Ghamidi Sahib Se Milne Kyun Na Ja Saka?
غامدی صاحب سے ملنے کیوں نہ جا سکا؟
مجھے تخلیق کار کے جینیات کا خدا ہونے سے سب سے زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ جب میں باپ بنا تو یوں لگا کہ یہ دونوں بچے ہمیشہ سے میرے ساتھ تھے۔ ایک عجب مسحور کن سا احساس تھا جسے بیان نہ کیا جا سکے۔ ماں باپ سے پیدا ہو کر انہی کی تکمیل کرتی ہے اولاد۔ جیسے جب میں ایک بیٹا تھا تو یہ مجھ میں، میری محسوسات میں، میرے بچپن میں، ہر کہیں موجود تھے۔
وہ محسوسات سب کی سب اس پدری شفقت کی اک نظر میں سما گئیں جن سے میرے والد مجھے دیکھتے تھے اور اب میں انہیں۔ یہی جینیاتی دائرے کا سفر بندے کو ہمہ جہتی خدا کو سب سے زیادہ جینیات کا خدا ماننے پر قائل و مائل کرتا ہے۔ کلر کہار میں پہلے مصر پھر فرانس کی سیمنٹ کمپنی میں ملازمت زندگی کا ویسے بھی یادگار دور تھا کہ وقت کے پیرامڈ کی سڑک پر نقطہء عروج تک پہنچنے کی مسافت تھی۔ پچیس سے لے کر چالیس برس کی عمر۔ اس کے بعد دوسری طرف اترنے کا سفر شروع ہوتا ہے۔
غامدی صاحب کے دینی و سماجی فہم کا معترف ہوں سب سے زیادہ ان کی جو فکر متاثر کرتی ہے وہ ان کا دینِ خدا کو سماج میں اخلاقیات کا ایک عظیم معیار مرتب کرتا ایک علم و عمل کا مجموعہ قرار دینا ہے۔ غامدی صاحب کو استادِ محترم شاگرد نے کہا ہی اس لیے کہ یہ پہلے سے سماج کے اس ادنیٰ سے مشاہدہ کار کا ماننا ہے کہ اسلام ہے ہی خود غرضی کی ضد۔
میرے خیال میں مرد و زن کو شادی کے بندھن میں بندھتے سمعے غامدی صاحب کی اس با کمال تشریح کے مطابق مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ (انکے الفاظ میں) کیا ہم خدا کی اس اسکیم میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں کہ نا صرف ہمارے توسط سے انسان تخلیق ہوں گے بلکہ ان انسانوں کی ہماری کی گئی تربیت سے ایک انسانی سماج بھی پروان چڑھے گا۔
میری نگاہ میں یہ کائنات کا سب سے بڑا عہدہ ہے اور اس کے لیے اس ادارے یعنی گھر کو قائم کر کے اس حساس ترین عہدے پر ایک عورت اور مرد کو فائض کرنے والی تقریب یعنی شادی میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر فروعی، ثانوی، غیر ضروری، روائتی اور مروجہ معاملہ زیرِ بحث آتا ہے نہیں آتی تو خدا کی یہ اہم ترین اسکیم نہیں آتی۔ اسی لیے پھر سماج کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں گھر کا ادارہ ایمرجنسی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
کلر کہار سے خواب نگر ملکوال کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا اور اوپر سے تین دن ڈیوٹی اور تین دن چھٹی کا شیڈول خدا کی اس اسکیم میں بہتر طور پر شامل ہونے کی کوشش کرنے کے لیے موزوں ترین تھا۔ فیضان دنیا میں آیا تو مرہم تھا کچھ ایسے زخموں کی جن میں ابو جان کی رحلت سرِ فہرست تھی۔ ویسے مجھ میں فی الحال ہمت بھی اس ایک کا ذکر کرنے ہی کی ہے۔ خیر!
فیضان آیا جس کے فیض سے زندگی آنسو پونچھ کر مسکرانے لگی۔ فاطمہ آئی تو گویا قہقہے لگانے لگی۔ گھر میں گزرے تین دن فیضان کے نام ہوا کرتے۔ صبح جاگنے سے رات اسے سلانے کے لیے اپنے سکول دور کی نعتیں، حمدیں، گانے، لوریاں بنا کر سلانے تک۔ اس کے مشاغل، اس کا کھیل کود، اس کی سیر و تفریح اور سب سے بڑھ کر اس کی پڑھائی۔ وہ میرے لیے میرے بچپن کی کئی حسرتوں کا ازالہ تھا اور ہے۔ انگریزی کا لفظ catharsis درست تشریح کرتا ہے۔
مجھے وہ وقت یاد ہے اور ایسے چند اک واقعات میری زندگی کا سرمایہ ہیں جب ایک دفعہ مجھے میرے مصری باس نے بلایا اور کہا کہ کمپنی تمہیں دبئی والے پلانٹ پر بھیج رہی ہے کیونکہ تمہارے پاس پروفیشنل سکلز بھی ہیں اور کمیونیکیشن سکلز ہیں لیکن میں نے اسی لیے انکار کر دیا اور دوسری بار جب مجھے سعودی عرب جانے کے لیے موقع ملا اور میں صحن میں فون پر کسی سے کہہ رہا تھا کہ ٹھیک ہے میں CV بھیجتا ہوں تو فیضان صاحب نے سن لیا اور کیا کمال اداکاری کی لالہ سدھیر والی "ڈیڈا آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں پلیز" اور میں یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ محبتوں میں جکڑا آدمی یہیں کا ہو کر رہتا ہے۔ نہ وہیں کا نہ کہیں۔
اس کے بعد جب فرانس کی کمپنی ایک پاکستانی کمپنی کو کلر کہار کا پلانٹ بیچ کر چلی گئی تو نئی کمپنی نے سب سے پہلے آکر اس شیڈول کو ختم کیا اور ڈیوٹی 6 دن کام اور ایک دن چھٹی کے روائتی پاکستانی سیٹ اپ پر لے گئے جس سے پچھلے ایک دہائی سے رواں دواں خدا کی وہ اسکیم بہت متاثر ہوئی۔ اس سے پہلے کبھی کہیں جانے کا سوچا نہیں تھا لیکن اب جب سوچنا شروع کیا تو ازل کے مسافر ایک خاندان سے جڑے آدمی کا بسیرا اسکندر آباد میں آن ہوا۔
فیضان نے ملکوال میں آفاق کا نصاب پڑھا تھا۔ آکسفورڈ سکول سسٹم کا ٹیسٹ یہاں آ کر دیا تو ٹیسٹ اچھا نہیں تھا۔ سکول والوں نے کہا بہتر ہے آپ بچہ کو چوتھی جماعت ریپیٹ کروائیں۔ میں نے اس کے معصوم چہرے پر شرمساری کے سائے دیکھے تو اسے سینے سے لگایا۔ عجیب بات ہے اسے جب بھی سینے سے لگایا بخت کی طوفانی ہواؤں کو خود پر جھیلتا اپنے باپ کا سینہ یاد آیا جس کے ساتھ جب لگنے کا موقع اور وقت ہاتھ آیا تو یہ امر فرشتہ اجل کو نہ بھایا۔
میں نے سکول کوآرڈینیٹر سے کہا۔ آپ اسے پانچویں میں بیٹھنے دیں پلیز۔ مادام کہنے لگیں اصل میں بعد میں والدین شکوہ کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا Ma'am mark my words، failure will be mine success will be yours۔ آپ کہیں تو میں لکھ کر دے دیتا ہوں۔ سو بس فیضان کی پانچویں کی کتابیں مجھے یاد ہو گئیں۔ جب سالانہ نتائج میں اس نے جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو اس کی والدہ کو جب سکول انتظامیہ نے مبارکباد دی تو اس نے پلٹ کر کہا کہ یہ آپ کی کامیابی ہے کیونکہ یہی آپ سے فیض کے بابا نے کہا تھا۔
اس اثنا میں فیضان کی سکول کی کتابوں کے ساتھ صاحبِ عرفان، عرفان صاحب کو بھی پڑھتا اور ان سے سیکھتا رہا۔ عرفان صاحب کو پڑھ کر غامدی صاحب کو اور جاننے کا موقع ملا۔ اور ایک نظم میں نے غامدی صاحب پر لکھی جو بہت پسند کی گئی اور ان کے ادارے "المورد" کے کچھ محترمین سے بھی اس نظم ہی کے توسط سے شناسائی ہوئی۔ غامدی صاحب کی تربیت کے عملی نمونے ان کے فرزند جنابِ جواد سے شناسائی کچھ اور بڑھی جب میں نے ان کے بیٹے کے نام ایک نظم لکھی۔
وقاص خان صاحب تو علم و عمل کے قابلِ رشک شاہکار ہیں۔ ظفر صاحب سے تو فیس بک دوستی ہی ہو گئی۔ اور اردو اور فارسی کے باکمال لب و لہجے والے جنابِ حسنین کے کیا کہنے۔ محترم نعیم صاحب سے علمی فیض اور رہنمائی حاصل ہوتی رہتی ہے جن کی وال پر غامدی صاحب سے ملنے کے خواہش مند افراد کے لیے ایک فارم بھرنے کی پوسٹ دیکھی تو خواب پورا ہوتا نظر آیا۔ میں فارم بھر کر انتظار کرنے لگا۔
فیضان کی پڑھائی کے دوران میں اپنا ایک تجربہ اور مشاہدہ ضرور بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرے اس کی پڑھائی پر کچھ حد سے متجاوز توجہ دینے کی وجہ سے وہ جب مجھ پر زیادہ انحصار کرنے لگا تو میں نے اس کی والدہ سے مشورہ کرتے ہوئے اسے محنت اور خود انحصاری کی عادت ڈالنے کے لئے تھوڑا ہاتھ کھینچ لیا اور میرا اس سے معاہدہ ہو گیا کہ اردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم میں صرف اس کی پہلے کی طرح مدد کی جائے گی۔
جب حسنین صاحب کا فون آیا اور غامدی صاحب سے ان کی کراچی روانگی سے ایک دن قبل لاہور میں ایک پبلک میٹنگ میں شرکت کی دعوت ملی تو اگلے دن گندے بچے کا اردو کا پرچہ تھا۔ جس پر اس نے بڑی معصومیت سے کہا کہ اب دیکھ لیں میں نے وعدہ پورا کیا کہ کسی پیپر میں آپ سے تیاری کروانے کا نہیں کہا اب آپ بھی وعدہ پورا کریں اور میری اردو کی تیاری لازمی کروائیں پلیز۔
میں لگا حسنین صاحب کو میسیج ٹائپ کرنے کہ استادِ محترم غامدی صاحب نے جو خدا کی اسکیم سمجھائی تھی آج اسی کے سلسلے کا کیا ہوا ایک وعدہ ان سے ملاقات کے اعزاز اور شرف کے راستے کی دیوار ہے۔ بیٹے سے یہ کہہ کر میں لاہور نہیں گیا کہ باقی سب چھوڑ لیکن اپنی تعلیم کے لیے میری آج کی قربانی نہ بھولیں یار۔
استادِ محترم کو خدا سلامت رکھے اور مجھے بھی کہ اگلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے۔
سامنے میرے استاد کی ذات ہو
علم کی گفتگو ہو کوئی بات ہو
زندگی بھر کا اعزاز حاصل ہو گر
غامدی صاحب سے اک ملاقات ہو۔