Ghari
گھڑی
خاکزاد حیات آباد میں اپنے کچے گھر سے نکلا تھا تو کاندھے پر اک بستہ تھا۔ یہ بستہ ماں نے ابا کی ایک گرم کوٹی کو کاٹ کر بنایا تھا۔ غریبوں کے ہاں انکے اپنے سوا کوئی شے فالتو نہیں ہوتی۔ ماں نے زندگانی کی ریزگاری سے جو چند سکے بچا کر اپنی چادر کے کونے میں باندھے تھے۔ چادر کے دوسرے کونے سے خاکزاد کو نکال کر زمانے کے حوالے کرتے ہوئے، وہ سکے اسکےحوالے کر دیے تھے۔
پھر اسے کہا جا رب راکھا۔ ابا کہنے لگا راستے میں جیون کا میلہ آئے گا، اس میں دل نہ لگا لئیں پتر۔ خاکزاد نے بچپن پور کا موڑ مڑتے پیچھے دیکھا تھا۔ تو دونوں کھڑے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ خیر وہ ہاتھ تو اس نے ہمیشہ ہلتے ہی دیکھے تھے۔ ماں کی نمناک آنکھوں کے پار موتیے کا چاند ابھر رہا تھا بینائی کا سورج ڈھلنے کو تھا۔ باپ کے چہرے پر زندگی بھر جفاؤں نے ہل چلا چلا کر جو جھریاں اور سلوٹیں ڈالی تھیں انہیں آنکھیں سیراب کر رہی تھیں۔
وہ یہ موڑ مڑنے تک مسکراتا رہا، پھر جب وہ اوجھل ہو گئے تو یوں ٹوٹ کے رویا کہ وہیں پر بکھر گیا۔ راستے میں جیون کا میلہ آیا خاکزاد دور دور سے رنگ برنگی چیزوں کو دیکھ کر ترسنے لگا۔ اتنے خوب صورت کھلونے جنکو دوسروں کے پاس دیکھ کر دل پر حسرتوں کے چھالے بن گئے تھے۔ آج وہ سارے پھوٹنے لگے، بہت جی کیا کہ ماں نے اپنی خوشیاں گروی رکھ کر جو چند سکے اسے دیے انہیں لٹا کر خوشیاں خرید لے۔
حسرتوں کے چھالوں پر نشاط کا مرہم رکھ دے آج مٹھائیوں کو دیکھ کر منہ میں کڑوا پانی بھر آیا کہ بھوکے پیٹ سے مٹھاس کیا آتی۔ خاکزاد کے گاؤں میں ایک امیر گھرانے کا بچہ ایک گھڑی باندھ کر آتا تھا۔ جس میں لائیٹ لگی ہوئی تھی، جب وہ شام کو کھیلنے آتا تو سارے بچوں کو خاص طور پر گھڑی کے آس پاس مُٹھی بند کر کے وہ لائیٹ جلا کر دکھاتا تھا۔
خاکزاد جب گھر واپس آتا تو رات اپنے سرہانے پر سر رکھتا تو آسمان کے سارے ستاروں میں وہ گھڑی کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ اسے آسمان پر وقت چلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہ گھڑی جیون کے میلے سے ضرور خریدے گا۔ وہ گھڑی جو اسکے ماں باپ کی زندگی میں نہیں آئی ان انتظار کی گھڑیوں کے بدلے آج وہ یہ گھڑی خریدے گا۔
وہ میلے کے اندر داخل ہو گیا گھڑی کے ٹھیلے کے سامنے پہنچا تو جیب میں ہاتھ ڈالا یہ جان کر اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی کہ اسکی جیب خالی تھی۔ کسی نے اسکی جیب کاٹ لی تھی۔ آنکھ کیا دل کیا روح بھی خون کے آنسو روئی۔ اسکی جیب خالی اور دل بھرا ہوا تھا۔ باہر نکلا تو شام ہو چکی تھی۔ اتنی تیز آندھی چلی کہ سب کچھ تلپٹ ہو چکا تھا۔
اسے راستہ یاد نہ منزل کا پتا۔ سامنے جوبن پور جانے کے لیے ایک پرانی سی بس کھڑی تھی۔ جب یہ چلنے لگی تو کنڈیکٹر بخت عالم سے نظر بچا کر وہ بس کے پیچھے لٹک گیا، نہ جانے کتنے سال بیت گئے۔ جوبن پور کب آیا کب چلا گیا معلوم نہیں پڑا۔ خاکزاد بستے سے سر اٹھاتا تو پتا چلتا۔ گھنٹے، سال، دہائیاں بیت گئیں، زندگی میں بہت کچھ آیا وہ گھڑی نہیں آئی۔ روشنی والی گھڑی، بالوں کی سپیدی در آنے لگی تو حیات آباد یاد آیا۔
ڈرائیور سے کہا گاڑی نکالو، گاڑی فراٹے بھرتی حیات آباد کی طرف بڑھنے لگی۔ زندگی یوں کہ یاداشت کی پردہ سکرین پر چلتے یادوں کے مناظر۔ قبرستان میں دو قبروں کے پیروں کی طرف بیٹھے اسے یوں لگا کہ ماں کی قبر کے اوپر مٹی کی وہی چادر ہے۔ اس نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے ایک کونے میں رکھ کر دوسرے کونے میں خود کو سمیٹنے لگا تو ڈرائیور نے کہا صاحب یہ کیا کر رہے ہیں؟
خاکزاد چونک گیا وہاں سے اٹھتے ہوئے شدید دل کیا کہ قبر سے آواز آئے "ربّ راکھا"۔ بچپن پور کا موڑ مڑتے پیچھے دیکھا پیچھے کوئی نہیں تھا۔ اس نے چاہا اسی طرح رو دے اس دن کی طرح آنکھیں خشک تھیں۔ نمی مٹی سے نکلتی ہے پتھر سے نہیں۔ راستے میں جیون کا میلہ آیا تو ڈرائیور سے کہا رکو۔ اتر کر میلے کے اندر داخل ہو گیا۔ تمام ٹھیلوں پر اسکی نگاہیں کسی شے کا تعاقب کر رہی تھیں۔
وہ کھلونوں کو دیکھتا ایک لمحے کے لیے ان میں اسکا ماضی سا آ کر جھلکتا پھر غائب۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو نوٹ بہت تھے دل میں جھانکا تو وہ خالی تھا۔ لیکن آخر کار ایک ٹھیلے کے پرانے سے شیشے کے پار اسے وہ مل گئی۔ اس نے اپنے بچپن کا وہ تاروں بھرا آسمان خرید لیا۔ وہ جس کی روشنی کے تعاقب میں اندھیر نگری کی سارے رستے طے کر کے آیا تھا آج اسے پا لیا۔ وہی لائیٹ والی گھڑی۔ باہر نکلا تو اس لائیٹ والی گھڑی کی لائیٹ کو جلاتا کبھی زمین کو دیکھتا کبھی آسمان کو کہ ایک عجیب بات ہوئی۔
ایک بچہ اپنی ماں کے ساتھ جا رہا تھا، ماں اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ لیکن وہ بچہ اسکی طرف دیکھ اور لپک رہا تھا۔ اسکی نظریں گھڑی کی طرف تھیں۔ اسکے کاندھے پر ایک پرانی کوٹی کو کاٹ کر بنایا گیا بستہ تھا۔ خاکزاد نے اس بچے کی ماں سے کہا رکو بہن۔ وہ رکی میں بچے کے قریب گیا، اس سے کہا یہ لو گھڑی اسکی آنکھوں میں اسے وہی تارے دکھائی دئیے، جو بچپن میں سرہانے پر سر رکھ کر آسمان پر گھڑی بناتے تھے۔ خاکزاد کی حیات کا حاصل وہی گھڑی تھی۔ "وہی گھڑی"۔