Jeevan Nagar Ki Kahani
جیون نگر کی کہانی
جیون نگر کی ایک گلی میں ایک بچہ "بچپن" رہتا تھا۔ جیون نگر اس کے دم سے آباد تھا۔ دن رات کھیلتا کودتا چہچہاتا گنگناتا اور اٹھلاتا رہتا یہاں۔ اسے سب سے زیادہ پسند بادل تھے۔ بادلوں میں اس وقت کی رومانویت سکول سے چھٹی ہوا کرتی۔ بارش ہوتی تو اس میں بھیگنا، پیروں سے پانی اڑانا اور کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر انہیں خوابوں کے کسی گمنام ساحل کی طرف بھیجنا اسکا پسندیدہ مشغلہ ہوتا۔ رنگ برنگے پھولوں پر خوشبو کی متلاشی تتلیاں اسے یوں لگتیں کہ جیسے اپنے پروں پر اڑا کر اسے شبستان لے جائیں گی جہاں اسکے کچے گھروندے کے باہر گھاس پر اڑتے جگنو قطار بنا کر اسے خوش آمدید کہیں گے۔
اسے لگتا ایک دن انہی پرندوں کی طرح آسمان میں اڑے گا جنہیں دیکھ کر اسے اپنے ننھے بازو پر محسوس ہونے لگتے تھے۔ اسے ہرے بھرے کھیت کھلیان بہت پسند تھے وہ چاہتا تھا یہ اتنے زیادہ ہوں کہ دنیا سے بھوک ختم ہو جائے۔ اسے خبر نہیں تھی کہ یہ جتنے بھی زیادہ ہوں بھوک ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ بھوک غریب کی بھوک پیٹ بھرنے سے کم ہوتی ہے امیر کی بڑھتی ہے اور کھیت غریبوں کے خون پسینے سے صرف سیراب ہوتے ہیں دانے امیروں کے پیٹوں میں جاتے ہیں جنہیں گودام کہتے ہیں۔
اسکے جزبے ایسے سچے تھے احساسات ایسے سُچے کہ اللہ اللہ۔ جس سے ملتا دل و جان سے ملتا۔ ہر کسی سے ہنس کر بات کرتا۔ کبھی کسی سے ناراض نہ ہوتا۔ اگر کہیں کھیلتے کودتے کوئی جھگڑا وگڑا ہو بھی جائے تو کچھ ہی دیر بعد پہلے جیسا ہو جاتا۔ وہ ہر شے کو کھیل بنا دینے کا ماہر تھا۔ سکول میں کھیل، میدان میں کھیل الغرض پوری زندگی ایک کھیل ہوا کرتی تھی۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ تعبیروں سے دور خوابوں کا میلہ۔
رات ہوتی تو سارے دن کی تھکن کا بوجھ صرف پلکوں پر لے کر سر سرہانے پر رکھتا اور دو ننھے ہاتھوں کی کائنات کی سب سے سستی اور مشترک دوربین بنا کر ستاروں کو دیکھنے لگتا۔ اسے اچانک لگتا کہ وہ ان ستاروں کے درمیان پہنچ چکا ہے۔ صبر کا پھل میٹھا کیا ہوگا جو بچپن کی میٹھی نیند ہوا کرتی۔ ننھی پلکوں کے در بند ہوتے تو ایک نیا جہان کھلتا، خوابوں کا جہان۔۔
جیون نگر میں ایک خواب گلی تھی۔ اس میں جوانی رہتی تھی۔ بچپن کو اس سے ایک لگاؤ سا محسوس ہونے لگا۔ دھیرے دھیرے یہ لگاؤ محبت میں تبدیل ہوا اور پھر آہستہ آہستہ یہ محبت، عشق میں بدل گئی۔ اچانک وہ اسکے خوابوں میں آنے لگی۔ حواس پر چھانے لگی۔ رگ و پے میں سمانے لگی۔ بچپن کو اپنے اندر ایک فنا کا احساس ہوا اور یہ احساس ایک نشہ ایک سرور سا بن گیا۔ جوانی میں خود کو مدغم کر دینے کی دھن ایسی سوار ہوئی کہ بچپن کھو گیا، فنا ہوگیا۔ عشق امر ہوگیا۔ جیون نگر میں اب بچپن نہیں جوانی کے چرچے تھے جس نے بچپن کو اپنے وجود میں گم کر دیا تھا۔
جوانی ہوا کے گھوڑے پہ سوار منہ زور جزبوں اور احساسات کی پیامبر تھی۔ اسکے اپنے مشاغل تھے اپنی ترجیحات۔ اسکی چال میں بحر کا ایک مدوجزر تھا چلن میں دریا کی ایک روانی۔ اسے تتلیاں کسی آنچل میں دکھائی دیتیں تو جگنو کسی آنکھوں میں جھلملاتے۔ بادل کسی زلف میں امڈتے نظر آتے تو گلاب کسی رخساروں میں کھلتے دکھائی دیتے۔
جوانی خوابوں کی تعبیروں کے پیچھے بھاگنے لگی۔ علم اور ہنر کی پگڈنڈیوں سے ہو کر معیشت کے خار زار میں ایڑھیاں گھسنے لگی۔ اسے خود کو بانٹنا تھا بس۔ راہِ سلوک میں اپنی سبیل لگانی تھی، لگ گئی۔ دہلیزِ حقوق پر نیاز بن کر بٹنا تھا، بٹ گئی۔
بھاگتے بھاگتے اسکی سانس پھولنے لگی۔ کاندھوں پر زندگی کی گٹھڑی بھاری لگنے لگی۔ اب دوڑ ایک پر سکوت چال میں بدلنے لگی۔ مسافت کے سنگِ میل چھالے اب منزل کی جھریاں سی بننے لگے۔ سر اور آنکھوں نے عجیب تجارت کی۔ آنکھوں کی روشنی بالوں نے لے لی، بالوں کی سیاہی آنکھوں میں چلی آئی۔ ذہن کم سوچنے کی کوشش میں اور زیادہ سوچنے لگا۔ وجود نے جوانی کا ہاتھ نہ چھوڑنا چاہا تو قدرت ہاتھوں میں ایک ارتعاش لے آئی، کانپتے ہاتھ اب کسی کو کیا تھامتے۔ کاندھے جھکے، حیات کا سب حاصل زمیں بوس ہوا تو یاد آیا یہاں کہیں منکر نکیر بھی تھے۔
جوانی مطب میں پہنچی کہ دواؤں سے خود کو تھام لے، وقت کے مسیحا سے کہا۔ کوئی طریقہ ہے کہ تھم جاؤں۔ مسکرا دیا۔ ٹیسٹ ہوئے۔ بڑھاپا مثبت آیا۔ سو جوانی اب بڑھاپے میں ڈھل گئی۔ جیون نگر میں اب بڑھاپا رہنے لگا۔۔
کھانا تھا بھوک نہ تھی، نظارہ تھا نظر نہ تھی، نیند تھی خواب نہ تھے، دل تو تھا آرزوئیں نہ تھیں۔ وقت کی پگڈنڈی پر دھیرے دھیرے چلتا آگے، دیکھتا پیچھے۔ کانپتے ہاتھوں میں پکڑی چھڑی سے گویا کاندھوں سے گرے حاصل کے زادِ راہ کو ٹٹولتا ہو۔
حافظے کی تسبیح پر یادوں کا ورد کرتا رہتا۔ کہیں اپنے سامنے کڑیل وجودوں کے فریموں میں اپنی جوانی کی تصویریں رکھ کر دیکھتا تو کہیں بھاگتے دوڑتے ننھے پیکروں میں اپنے بچپن کا عکس ڈھونڈتا۔ سینے میں سانس جمع کرتا کہ چیخ چیخ کر زمانے کو بتائے کہ جہاں تم آج ہو وہاں میں کل تھا، اور جہاں میں آج ہوں وہاں کل تم ہو گے۔ زندگی انہی تین دنوں کا کھیل ہے۔ آنے والا کل کچھ دیر کو آج بنتا ہے اور پھر بیتا ہوا کل ہو جاتا ہے۔
ایک دن بڑھاپا جیون نگر میں اپنے گھر کے آنگن میں روٹھی ہوئی زندگی کو منانے کی کوشش کر رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، پوچھنے لگا کون؟ آواز آئی۔ فرشتہِ اجل۔ تمہیں لینے آیا ہوں۔ تیاری کرو۔ سانسیں چھوٹی ہونے لگیں، دھڑکنیں معدوم، آنکھوں کی پتلیاں اوپر کو جانے لگیں۔ استخوانی وجود لرزنے لگا اور یکا یک سرد پڑ گیا۔ اسکی روح جیون نگر سے پرواز کر گئی۔
جیون نگر میں اب ایک قبر ہے۔ کاتبِ کتبہ پوچھتا ہے کہ قبر پر نام کس کا لکھنا ہے۔ لواحقین میں سے کوئی کہتا ہے بچپن، کوئی کہتا ہے جوانی، کوئی کہتا ہے بڑھاپا۔۔ آخر کتبے پر "زندگی " لکھوایا جاتا ہے اور جیون نگر میں"زندگی کی قبر " پر سب مٹی ڈال کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔