Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Dr Amir Liaquat Hussain Kya Sabaq De Gaye

Dr Amir Liaquat Hussain Kya Sabaq De Gaye

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کیا سبق دے گئے

میں نے ہوش کی اور پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اپنی آنکھ اکٹھے ہی کھولی تھی۔ یہ ایک آمر کا دور تھا۔ جو صاحب اپنی قوم کو مکے دکھاتے تھے، اور جہاں مکے دکھانے ہوتے تھے وہاں مکوں والے ہاتھ کُھل کر سیلیوٹ میں بدل جاتے تھے۔ ملک میں کیبل ٹی وی کا شہرہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلا۔ پچاس کے لگ بھگ ٹی وی چینل دیکھتے ہی دیکھتے کھل گئے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں۔

جنگ گروپ نیوز انڈسٹری سے جڑے پاکستان کے بڑے کاروباری اداروں میں سے ایک ہے۔ جنگ گروپ نے جیو کے نام سے نیوز چینل شروع کیا، تو ایک ایسا شخص ٹی وی کی اسکرین پر نظر آیا جس کا ذکر اس وقت پوری قوم کی زبان پر ہے سے تھا کی صورت موجود ہے۔ اصل میں ساری کہانی ہے سے تھا تک ہی تو ہے۔

اپنے بچوں کے نام آخری ٹویٹ میں اس نے مجھے اس دور کی یاد دلا دی جسکا ذکر طالبعلم نے پہلی سطور میں کیا۔ اس نے لکھا کہ تب میرے پاس تم دونوں کو دینے کے لیے پچاس روپے تک نہیں تھے۔ وہ تب میری ہی طرح کا آدمی تھا۔ متوسط طبقے کا ایک نوجوان۔ بدن سے متصل چیزوں میں صرف جیب خالی۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ ٹی وی اسکرین کا ذکر ہو تو اسکا تزکرہ ساتھ یوں نتھی ہوناگویا لازم و ملزوم ہوں۔ شہرت دولت تو ملی تیسری شے عزت جو انکے ساتھ محاورتاً جوڑی جاتی ہے۔ اس سے طالبعلم کو اصولی اختلاف ہے۔ میری نظر میں عزت پہلی دو کو جذب کرنے سے ملتی ہے۔

تیسری دنیا میں جو شے سب سے زیادہ بکتی ہے۔ وہ مزہب ہے اسی لیے یہاں "اسلامی ٹچ" کا رواج عام ہے، اور کیسے ممکن تھا کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے نئے نئے ٹی وی چینلز کے مارکیٹنگ کے تر دماغ اپنی قوم کی اس خو سے بے بہرہ ہوتے۔ اس پر جناب خورشید ندیم نے اپنا اور "عالم آن لائن" کا باکمال کا تجزیہ پیش کیا اپنے کالم میں جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ایک نیوز کاسٹر سے مزہبی پروگرام، گیم شوز، رمضان ٹرانسمیشن پھر سیاست پھر حکومت، عروج کی عمودی چڑھائی چڑھتی یہ مسافت جس تیزی سے رفعت کی جانب گئی اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ رو بہ زوال ہوئی۔ انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت اپنے علم کی وجہ سے حاصل ہے۔ خدا سب سے بڑا عالم ہے۔ جس نے کائنات کے تمام علوم تخلیق کیے اور انکی نشانیوں کو کائنات میں معلق کر کے انسان کو انہیں مسخر کرنے کی صلاحیت بخش دی۔

علم کوئی مرئی شے نہیں۔ ہر شعبے کے ماہرین اپنے مخصوص میدان میں تعلیم حاصل کر کے اس شعبے کے ماہرین اور عالم کہلاتے ہیں، اور پھر اسکے میدانِ عمل میں محنت کے ذریعے خود کو دوسروں کو اور اس علم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ نبوت کے میدان میں خدا نے یہی اصولی معیار مرتب کیا۔ لیکن افسوس کہ جس نبوت کے سلسلے سے خالصتاً علم و عمل کا یہ سلامتی کا دین ہم تک پہنچا۔

اس دین کے علم و عمل کو ہمارے ہاں چند ایک ظاہری نمود کی چیزوں میں مقید کر کے رکھ دیا گیا۔ علم تقریر عمل تصویر، اللہ اللہ خیر صلٰی، تضادات کی خلیج کی پہلی دراڑ عالم آن لائن پروگرام کی وہ ویڈیو لیک ہونا تھی(یاد رہے کہ طالبعلم اصولی طور پر کسی بھی شخص کی خلوت کی ویڈیو بنا کر اسے لیک کرنے کی شدید مزمت کرتا ہے) جس میں ایک خاتون اپنی عزت پر حملے کی صورت میں خودکشی کا سوال پوچھتی ہے۔

اور اس پر ایک نام نہاد عالمِ دین گفتگو شروع کرتے ہوئے۔ جب نازک صورتحال کہتا ہے، تو مرحوم قہقہہ لگاتے ہیں، اور اس پر وہ عالم نما بھی ہنسنے لگتا ہے۔ اس سے آگے کی گفتگو میرے لیے یہاں رقم کرنا ممکن نہیں لیکن مجھے یاد ہے یہ ویڈیو دیکھ کر مرحوم کی رو رو کر ستائسویں رات کو کی گئی دعا میں ریا کاری کرنے کے اپنے خیال پر سے بد ظنی کا میرا اپنا گمان جاتا رہا۔

حضرت عائشہ رض اور جنابِ ابوبکر رض کے متعلق افسوسناک گفتگو کرنے والے ڈاکٹر صاحب نے جنید جمشید مرحوم کے حضرت عائشہ رض ہی کے متعلق ایک روایت بیان کرنے کے معاملے میں جو افسوسناک ترین کردار ادا کیا کاش کہ نہ کرتے۔ اس معاملے میں خود اپنے بیان پر معافی مانگنے والے نے جنید جمشید مرحوم کے معافی نامے کو No way، No way کہہ کر رد کر دیا۔

اور اپنے بارے میں یہ کہا کہ جو گستاخی میں نے کی تھی، اس پر میں نے بو بکر و عمر کے مرقدین پر جا کر معافی مانگی تو انہوں نے کہا آؤ آؤ کہاں رہ گئے تھے۔ مشرف دور کے یہ فیڈرل منسٹر اسٹیبلشمنٹ سے ایم کیو ایم کی ناراضگی کے بعد ایک موقع پر مائنس الطاف حسین کہتے پائے گئے تو کچھ دن بعد فرما رہے تھے کہ میں نے تو مائی نس یعنی میری رگ رگ الطاف حسین کہا تھا۔ آخری دنوں میں پھر الطاف حسین کا نام لینا شروع کر دیا۔

پی ٹی آئی کو جوائن کرنے سے پہلے عمران خان صاحب کی شادی سے متعلق اس سے بھی رقیق جملے ٹی وی اسکرین پر بولتے پائے گئے۔ جو چند دن پہلے پی ٹی آئی چھوڑنے کا عندیہ دیتے وقت خان صاحب اور مراد سعید کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ جعلی ڈگری کے تنازعہ کے دوران مرحوم کی گفتگو اور بدلتے بیانات جو منظر پیش کرتے تھے، وہ انکے اس تاثر کو بری طرح مجروح کرتا تھا، جو وہ مزہبی پروگرامز میں پیش کرتے تھے۔

شادی کرنا کسی بھی شخص کا حق ہوتا ہے۔ دوسری تیسری یہ ہر آدمی کی ذاتی ڈومین ہے، جس میں دوسروں کو کسی طور مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن ایک بیٹی کا باپ ہونے کے ناطے میں کسی باپ سے یہ توقع نہیں کرتا کہ وہ ٹی وی پر آکر یہ کہے کہ جس ٹویٹر سے ٹویٹ کیے جا رہے ہیں، میں پیسے دے رہا ہوں تو وہ چل رہا ہے۔

انسان کا کردار اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ چاہے مخالفت ہو چاہے حمایت با کردار اور اقدار والے لوگ ہر دو صورتوں میں ایک اخلاقیات کا معیار قائم کرتے ہیں۔ مختلف شوز میں آئے مہمانوں سے بد تہزیبی سے لے کر اپنے ٹویٹر پر سیاسی مخالفین مردوزن پر نا زیبا جملے تک بولنا مرحوم کا خاصہ تھا۔

یہ امر افسوسناک ہے کہ ایک اخلاقیات کے دین کے داعی اور عالم ہونے کے دعوی دار کے ٹویٹس اور گفتگو ایک عام سا عصیاں کار آدمی یہاں نقل نہیں کر سکتا۔ ہمایوں سعید کے متعلق کہا کہ ہمایوں سے کوئی جتنی بھی بد تمیزی کر لے خدا بھی معاف کر دے گا جب شو میں ہمایوں نے یاد کروایا تو صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگے میں نے تو کہا تھا ہمایوں جتنی مرضی بد تمیزی کر لے۔

ایک اور ٹی وی شو میں بھارت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا حضرت علی رض کو خلافت ملی تھی، تو اسکے ساتھ شدید بد تہزیبی سے پیش آتے ہوئے بات کو ذاکر نائیک صاحب کی طرف اور وہاں سے قاری خلیل صاحب کی طرف موڑتے ہوئی کتنی بد سلوکی سے ان پر ذاکر نائیک کے رسالت ماب ص کے لیے بولے گئے ایک لفظ کی تائید کرنے کا الزام لگا کر ناموسِ رسالت ص کے لیے شو چھوڑنے کا اعلان کر کے چلے گئے۔ کوکب نورانی صاحب نے بھی صحیح جلتی پر تیل کا کام کیا۔

پچھلے دنوں انکے حلقے کی ناجائز تعمیر کی گئی، ایک مسجد مسمار کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو مزہبی ساہوکار وہاں پہنچ گئے، اور جزباتیت کی دکان چمکانے لگے۔ مرحوم کیسے پیچھے رہتے۔ پہنچ گئے وہاں جے یو آئی کے کسی عہدیدار نے کہا عمران خان کو شرم آنی چاہیے کہ، اسکا جملہ اچک لیا اور کہا عمران خان میں شرم ہوتی تو آتی۔ پی ٹی آئی والوں کی طرف سے شدید ردعمل کے بعد کہا کہ میں نے کہا تھا شرم ہوتی ہے تو آتی ہے جنرل اسمبلی میں، اسلامو فموبیا کی تقاریر میں، ختمِ نبوت ص کی حفاظت میں شرم تھی تو آئی۔

صحافی اسد طور پر تشدد کیس میں حامد میر صاحب کو وارننگ دیتی ویڈیو کے آخر میں اسد طور کی چُٹیا کو جس زومعنی انداز میں انہوں نے کہا وہ افسوسناک ترین تھا۔ ایک ٹریفک پولیس والے سے چوک میں مخاطب ہونا ہو یا عمران خان صاحب کو "غدار" کا پیغام دیتی ویڈیو۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ انتہاؤں پر براجمان نظر آئے۔

خود کو حد سے زیادہ شاطر سمجھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے، کہ وہ باقی سب کو اسی حد تک بے وقوف سمجھتے ہیں۔ مرحوم کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ انکے ہر اسطرح کے اقدام سے وہ خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اور وہ اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔ بامِ عروج سے سفر پیہم زوال کی جانب رواں دواں ہے۔

پچھلے کچھ عرصے کی انکی گفتگو اور حرکات و سکنات کسی نے ملاحظہ کی ہوں تو یہ امر واضح تر ہو جاتا ہے کہ وہ کسی شدید ہیجانی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ انکا عجیب ہزیانی کیفیات میں ٹی وی پر جملہ بازی کرنا، اخلاق سے گرے ہوئے ٹویٹ کرنا، کہیں ناگن ڈانس کہیں خواتین سے فلرٹ۔ وہ یقینی طور پر نارمل ذہنی کیفیت میں نہیں تھے۔

انکی تیسری شادی کے افسوسناک اختتام نے تو گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ میں واضح کر چکا کہ ویڈیو لیک کرنا جدید دنیا کا قبیح ترین فعل ہے۔ اور میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے۔ خدا نے مگر افسوس کہ یہاں ایک دوسرے کے لباس نے خود ایک دوسرے کو بے لباس کر دیا۔

انکے ورثاء نے پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کر دیا سو خدا جانے انکی موت کی وجہ کیا تھی۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اوپر بیان کیے گئے واقعات دراصل تنازعات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ جن سے تضادات کی وہ خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔ جس نے آخر کار انہیں نگل لیا۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مرنے کے بعد کسی شخص کے صرف فضائل بیان کرنے چاہئیں اور اسکی برائی نہیں کرنی چاہیے۔

تو اس بات سے بصد ادب و احترام اختلاف کئی وجوہات کی بنا پر ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ نے گزری ہوئی قوموں اور افراد کے کیا صرف فضائل بیان کئے۔ اسلامی تاریخ ہو یا تاریخِ پاکستان، کیا کتابوں میں مرنے والوں کی صرف توصیف کی جاتی ہے۔ بھئی یہ کیا اصول ہوا مرنا تو ہر کسی نے ہے۔ انسانی تاریخ میں جبرو استبداد، ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے کرداروں کو کیا مرنے کے بعد صالح، منصف اور مخلوقِ خدا کا خدمت گزار لکھنا چاہیے؟

یقینی طور پر کسی متوفی کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔ کوئی زندہ ہو یا مردہ اسکی جنت دوزخ کا فیصلہ خدا ہی کی عدالت پر چھوڑنا چاہیے۔ لیکن خصوصاً ایسے کردار جو سماج کی بنت پر اثرانداز ہوتے ہیں، انکی زندگی کا دیانتدارانہ تجزیہ کر کے اپنے اپنے لیے ضرور عبرت اور سبق حاصل کرنا چاہیے۔ یہ سبق حاصل نہ کرنے ہی کے باعث ہم زوال اور پستی کے ایک ناتمام راستے پر لڑھک رہے ہیں۔

چند سوالات میں چھوڑتا جاتا ہوں آخر پر کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب دنیا کے پانچ سو اور پاکستان کے سو موثر ترین لوگوں میں سے تھے۔ کیا فائدہ دیا اس قوم کو انہوں نے؟ آدھی صدی کی اس زندگی میں اتنی بڑی کامیابی انہوں نے سمیٹی اس کامیابی کے کیا ثمرات چھوڑ کر گئے وہ اس سماج میں؟ اور یہ سوال صرف عامر لیاقت مرحوم ہی نہیں ہر اس شخص کے متعلق ہے، جو عوام میں اثر پزیر ہے۔

علم و عمل کے شاہکار آدمی ایثار ہیلتھ سینٹر والے وقاص خان صاحب نے اس بابت کڑوا سچ لکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہی بیچا جو یہاں بکتا ہے، اور انکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی بیچتا جو وہ بیچ کر گئے۔ ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہے، اور ایسی چیزوں کے خریدار نہیں بننا جو انمول ہیں۔ جو بکنے کی تھیں نہیں مگر ہم نے انکا بیوپار شروع کر دیا۔

انمول چیزوں کی بولیاں لگانے والے خود ارزاں ہو جاتے ہیں اور ہماری قومی ارزنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر ہم نے اپنی قومی حالت پر محض آہ و زاری سے آگے بڑھ کر ایک قدم بہتری اور حل کی جانب بڑھانا ہے تو وہ یہ ہے کہ مزہب اور مزہبی اقدار کا نہ تو فروخت کار بننا ہے نہ ہی خریدار۔

خدا ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب کی مغفرت فرمائے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra