1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Waqas Rashid/
  4. Ghamidi Sahab Ka Din

Ghamidi Sahab Ka Din

غامدی صاحب کا دن

جنابِ آدم نے "ظلمنا انفسنا" کے اقرار کے ساتھ "ترحمنا" کی درخواست کی۔ رحمان نے "من رحمت اللہ" سے "لا تقنطو" کا حکم دیا اور پھر دینِ خدا "وما ارسلنک الا رحمت للعالمین" تلک پہنچا۔ اور پھر فلسفہِ رحمت للعالمین کو "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" کی ابدی مہر عطا ہوئی۔

خطبہ حجۃ الوداع کی تصوراتی فلم بندی ہونی چاہیے جب انسانیت دست بستہ ممنونیت کے احساس کے ساتھ سامنے مجمع میں موجود تھی۔ لوگو گواہ رہنا کہ خدا کا پیغام تم تلک پہنچا دیا، اے شاہدِ عالم خدا تو بھی گواہ رہنا کہ تیرا دین تیری مخلوق تک پہنچا دیا۔ لوگو میرے بعد اسے بھلا نہ دینا۔ عجیب پیامِ ہجر تھا۔ جانا تو تھا ہی چل دیے۔ "ان الدین عند اللہ الاسلام" کے پاس اب خدا کی کتاب تھی اور رحمت للعالمین کی یادیں، جنہیں سنت کہہ لیجیے۔ انسانی تاریخ کی اس پگڈنڈی پر دینِ خدا کا سفر شروع ہوا۔

یہ یادیں کیا تھیں۔ جھوٹ کے ہر افادے کے خلاف سچ کا نقصان یوں برداشت کرنا کہ دشمن بھی صادق کہہ اٹھیں۔ امانت داری ایسی کہ جن سے جان بچا کر ہجرت کر رہے ہوں انہی کی امانتیں لوٹانے کے لیے اپنے بستر پر جنابِ علیؑ کو چھوڑ جائیں، تب بھی تو امین کہلوائے۔ طائف میں پتھر برسانے والوں پر حشر جب خدا کے ازن سے اشارہ ابرو کا منتظر ہو تو خون آلود ابرو پونچھ کر زخمی ہاتھ دعا میں اٹھا دینا۔

برداشت یہ کہ بیٹی محترمہ کمر سے بدبختوں کی پھینکی اونٹ کی اوجھڑی ہٹاتے روتے ہوئے بددعا دینے لگیں تو منع کر دیں۔ عفو و درگزر کا عالم یہ کہ گیارہ سال بعد فاتحِ مکہ بن کر لوٹے تو قریش سرداروں سے پوچھا کیا سلوک ہوگا تمہارے ساتھ؟ سب بیک آواز گویا ہوئے۔ درگزر، وہی ہوا۔ کون سی تلوار؟ اخلاقِ نبی سے جو دلوں پر تاثیر کی ضرب پڑتی تھی، آہ کے بطور کلمے کی صدا بلند ہوتی۔ خدا کی کتاب کی مفسر و شارح وہ یادیں اسوہِ حسنہ ہی تو تھیں۔۔

مگر افسوس طائف کی وادی کے پتھر نہ بھلا سکے ہونگے۔ انسان بھولنے لگے۔ راقم الحروف کی نگاہ میں ان چالیس ہزار سے بد بخت کوئی نہ تھا جو انکی حیات ہی میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کزاب سے جا ملا۔ آنکھیں تھیں یا پتھر، دل تھے کے بیابان قبروں کے کتبے۔ "اے لوگو گواہ رہنا" کی وہیں تنسیخ کر دی، اسی وقت۔ الامان، الحفیظ

شومئی قسمت کہ بھلائے جانے کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ نہ جانے کیسی کیسی کربلاوں، ملوکیت کی مطلق العنانیت، شخصی مفادات، جغرافیائی نفسیات، تاجرانہ ذہنیت، جاہلانہ جزباتیت، عملی ریاضت کے فرار کی خو سے معاشی کھیل کھیلتے کشف و الہام، پیشہ ورانہ ملائیت، عصبیت کے تعفن سے پنپتی فرقہ واریت اور تاریخی عدم دیانت پر مبنی حوادثِ زمانہ کا شکار ہو کر یہ دینِ خدا و محمد ﷺ اس عہد تلک پہنچا۔

انسانی سرشت نے سب سے بڑا ستم یہ کیا کہ رحمت للعالمین کی سنتِ نبوی ﷺ کی اصل روح تو روایات کے نیچے دبی ہی تھی۔ خدا کی جانب سے فرقان قرار دی گئی اسکی کتاب بھی اب ان روایات و حکایات پر مبنی احادیث کی روشنی میں پرکھی جاتی تھی۔ یعنی عالم الغیب پروردگار کی بات کو انسانوں کی کہی گئی باتوں کی کسوٹی میں پرکھا جاتا تھا۔

ایسے میں ایک شخصیت اٹھی۔ مختلف راستوں سے ہو کر آخر اپنے لیے ایک ایسی راہِ کٹھن چن لی جس پر فیصلہ کر لیا کہ دینِ خدا کا تنہا ماخذ پھر سے قرآن و سنت کو بنانے کی علمی کاوش کریں گے۔ دینِ خدا کی تطہیر کا کام ہر عہد میں خدا نے انبیاء سے لیا مگر خاتم النبین ﷺ کے بعد اب یہ ذمہ داری تمام انسانوں پر ہے۔ افلا یتدبرون کا مخاطب ہر کوئی ہے۔ یہ آیت اجارہ داری کی نفسیات کی بیخ کنی کرتی ہے۔

سو اس راستے پر "منکرِ حدیث" کے ہونے کے جھوٹے پراپیگنڈا کے پتھر بھی مارے جانے تھے۔ فلاں کا ایجنٹ کے بہتان کی اوجھڑی بھی پھینکی جانی تھی۔ کسی "ازم" کا ہرکارہ ہونے کے الزامات بھی آنے تھے۔ راستے میں گمراہی کے فتووں کے کانٹے بھی بچھائے جانے تھے۔ اجماع کی خلاف ورزی کے "جرم" میں راندہ درگاہ بھی ٹھہرایا جانا تھا۔ گروہی معاشی و سماجی مفادات کو زک پہنچانے کی پاداش میں واجب الفلاں فلاں بھی ہونا تھا اور آخرِ کار ہجرت پر مجبور بھی کیا جانا تھا۔

ارے یہ کیا؟ منکرِ حدیث کے الزام پر اپنی صرف ایک کتاب میں بارہ سو احادیث نقل کرنے کے استدلال پر معاملہ اللہ کی عدالت کے حوالے کر دیا؟ جواب میں کوئی فتویٰ نہیں کوئی وار نہیں۔۔ معاملہ اللہ کی عدالت پر کون چھوڑتا تھا۔ گمراہی و ارتداد کے فتووں پر اپنے ایمان کی مؤدب توثیق کے ساتھ "خدا انہیں ہدایت دے" کی دعا دے دی۔ یہ دعا پہلے کہیں تاریخ نے سن نہیں رکھی؟ نبوت اپنی اصل میں بشمول الہام، وحی، کشف، تصوف وغیرہ کے اختتام پزیر قرار دے کر ختمِ نبوت ﷺ کے منکر ہونے کے لغو ترین الزام خصوصا انکی طرف سے جو تصوف کی آڑ میں اپنے مرشدوں کو نہ جانے کیا کیا مانتے ہیں، پر محض یہ کہ "میں آپکی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ تحقیق کر لیجیے"۔ اس تحمل اور برداشت کا مشاہدہ انسانیت نے کہاں کیا تھا؟ ہجرت پر مجبور کر دیے گئے مگر کبھی ذاتی انتقام کی نہ خو کا اظہار نہ جانی دشمنوں پر کوئی ذاتی وار، صبر و استقامت کے یہ تانے بانے تاریخ کی کس ہجرت سے جا ملتے ہیں؟

اچھا اچھا۔۔ یہ "منکرِ حدیث" تو حقیقی امتیِ رسول ﷺ ہیں کہ جنہوں نے اپنے لیے اسوہ حسنہ کو عشقِ رسول کا پیمانہ مان لیا۔ نام نبی ﷺ کو جوشِ خطابت کی بجائے طرزِ طریقت تسلیم کیا۔ ختمِ نبوت ﷺ کو علمی ہی نہیں عملی طور پر یوں عقیدے کا حصہ یوں بنایا کہ انکی سنتوں کو زندہ کیا۔ دوسروں سے پہلے خود میں۔ لما تقولون مالا تفعلون کی آیت کے عملی مفسر۔

باخدا! بڑا کمال کیا صاحب۔ راقم نے جماعت اسلامی کے لٹریچر اور مودودی صاحب کی کتابوں میں آنکھ کھولی کہ بابا کی نسبت تھی۔ لڑکپن میں دعوتِ اسلامی کو قریب سے دیکھا۔ کالج میں ایک جہادی تنظیم کے کارکن اور اپنے ہم جماعت سے قربت رہی۔ نوجوانی میں والد کی رحلت کا زخم مولانا طارق جمیل کی تفہیمِ دین سے بھرتا ہوا محسوس ہوا۔ جوانی میں PEACE TV پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو سنا اور بطورِ ایک طالبعلم و مشاہدہ کار رائج دینی تفہیمات کو بساط بھر دیکھا سنا۔ ہر جا پانچ نمازوں کی طرح پانچ "ک" ساتھ رہے۔ کیا، کیوں، کب، کیسے، کون؟ نہ نمازیں پوری ہوئیں نہ کسی ک کی کسک۔

شخصی پزیرائی کی خو ہوتی تو وہیں کہیں اٹک گیا ہوتا۔ بنیادی سانچہ ایک ہی ہے۔ قول و فعل میں تضاد سے ازلی چڑ اور بس۔ جیو ٹی وی سے انہیں سننا دیکھنا شروع کیا، کچھ کچھ پڑھا بھی۔

پانچ ک کی کسک کو پہلی تشفی تب ملی جب علمیت کے زعم میں عملیت کی دھاک بٹھا کر مجھے احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے مذہبی جاگیر دار وڈیرا بننے کی بجائے کہنے لگے دین کا طالبعلم ہوں۔ جب علمی گفتگو خالصتاً تحقیقی و فکری انداز میں کی۔ جب روائیتی عالمانہ ریاکاری اور تصنع سے دور کھڑے منکسرالمزاج محبت بھرے داعیِ اسلام نظر آئے۔ جب دینِ اسلام کو جزباتیت سے دور خالصتا ایک محقق کے طور علمی و عملی سماجی مشق کے طور پر پیش کیا۔ جب دوسروں کی طرح اپنی ذات کے حصار میں یوں مقید دکھائی نہ دیے کہ تنقید پر کوئی فتویٰ و ذاتی حملہ تو کجا ماتھے پر تیوری نہ لائے۔ جب خود میں غلطی کے امکان کی گنجائش رکھتے ہیں۔ اور جب خود پیر و مرشد، عالم فاضل اور فلاں فلاں کی بجائے زیادہ سے زیادہ "استاذ" ماننے پر اکتفا کرتے ہیں۔

غامدی صاحب دور سے آپکے جھکے ہوئے کاندھے، چہرے پر سلوٹیں، اور ہاتھوں کی جھریاں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں دینِ خدا اور رسول ﷺ پر سے حوادثِ زمانہ کی دھول جھاڑ کر قرآن و سنت کو انکا مقام واپس دلوانے کی سعی میں زندگی کی نصف صدی جوت دینے کے بعد آپکے حاصل کے سامنے یہ خراج زیادہ نہیں۔

آپ نے انسانی تاریخ کو رسالت مآب ﷺ کی یادیں لوٹا دیں۔ آپ نے جو دینِ اسلام کی خدمت کی اس کا اجر وہی خدا دے سکتا ہے جس کے دین کو آپ نے میرے جیسے اپنے سب سے ادنی جی ہاں سب سے عامی شاگرد کو سمجھنے میں مدد کی۔ آپ نے رب العالمین کے رحمت للعالمین پر اترے سلامتی کے دین کی روح پھر سے انسانوں کو روشناس کرائی۔ خدا آپکو سلامت رکھے، شادوآباد رکھے۔ صحت و سلامتی اور اپنی ٹریڈ مارک مسکراہٹ کے ساتھ آپ علم و تحقیق کی شمع تقلید کے ان اندھیرے رستوں میں جلائے رکھیں۔ جسکی پہلی کرن آج کے دن چمکی تھی۔ سالگرہ مبارک استادِ محترم۔۔

پسِ تحریر! اس تحریر سے قارئین کوئی غلط مفہوم نہ لے لیں اسکے لیے ایک دلچسپ واقعہ سن لیجیے۔ غامدی صاحب پر ایک نظم لکھی جو دنیا بھر میں انکے مداحوں میں بہت مشہور ہوئی۔ پسند کرنے والوں کی عنایت۔ انکے ایک عقیدت مند نے آگے بڑھ کر اپنا واٹس ایپ نمبر دیا۔ گفتگو شروع ہوئی، کہنے لگے۔ آپ کی نظم سنی۔ اپنے دینی سفر کے بارے میں بتائیں، چھپے رستم لگتے ہیں؟ عرض کیا حضور اس سوال کے جواب کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ محض ایک عام سا آدمی ہوں آپکو کوئی ایسا تعارف نہیں کروا سکتا بعد میں جسکے آئینے سے منہ چھپاتا پھروں۔ مڑ کے نہیں آئے۔۔ آپ سے ہاتھ جوڑ کر پیشگی معزرت۔۔ جواب مگر یہی ہے۔۔ خدا کرے علم، عمل کا سراب نہ ہو۔۔

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq