Janab e Zafar Imran Se Pehli Mulaqat
جنابِ ظفر عمران سے پہلی ملاقات
جنابِ فرنود عالم سے پہلی ملاقات کے احوال کا اختتام یاد ہے کن سطور پر ہوا تھا؟ تصور کے صنم خانے میں اک رشک منزل ہے اس میں خیال کوزہ گر عمر بھر بت بنا بنا کر رکھتا رہا۔ بنتے رہے ٹوٹتے رہے۔ کچھ چشمِ تصور اور چشمِ ظاہر کے درمیان بنی تضاد کی خلیج میں ضم ہو گئے۔ کچھ وقت کی گرد تلے زندہ درگور ہوئے۔ ان بتوں میں ایک بت کچھ عرصہ قبل براجمان ہوا۔
میں لکھ چکا کہ بچپن وقت کے عجائب گھر میں رکھی یادگاروں میں سب سے زیادہ رومانوی یادگار ہے۔ جسے دیکھو اس عہد کی یاداشتوں کی مالا جپتے ملتا ہے۔ ہمارا بچپن فراہمی کی محدودات سے تسکین کی لا محدودیت جمع کرتا عجیب ڈرامائی عہد تھا۔ اس ڈرامائی عہد کی سب سے حسین یادگار رات آٹھ بجے کا پی ٹی وی ڈرامہ تھا۔ وہ ڈرامہ دیکھنے سے ڈرامہ لکھنا سیکھنے کی کلاس لینے تک کے درمیان لگ بھگ چار دہائیوں کی مسافت ہے۔
پچھلے دنوں ایک تحریر میں اس کلاس کا احوال لکھا تھا۔ یہ کلاس لینے کے دوران رشک منزل پر خیال کوزہ گر نے ایک اور بت تراش کر رکھ دیا۔ اپنے ان استادِ گرامی کا بت۔
فون کی گھنٹی بجی تو انتہائی خوش گوار حیرت ہوئی، کہنے لگے۔ میں نے سوچا آپ کی جھجھک کا حل میں ہی نکالے دیتا ہوں۔ خود ہی فون کرکے پوچھتا ہوں کہاں ہو کیا کر رہے ہو۔ عرض کیا کمال کی کہی آپ نے میں واقعی جھجھک رہا تھا۔ عرض کیا اس اس خیال سے نوکری چھوڑ کر اسلام آباد شفٹ ہوا ہوں۔ کہنے لگے چلیں ملاقات کرتے ہیں۔
سورج کے طلوع و غروب کے کچھ طواف اور بیت گئے اور آخر وہ لمحہ آ گیا جب موبائل فون کی سکرین پر بنا ہوا اس ہستی کا بت مجسم میرے سامنے موجود تھا۔ جھجھک کی رشک منزل پر جو شادیانے بج رہے تھے بیاں سے باہر ہیں۔ جھجھک کی دیوار کو دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک اور پھر اسکے بعد ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس ملاقات کا احوال کیا لکھوں" وہ کہیں اور سنا کرے کوئی "۔
کہنے لگے ایک بار ایوب خاور صاحب نے ایک اسکرپٹ لکھنے کو کہا تو میں انکے مقام سے اس قدر متاثر تھا کہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا اور کیسے لکھوں جو انکے معیار پر پورا اترے میں خود کو ایک لکھاری کے طور پر ابھی تسلیم نہیں کیے ہوئے تھا۔ پھر ایک عجیب خیال مجھے آیا کہ اگر ایک فرشتہ میرے سامنے فلک سے اڑتا ہوا آئے اور اسکے ایک ہاتھ میں قلم ہو اور دوسرے میں کیمرہ تو میں کیا اٹھاؤں گا؟ مجھے لگا قلم اور میں نے وہ اسکرپٹ لکھ ڈالا۔ اس پر انہوں نے جو تحسین کی وہ مسافت کی پہلی تھپکی تھی۔
ایک جگہ پہنچے تو میں نے سوال کیا کہاں قلم و قرطاس کی دنیا کہاں یہ دنیا۔ کیا کمال کا جواب دیا، کہنے لگے ارے یہ سب پڑھے لکھے لوگوں کے فیشن ایبل جھانسے ہیں۔ لکھاری، ادیب، شاعر درباروں کے وظیفہ خور بننے کے لیے قوم پر احسان جتاتے ہیں۔ بھئی کاہے کا احسان۔ کام چوری کے دلفریب حیلے بہانے اور بس۔
رات سو نہیں پائے تھے لیکن مجال ہے کہ بے خوابی کے کوئی آثار ہوں گفتگو میں۔ بشاشت اور یکسوئی کے کیا کہنے۔ اپنی زندگی کی مسافت کی بہت سے سنگِ میل بتائے، کہاں کہاں پڑاؤ کیا، راہ کی دشواریاں کیا ہوئیں اور ہمراہ کیسے کیسے ملے۔ بہت لطف آیا سب جان کر۔ اپنی والدہ محترمہ کا تذکرہ کیا ہی پیارے انداز سے کیا۔ بچپن سے لے کر اب تک کے ان سے جڑے کئی واقعات ایک الگ داستان کے متقاضی ہیں۔ کہنے لگے لکھوں گا کبھی۔
درمیان میں چائے کے دو دور چل گئے۔ کیا باکمال چائے بنتی ہے وہاں۔ چائے بنانے والے دوست سے پوچھا یہ اتنی اچھی چائے کیسے؟ ہمیں ڈرامہ لکھنا سکھانے والوں نے آپکو کہیں چائے بنانی تو نہیں سکھائی۔ ہنس دیا بھلا آدمی۔ کھانے کے بہت زیادہ اصرار کو بمشکل تشکرکے ساتھ موڑ پایا۔
اجازت چاہی تو کہنے لگے پھر کہیں ملتے ہیں تفصیل سے بیٹھتے ہیں۔ جاتے جاتے میں نے یہ تصویر لے لی کہ تصور کی رشک منزل پر ٹانک سکوں۔ لیجیے ٹانک دی۔ بہت بہت شکریہ استادِ محترم جنابِ ظفر عمران، آپ سے پہلی ملاقات بہت یادگار رہی۔ میرے آنگن میں کھڑی اجنبیت کی دیوار تو آپ کی فون پر شفقت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی اب سامنے بیٹھ کر آپ نے آشنائی کا جو اعزاز بخشا وہ بیاں سے باہر ہے۔۔
سلامت رہیں، خدا اور رفعتیں عطا فرمائے۔