Burqa Bachao Muhim
برقعہ بچاؤ مہم
بچی کی عمر پانچ چھے سال ہوگی۔ جیسا کہ عموما ہوتا ہے کہ اس عمر کی بچیوں کو اپنی والدہ و دیگر خواتین کی دیکھا دیکھی دوپٹے چادریں اوڑھنے کا بڑا شوق ہونے لگتا ہے۔ نئے کپڑے پہنے ساتھ لمبا سا دوپٹہ لیا اور ہیلز پہن کر تیار ہوگئی۔ اتنے میں اسکے بابا مارکیٹ جانے لگے تو ضد کرنے لگی کہ میں بھی ساتھ جاؤں گی اور یہیں سے ایک تکلیف دہ کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
باپ بچی کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور بچی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ جاتی ہے۔ موٹر سائیکل چلتا ہے ہوا سے دوپٹہ اڑنے اور لہرانے لگتا ہے۔ بچی اسے دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ مگر چند ہی لمحوں میں یہ خوشی ایک اذیت میں بدل جاتی ہے۔
موٹر سائیکل زیادہ رفتار میں نہیں تھی مگر اسکو اچانک ایک جھٹکا لگتا ہے اور یہ رک جاتی ہے۔ باپ حواس باختہ سا پیچھے مڑ کے دیکھتا ہے اور اسی لمحے کھکھلاتی بچی کی دردناک چیخیں اور کراہیں باپ کے کان میں پڑتی ہیں۔ بچی کی ناک سے گوشت یوں پھٹتا ہے کہ باپ کا گویا دل ہی پھٹ جاتا ہے۔ اندر سے نظر آتی ہڈی اس کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جاتی ہے۔ وہی ہوا جسکا ڈر تھا اڑتا ہوا دوپٹہ موٹر سائیکل کے پچھلے ٹائر میں آ چکا تھا۔
روتی چلاتی بچی اور اپنے بند ہوتے دل کو لے کر وہ فیکٹری کے ہسپتال پہنچتا ہے جہاں ڈاکٹر بچی کی فرسٹ ایڈ کرتے ہی زخم کی سنگینی اور گہرائی کو دیکھتے اسے قائد اعظم انٹرنیشنل ہسپتال بھیج دیتے ہیں۔ یہاں بچی کو ایڈمٹ کر لیا جاتا ہے۔
اگلے کئی دن جو اس سارے خاندان کے تکلیف میں گزرتے ہیں وہ تو الگ مگر یہ ننھی معصوم بچی جس کرب اور اذیت سے گزرتی ہے اور بیٹھے بٹھائے آپریشنز اور اسکے بعد پلاسٹک سرجری کے جن مراحل سے گزرتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ کافی دن کے بعد زخم مندمل ہونے کی صورت نظر آتی ہے تو ماں باپ کی جان میں جان آتی ہے۔
یہ واقعہ میرے فیکٹری کے ایک دوست اور ساتھی کے ہاں پیش آیا۔ مجھے یہ روداد جس کرب سے وہ بتا رہا تھا ایک بیٹی کا باپ ہوتے ہوئے سننا اتنا ہی تکلیف دہ تھا۔
آپ اندازہ کیجیے کہ ہم فیکٹریوں میں کام کرتے صنعتی مزدور جنہیں"رسک اسیسمنٹس" کی ٹریننگز بھی ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے حادثوں سے دوچار ہو جاتے ہیں تو دوسرے عمومی پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کا کیا عالم ہوگا۔
کل شام جب میں دودھ لے کر واپس آ رہا تھا تو پھر ایک بائیک سڑک پر دراز تھی اور ایک خاتون کا برقعہ برے طریقے سے پچھلے ٹائر میں پھنسا ہوا تھا۔ آڑی ترچھی وہ بے چاری ٹائر کے ساتھ الجھی ہوئی تھی اور کچھ لوگ انکی مدد میں جتے ہوئے تھے۔
ہر روز میں سڑک پر بچوں کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ وہ دیکھو ایک پوٹینشل ہیزرڈ Potential" Hazard"۔ کئی دفعہ بچوں نے ان خواتین کو آواز دے کر خطرے سے آگاہ بھی کیا۔ چادریں اوڑھے موٹر سائیکل پر بیٹھے مردوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک خاتون میرے آنکھوں کے سامنے سڑک پر اسی طرح پٹکی گئی تھی تو بھاگ کر اسکی مدد کو ہم پہنچے تھے اور اس کا گاؤن ساتھ کھڑی پھلوں کی ریڑھی سے چھری پکڑ کر کاٹا تھا۔
اپنے دوست سے یہ دردناک کہانی سنتے ہی سوچ لیا تھا کہ اسے مفادِ عامہ کے پیغام کی صورت پیش کروں گا سو تحریر چند معروضات کے ساتھ حاضر ہے۔ اس پر ویڈیو پیغام بھی دینے کا ارادہ ہے۔
میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ آئیے اس "برقعہ بچاؤمہم" کو عام کرتے ہیں۔ موٹر سائیکل یوں تو بلاشبہ ایک سودمند اور کفائیتی سواری ہے لیکن یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ دو پہیوں کی بنا پر یہ اتنی خطرناک بھی ہے۔ سو رفتار اور دیگر احتیاطوں کے ساتھ ہمیں اس مہم کی صورت موٹر سائیکل سے جڑے اس شدید خطرے کے تدارک کو بھی اب اپنی سوچ کا جزو بنانا ہوگا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ خواتین کو خود یہ آگاہی حاصل ہو کہ لباس انکا ہے اور انہیں اسکا حفاظتی انتظام خود کرنا ہے لیکن مرد موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہی اسے سٹارٹ کرنے سے پہلے سوار خاتون سے یہ کہے کہ وہ برقعہ، چادر، دوپٹہ، یا گاؤن کی ٹائر سے حفاظت کے لیے اسے سمیٹ لے اور یقینی بنائے کہ یہ ٹائر کی پہنچ سے دور ہوتاکہ سفر محفوظ رہے۔
پاکستانی معاشرے میں حقیقی اسلامی اقدار جیسے سچائی، دیانت، صلہ رحمی، دردِ دل، نیک نیتی، بھلائی وغیرہ کا فقدان پایا جاتا ہے البتہ چند ایسی چیزیں جنکی تفہیم و تشریح بھی خود ساختہ ہے انکا حد سے متجاوز اطلاق نظر آتا ہے۔ طالبعلم کو محسوس ہوتا ہے جیسے "پاکستانی شرم و حیا" بھی ان میں سے ایک ہے۔ عورت کو شرم و حیا کے نام پر اپنی طبیعات سے متعلق ایک احساسِ کمتری سی اور مدافعانہ طرزِ فکر بچپن ہی سے نفسیاتی ساخت میں گوندھ دی جاتی ہے۔
مجھے لگتا ہے میرے موضوع سے اسکا گہرا تعلق ہے۔ ایک تو صحت و حفاظت Health & Safety ویسے ہی ہماری ترجیحات میں مقدم نہیں دوسرا اگر میرا خیال غلط نہیں تو خواتین موٹر سائیکل پر شاید اسی شرم و حیا کی نفسیات کے تحت چادروں اور برقعوں کو سمیٹنے سے قاصر ہیں۔ خواتین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے کسی خودساختہ سماجی روایت کو خطرے میں ڈالنا بلکہ ترک کر دینا بہتر ہے۔ آپ بائیک پر بیٹھیں تو اپنی اور اپنے ساتھ بائیک چلانے والے کی قیمتی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی چادر برقعہ وغیرہ کو ٹائر سے مکمل طور پر دور کرکے بیٹھیں۔
خود راقم بھی اسی متجاوز اور خود ساختہ شرم و کے باعث کسی خاتون کا برقعہ یا چادر کا پلو ٹائر کے قریب لہراتے دیکھ کر دہلتے ہوئے دل کے ساتھ اکیلے میں خاموش رہتا ہے اور بچوں کے ساتھ ہونے کی صورت میں انہیں کہتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار مردوزن ہوں یا دوسرے سڑک پر موجود افراد سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں بھی باقی تمام معاملات کی طرح Prevention is better than cure یعنی پرہیز علاج سے بہتر ہے والی سوچ اور اپروچ ہی ترجیح ہونی چاہیے۔ خدا نخواستہ ایک سڑک پر گرے ہوئے مرد اور ٹائر میں الجھی ہوئی آڑی ترچھی پڑی خاتون کو ریسکیو کرنے سے بے شک دور سے "برقعہ بچاؤ بہن" کی صدا افضل ہونی چاہیے۔
کاش کہ ریاستی سطح پر ہر گزرگاہ پر رفتار، سپیڈ بریکر اور اسی طرح کے دوسرے سائین بورڈز کیطرح "برقعہ بچاؤ مہم " سے متعلقہ سائین بورڈز بھی ہوں۔ اخباروں میں اس آگاہی مہم کے اشتہارات چھپیں۔ ٹریفک قوانین کا اطلاق کرنے والے اس سلسلے میں اقدامات کریں۔ انفرادی حیثیت میں لوگ اپنے اپنے سوشل میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کریں۔
قصہ مختصر یہ کہ اپنی ٹین ایجر بیٹی کے لباس کے ذوق پر گفت و شنید پر حتمی تحقیق کے دوران کچھ اہلِ علم سے رہنمائی بھی حاصل ہوئی تو پتا چلا کہ برقعہ جس طرح عموماً پاکستان میں زندگی موت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اُس طرح تو نہیں لیکن مزکورہ بالا ضمن میں ضرور ہے۔