Insan, Shaitan Aur Ramzan
انسان، شیطان اور رمضان
آدم و ابلیس کا قصہ طالبعلم کے لیے ایک تھیسز کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر بار اس پر تدبر سے نئی جہتیں وا ہوتی ہیں۔ چشمِ تصور سے وہ منظرنامہ دیکھنا ایک خیرہ کن تجربہ ہوتا ہے۔
خدا نے سب فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔ جس جس نے خدا کو دیکھا سجدہ کر دیا۔ ایک نے خود کو دیکھا انکار کر دیا۔ مردود ٹھہرا۔ کہنے لگا مہلت چاہیے اسے بھٹکانے کی جس کی وجہ سے میں راندہِ درگاہ ہوا۔ مہلت عطا ہوئی طاقت بھی۔ مگر یہ ابدی مہلت ایک سال کے گیارہ مہینے کے لیے ہے۔ رمضان کریم کا مہینہ شیطان کی قید کا مہینہ ہے۔ جی ہاں وہی سوال۔ بنتا ہی وہ ہے۔ شیطان کی قید میں آزاد کون ہوتا ہے؟ اس فلسفے میں رازِ حیات ہے۔
کسی مضمون میں لکھا تھا جنابِ آدم کو ابلیس نے بھٹکایا اور انسان کا کھلا دشمن ٹھہرایا گیا۔ ابلیس نے جنابِ آدم کو بھٹکایا، انکی کس خو پر؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ابلیس کو کس نے بھٹکایا؟ اس سوال پر تفکر سے انسان اس رازِ حیات کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے باطن کی دنیا ہے کیا۔ روح کا جہان کیسا ہے؟
خدا نے سجدے کی بنیاد جس برتری کو قرار دیا تھا وہ ظاہری نہیں باطنی تھی۔ یہ جسمانی نہیں روحانی معرکہ تھا۔ یہ آگ اور مٹی کی نہیں، علم اور لا علمی کے معیارات کی برتری تھی۔
ابلیس اسے نہ سمجھا کیونکہ اس نے معاملے کو محض جسمانی و ظاہری جانا اور اس بنیاد پر انکاری ہوگیا کہ آگ کا مٹی کا سجدہ بنتا نہیں۔ جب دھتکار دیا گیا تو لگا جنابِ آدم کے گرد گھیرا تنگ کرنے، اس مہلت و طاقت کا استعمال کرنے جو اسی خدا نے عطا کی تھی جسے انکار کیا تھا۔
جہاں ابلیس آگ سے ہونے پر احساسِ برتری کا شکار تھا کیا اسکے اظہار سے مٹی کے آدم میں وہ احساسِ کمتری پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگیا تھا جس پر کامیابی سے وار کرکے اس شجرِ ممنوعہ تلک لے گیا جس سے خدا نے منع کر رکھا تھا۔ غور فرمائیے شجرِ ممنوعہ تلک جانے کی خواہش پہلے سے موجود تھی۔ وہ خواہش کیا تھی؟ ابدیت کی خواہش۔ ابلیس نے کہا خدا نہیں چاہتا کہ تو ہمیشہ رہے اس درخت کے پھل میں ابدیت کی وہی تاثیر ہے۔ تیر ٹھیک نشانے پر لگا اور خدا کی نافرمانی ہوگئی۔ پھل کھا لیا گیا۔ آدم و حوا پر ایک دوسرے کی جنسیت واضح ہوگئی جس سے آدم کو نہیں مگر آدمیت کو ابدیت بہرحال حاصل ہوئی۔ اگر جنابِ آدم اس نفسانی خواہش کو ابلیس کے جال میں نہ آنے دیتے تو کائنات کا نقشہ کیسا ہوتا، زمین پر انسانی حیات کیسے ہوتی۔ شجرِ ممنوعہ کا پھل نہ کھاتے تو آدمیت کیسے آگے بڑھتی۔ گاہے سوچتا ہوں اس پر ایک تصوراتی ناول لکھا جائے۔
تو رمضان میں کیا ہوتا ہے؟ کمال کی تشریح کی رمضان میں شیطانی قید کی غامدی صاحب نے۔ کہا دراصل ہمارے اندر باطنی دنیا میں گناہ و ثواب کے جزبات و احساسات اور نفسانی میلانات ویسے کے ویسے رہتے ہیں۔ صرف بیرونی حملہ روک دیا جاتا ہے۔ اگلی بات اس سے زیادہ متاثر کن تھی۔ کہنے لگے دراصل یہ انسان ہی کا باطن فیصلہ کرتا ہے کہ وہ خیر پر ہوگا یا شر کی جانب۔ خیر پر ہو تو فرشتے اسکی استقامت کے لیے آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ اگر شر پر ہونے کا فیصلہ کر لے تو شیاطین کو اسکے دل میں چھپے شر کو بڑھانے کے لیے وسوسے ڈالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ یہ بڑی حیران کن مگر قابلِ فہم تشریح ہے۔
فرض کیجیے انکارِ سجدہ پر ابلیس کو قید میں ڈال دیا گیا ہوتا یا یوں کہیے کہ وہاں آسمان میں بہشت نما باغات میں بھی تب رمضانِ کریم ہوتا۔ جنابِ آدم کے لیے اپنی ہی خواہش کے آگے روحانی بند باندھنا ہوتا تو شاید صورتحال اور ہوتی مگر ابلیس کے بہکاوے سے بیرونی عامل قوت کے کار فرما ہونے پر شجرِ ممنوعہ کی جانب قدم روکنا مشکل ہوگیا اور یہ کائنات آباد ہوگئی۔
اختیار بہرحال انسان ہی کا ہے۔ وہ جو فیصلہ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ جب خدا نے تخلیقِ آدم کی اطلاع فرشتوں کو دی تھی تو انکے "فساد فی الارض" کے خدشے کو یہی کہہ کر رد کر دیا تھا کہ میرے ماننے والے نیکوکار ایسا نہیں کریں گے۔ اسکا مطلب انسانی حیات جس دوراہے پر ہمیشہ رہتی ہے ان میں سے راہ چننے کا اختیار انسان کے اپنے بس میں ہے۔
رمضان کریم اس بابت خدا کا بہت بڑا احسان ہے۔ بات شجرِ ممنوعہ کے پھل سے شروع ہوئی تھی۔ روزے کی حالت میں مخصوص اوقات کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے برعکس سب سے پہلے کھانے پینے کو وہ شجرِ ممنوعہ بنا دیا جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے کمائی گئی نعمتوں کی موجودگی میں کسی بیرونی طاقت کی عملداری کے بنا یہ ہماری باطنی قوت ہی ہوتی ہے جو اس کی طرف ہاتھ اور قدم بڑھنے نہیں دیتی۔ رزق کے گرد پوری کائنات گھومتی ہے رزق پر قدغن صلوۃ الصیام (نمازِ روزہ) کا وضو ہے۔ ایک پروٹوکول، یہاں سے آغاز ہوتا ہے انجام نہیں۔ اصل کرنے کا کام باقی ہے۔ وہ نہ کیا تو خدا کہتا ہے مجھے تمہاری بھوک اور پیاس سے کیا لگے۔۔
خدا خالق ہے۔ ایک خالق مخلوق کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ اسکی نفسیات کو بہترین طریقے سے سمجھتا ہے۔ کیفیات کو جانتا ہے۔ احساسات و جذبات سے واقف ہے۔ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اعمال کو نیتوں پر پرکھتا ہے۔
ان تمام احساسات، جزبات، کیفیات اور حالات کو مدنظر رکھ کر طالبعلم یہ سمجھتا ہے کہ رمضان کا مہینہ اپنے اندر کمال کا فلسفہ لیے ہوئے ہے۔ یہ سیرشکموں کو اردگرد پھیلی بھوک سے آشنا کرتا ہے۔ اس افق کا احساس دلاتا ہے جہاں بھوکا رہنے کے لیے کوئی چاند نہیں دیکھنا پڑتا۔
رمضان ایک بہت بڑا آئینہ ہے جس میں انسانیت اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ ابلیس ہمارا کھلا دشمن خدا نے قرار دیا انسان نے اسے اپنی ڈھال ہی بنا لیا۔ اور مجھ جیسے عامیوں کو چھوڑیے سارا دن شیطان کے نام کے ساتھ لعین، مردود جوڑ کر اس پر لعنت و ملامت کرنے والے دوسروں کو شیطان کا پیروکار کہہ کر نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والے انسانیت سوز جرائم کرتے کس کے کاندھے پر رکھ کر نفس کی بندوق چلاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو معصوم بچوں سے زیادتی کے قبیح مجرموں کے انٹرویوز یوٹیوب پر دیکھ لیجیے ایک جملہ سپاٹ لہجے میں آپ کو مشترک ملے گا "بس مجھ پر شیطان آ گیا تھا"۔ سو رمضان انسان کا یہ بہت بڑا حیلہ و عذر اس سے دور کرکے اسے ضمیر کے آئینے کے سامنے اکیلا کھڑا کرتا ہے۔
یہ اللہ کی رحمانیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ یہ ایک ریفریشنگ کورس ہے۔ رمضان میری نگاہ میں مبارک اس لیے ہے کہ یہ مجھے میری گیارہ مہینے کی خطاؤں کے بعد ایک موقع دیتا ہے کہ خود کو ایک مہینے کے لیے اخلاصِ نیت کی مشق کے ذریعے ایمانیات کے کسی آخری درجے پر دوبارہ لے آؤں۔ اپنی باطنی تطہیر کے ذریعے خود میں وہ اخلاص کی طاقت کے آؤں کہ جس میں اگلے گیارہ مہینے بیرونی عامل قوت کے آگے بند باندھ سکوں۔
مگر ہم ہیں کہ اتنے بڑے فلسفے کو ایک بار پھر اپنی ادنی ترجیحات کا اسیر بناتے ہیں۔ باقی گیارہ مہینوں کے اسلام کی طرح ہمارا رمضان کریم بھی دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔ فلاں نے روزہ کیوں نہیں رکھ، فلاں آزادانہ کھا پی کیوں رہا ہے۔ اور اگر ہم نے رکھ ہی لیا تو اسکی تشہیر کے ذریعے اسکے اصل مقصد کا گلا ہی گھونٹ دیا۔
بھئی دوسرے سے زیادہ اپنا گریبان نزدیک ہوتا ہے آئیے اس میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔ روزے کا مقصد ہی یہ ہے۔ یوں سمجھیے رمضان درحقیقت خدا کی جانب سے عجز و حلم کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانکنے کا سجدہ کرنے کا ایک حکم ہے۔ گریبان میں جھانکنے کے لیے گردن میں کسی زعم کا سریا نہیں ہونا چاہیے۔ سریا ہونا سجدے سے انکار پر منتج ہوتا ہے۔ سجدے سے انکار کرنے والا ابلیس ہوتا ہے۔ ابلیس تو آج قید میں ہے تو ہم سے انکار کون کروا رہا ہے۔ ہم سے کون اس روحانی معرکے کو جسمانی مشق بنوا رہا ہے۔ ہم خود ناں۔ سو یوں کہیے کہ رمضان میں شیطان قید میں ہوتا ہے جبکہ اسکا نہ ہونے والا مسجود انسان آزاد۔
رمضان مبارک