن قمر صاحب کی ایف آئی آر کے مطابق پندرہ جولائی کو انہیں ایک خاتون بنام آمنہ عروج نے واٹس ایپ پر رات بارہ بجے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ برطانیہ سے آئی ہیں اور ان سے ایک ڈرامہ لکھوانا چاہتی ہیں۔ خلیل الرحمن قمر انکے بھیجی گئی لوکیشن پر وہاں پہنچے تو وہاں ایک خاتون اکیلی تھی۔ اسکے کچھ ہی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی تو اس خاتون نے کہا کہ ڈیلیوری بوائے کچھ کھانے کو لایا ہے۔ مگر وہ سات مسلح افراد تھے جنہوں نے خلیل صاحب کو ناصرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان سے موبائل، پرس، اے ٹی ایم کارڈ اور گھڑی وغیرہ بھی چھین لی اور انہیں آنکھوں پہ پٹی باندھ کر کہیں اور لے گئے۔ وہاں اور بھی لوگ موجود تھے۔ انہیں وہاں بھی مارا پیٹا گیا اور ایک فائر بھی انکی ٹانگ کی طرف کیا گیا جس سے وہ بچ گئے۔ ان سے ایک کروڑ تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ جس سے انہوں نے پہلے معزرت کی اور پھر ایک دوست کو فون کیا لیکن انتظام نہ ہونے پر انہیں وہ لوگ پہلے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے اور پھر ایک ویران جگہ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
خلیل الرحمن قمر صاحب کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ خواتین کو اس لیے مردوں کے برابر نہیں سمجھتیں کہ وہ مردوں کو اغوا کرکے انکا ریپ نہیں کر سکتیں۔ اب انکی طرف جا کر دیکھا جائے تو یہی ایک آئینہ انکے لیے کافی ہے۔ اوپر نور مقدم کیس کی مثال اس لیے بھی انتہائی موزوں ہے کہ اس افسوسناک واقعے پر انکے ریمارکس پر "ڈان" اخبار نے باقاعدہ انڈسٹری کو انکا بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔
لیکن اگر ہم اس وقت خلیل الرحمن قمر صاحب پر محض ٹھٹھہ کریں اور انکے نظریات کے تضادات واضح کرنے کے لیے یہ وقت چنیں تو یقین کیجیے ہم پھر خلیل الرحمن صاحب کی فکر پر اصولی تنقید کرنے کی اخلاقی پوزیشن کھو دیں گے۔
ہمارے ہاں یہ روش ویسے بھی معاشرت کے دو اہم ستونوں سیاست اور مذہب میں عام پائی جاتی ہے کہ ہم دوسروں پر جن معاملات پر تنقید کرتے ہیں وقت آنے پر خود بھی وہی کچھ کرتے ہیں۔
وکٹم بلیمنگ اگر دوسروں کے لیے غلط ہے تو ہمارے لیے بھی غلط ہے۔ بڑھتی ہوئی معاشرتی تقطیب یعنی پولرائزیشن کسی انسانی سماج کے لیے موزوں نہیں اور اس خلیج کو سب سے زیادہ بڑھاوا دینے والی شے یہی ہے کہ ہم انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے کسی بھی معاملے کو پہلے عصبیت کی چھننی سے گزاریں۔ عرض کیا خلیل الرحمن قمر صاحب جیسوں کے نظریات خود ہی آئینے میں اپنا منہ نوچتے رہیں گے۔ لیکن ہم اگر اس منافقت کی نشان دہی اور محض ٹھٹھے کے لیے یہ وقت چنتے ہیں تو یہ وہ رویہ ہے جس پر ہم دراصل تنقید کر رہے ہیں اور کسی کو بھی اسکے کسی فعل پر تنقید کا نشانہ بنا کر خود وقت آنے پر وہی کرنا منافقت ہے۔ سو ہم سب کو مل کر اپنے فکری و نظریاتی مخالف کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی بلا مشروط مزمت کرنی چاہیے۔
من حیث القوم ہمیں دراصل سوچنا یہ چاہیے کہ اس "غیر" انسانی معاشرے میں جرائم پیشہ لوگوں کی دیدہ دلیری کا کیا عالم ہے کہ اغوا، تشدد، تاوان، اقدامِ قتل جیسے گھناؤنے جرائم اب باقاعدہ لوکیشن بھیج کر اورگھر بلا کر کیے جانے لگے۔
پسِ تحریر! تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس گروہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ خلیل الرحمن قمر صاحب نے پولیس کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈاکٹر نے انہیں دھوپ میں نکلنے سے منع کیا۔ بھئی وکٹم بلیمنگ سے بچنے کے اصولی موقف پر قائم رہنے کے لیے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹرز نے چڑھتے سورج کی دھوپ سے منع نہیں کیا تھا۔