Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Har Roz Roz e Hashar

Har Roz Roz e Hashar

ہر روز روزِ حشر

گرمی شدید تھی۔ اسکے معصوم چہرے پر دھوپ گویا منعکس ہو کر میری آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔ اس آئینے میں، میں اپنا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔ کاش یہ سماج اپنے بچوں کے چہروں کے آئینے میں اپنی صورت دیکھے۔

اس نے موٹر سائیکل کو ہاتھ دیا۔ میں رک گیا۔ کہنے لگا "پکی موڑ" جانا ہے۔ میں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ہمیشہ کی طرح ایک مختصر انٹرویو لینا شروع کر دیا۔

معاشرے کی پھٹی پرانی کتاب میں زندگی کے صفحات پر ہمارے آس پاس کردار خود کہانیاں بن کر نقش ہوا کرتے ہیں۔ مگر کوئی پڑھتا نہیں۔ زندگی کی یہ کتاب بھی دیگر کتابوں کی طرح فٹ پاتھوں پر ارزاں ہی نظر آتی ہے۔

پکی موڑ پر کیا کرتے ہو بیٹے؟ میرے پوچھنے پر کہنے لگا، پکی موڑ سے ویگن پر بیٹھ کر پائی خیل ایک ہوٹل میں جاؤں گا وہاں کام کرتا ہوں۔ میں نے پوچھا پڑھتے کیوں نہیں ہو؟ کہنے لگا پانچ پڑھی ہیں۔ میں نے پوچھا آگے کیوں نہیں پڑھے؟ کہنے لگا ابو نے کہا کام کرو۔ اتنی دور بچے؟ کہنے لگا ابو کے ایک دوست نے کام لگوایا ہے، اگلا سوال وہی جو آپکے ذہن میں ہے، ابو کیا کرتے ہیں؟ ابو یہاں پر ہی مزدوری کرتے ہیں لیکن بیچ میں بیمار بھی رہتے ہیں۔

میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بچے تو اپنے باپ کے جسمانی نہیں ذہنی طور پر بیمار رہنے سے Child Labour پر مجبور ہے اور پھر میرے اگلے سوالات کے جوابات سے ثابت بھی وہی ہوا۔ سات بہن بھائی سب سے بڑا یہ بچہ جسکی عمر 12 سال تھی۔ سب سے چھوٹے بھائی کی عمر 2 سال۔ جب میں نے اسے چھوڑا تو وہ بھاگ کر چھوٹتی ویگن کی طرف گیا۔ ویگن پر سوار ہو کر اس نے پیچھے مڑ کر مجھے مسکرا کر دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔

میرا جی چاہا کہ یہ مسکرانے کی بجائے دھاڑیں مار مار کر روئے کہ اسکی دھاڑ اس روئے زمین پر بسنے والوں کے دلوں کو ہلا دے کہ جو خدا کے رازق ہونے کی اس تفہیم پر بچے پیدا کرتے جاتے ہیں اور پھر انکے بھوکے جسموں کی ہڈیوں کو اپنی خوراک بناتے ہوئے اسے اسی خدا کا لکھا ہوا بخت قرار دیتے ہیں۔

اس واقعے کو چند دن ہی بیتے تھے کہ ایک بار پھر ایک موڑ پر ایک شام ایک فقیر نے موٹر سائیکل کو ہاتھ دیا میرے روکنے پر اس نے اپنی فالج زدہ لڑکھڑاتی زبان میں کہا کہ مجھے داؤد خیل جانا ہے۔ میں اسے کافی عرصے سے اس علاقے میں مانگتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اسے اپنے راستے سے ہٹ کر دور داؤد خیل چھوڑ کر آنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ زندگی کی کتاب کا یہ صفحہ آج پڑھ ہی لوں جسے اکثر پلٹا کر گزر جاتا ہوں۔

داؤد خیل کا سفر اس وقت طویل اور مشکل ہوگیا جب اس نے مجھے بتایا کہ فالج کا مرض ہے کوئی پانچ سال سے اور بچے چھوٹے ہیں۔ مجھے دھچکا لگا کہ ایک ادھیڑ عمر فالج زدہ آدمی کے بچے چھوٹے کیوں ہیں؟ بہرحال مجھے یہ یقین دل میں ضرور ہوا کہ اسکے آخری بچے کی عمر پانچ سال سے تو اوپر ہی رہی ہوگی لیکن اس نے میرے یقین کو یہ کہہ کر ناقابلِ یقین بنا دیا کہ اسکی پانچ بچوں میں سب سے چھوٹی بچی کی عمر دو سال ہے۔ وہ ہر جملے کے آخر پہ اللہ خیر کریسی کہتا تھا۔ اور بس پھر داؤد خیل آ گیا۔

مجھے اپنی بساط سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین وہ آدم خور نظر آتے ہیں جو بڑے فخر سے پیدا کرتے وقت ملاں صاحب کی پڑھائی ہوئی پٹی پر یہ کہتے ہیں۔ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور پھر وہی والدین اس بچے کا بچپن کھاتے ہیں۔ اسکے حقوق چباتے ہیں۔ اسکی معصوم خواہشوں کو نگل جاتے ہیں۔ اسکے استخوان پر سے بچپن میں ہی زندگی کا گوشت نوچ لیتے ہیں۔ اسکی کتابوں کے ایندھن پر کھلونے پگھلا کر اوزار بناتے ہیں وہ اسکے بھوک سے نچڑے ہوئے ہانپتے کانپتے معصوم ہاتھوں میں دیتے ہیں اور یہ بات واقعی سچ ثابت کر دکھاتے ہیں کہ وہ اپنا ہی نہیں انکا رزق بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔ شام کو۔

یہ ریاست ایک سو لوگوں کی سیاسی چیرہ دستیوں سے نکلے تو کچھ توجہ اس عفریت کی طرف دے۔ شادی سے پہلے کوئی انسانوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق تعلیم و تربیت دے۔ انکو بتائے کہ جنسی خواہش فطری امر ہے لیکن بساط سے زیادہ بچے پیدا کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پاکستان میں ایک فرد کی آمدنی سے لے کر ریاست کی آمدنی ہر بچے کے پیدا ہونے کے ساتھ بڑھتی نہیں ہے۔

مخصوص اور محدود وسائل کو استعمال کرنے والے زیادہ ہونگے تو وسائل کم پڑ جائیں گے۔ اور وسائل کم پڑ جائیں گے تو یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست جس میں لوگوں کا خدا کے رازق ہونے کا توکل یہ ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے، چائلڈ لیبر میں دنیا میں تین بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کہیں واقعی یہی ہمارا ایمان تو نہیں کہ ہر بچہ شام کو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔

رہے ملاں صاحب تو انکی منت ترلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ حضور اپنی اس رزق کی تفہیم پر نظر ثانی فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ عہدِ نبوتؐ میں مخصوص زمینی حقائق اور ضروریات کے پیشِ نظر بچے پیدا کرنے کی تلقین کا اطلاق بالعموم و تاابد کیے جانے پر بھی۔ جہاں تک آپکے مدارس میں زیادہ تر غریب بچوں کے آنے کا تعلق ہے وہ یقین کیجیے پھر بھی آتے رہیں گے کیونکہ آپکی دی ہوئی تفہیم کے مطابق مسلمانوں نے اپنے بچوں کے ننھے ہاتھوں سے فقط رزق ہی نہیں کھانا روزِ حشر کو خود کو ان کے ذریعے بخشوانا بھی ہے چاہے زندگی میں ہر روز انکا روزِ حشر ہو۔ خدایا رحم

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq