Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Beti

Beti

بیٹی

فارسی کے استادِ محترم ہمارے دادا جی کے ہاں آخری بیٹی کی پیدائش انکی وفات سے کچھ ہفتے بعد ہوئی۔ ان نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی نے باپ کو جیتے جی دیکھا تک نہ تھا۔ جن آٹھ نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی ہر روز مرتے ہی دیکھا تھا۔ انکی زندگیوں میں محرومیوں کی شام کا بسیرا تھا۔ بڑا اندھیرا تھا۔ زندگی میں آسودگی کی صبح طلوع نہ ہوئی۔

مگر اندھیروں سے ہار نہ مان کر اپنے اپنے دلوں ہی کو چراغِ وفا و جفا بنا لینے والے یہ درویش حیات کے افق پر آخر وہ کرنیں بکھیرنے میں کامیاب ہوئے۔ جن سے آج روشنی کی وراثت اگلی نسل تلک پہنچی۔ انکے دل جلے تو ہمارے ہی نہیں ہمارے بچوں کے بچپن تک تاباں ہوئے۔ میں نے ہوش کی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ ہمارے آفتاب کا اہلِ زمیں کے سورج سے طلوع ہونے کا مقابلہ سا ہے۔

ہمارا آفتاب میں انہیں ہی لکھ رہا ہوں، جنکی گردش سے بچپن کے افق پر روزوشب رواں دواں تھے۔ بابا کے تین بیٹے تھے ایک بیٹی۔ سب سے چھوٹا یہ راقم الحروف۔ اپنے بچپن اور لڑکپن کی جفاکشی سے کچھ مسکراہٹیں انہوں نے بچا رکھی تھیں (کہ قہقہہ لگاتے انہیں دیکھا نہ تھا)۔ وہ مسکراہٹیں اپنی بیٹی اور ہمارے گھر کی دیوی کے لیے تھیں۔ میری بڑی بہن۔ کتابوں میں بسنے والی عظیم خاتون۔

آج وہ مسکراہٹیں بچپن کی یادوں کی کتاب میں رکھے خشک پھولوں کی مثل ہیں۔ وفا اور جفا کا رشتہ بڑا قدیم ہے شاید قدیم ترین۔ ہمارے چچا جانوں نے باپ کی جگہ کھڑے ہونے والے اپنے بڑے بھائی اور ہمارے والد صاحب کے ساتھ وفاداری کو اس دیوی کی پوجا سے منسوب کر دیا تھا۔ سمری انکی حیات کی summary بن گئی تھی۔ عظیم آدمی چاچو جان محمود صاحب مرحوم۔

اعلی ظرفی پر مامور جناب چچا سعید احمد صدیقی صاحب مرحوم، چچا زندہ دل و دماغ جناب صلاح الدین صاحب، عشق کی کتابوں میں ملنے والا ایک کردار جناب چچا ضیالرحمن ساغر صاحب مرحوم، چچا دی گریٹ انکل فضل صاحب اور صبر کی سفیر محترمہ پھپھو جی عطیہ صاحبہ۔ ان سب نے کمال کر دیا ہر دن ایسے منایا جیسے بیٹی کا دن ہو۔

پھر جب وقت کہنے لگا اچھاچلتا ہوں تو معیشت و معاشرت کے ازلی خانہ بدوش ساتھ ہو لئے۔ اس سر زمین پر بکھر کر جو حسرتیں اپنے بچپن اور لڑکپن میں ملی تھیں، اگلی نسل کا حاصل بنانے کی جدوجہد کرنےکے واسطے۔ بڑے بھائی کی بیٹی کے بچپن کی راہوں میں پھول بکھیرنے والے ہر پیارے آدمی کو خدا نے بیٹی عطا کی۔ سلام پیش کرتا ہوں، ان میں سے ہر کسی کو ہر کسی کے مانوس چہرے پر اپنی بیٹی کی مسکان مسکرائی۔

وہ جنکا اپنا بچپن محرومی کی خارزار پگڈنڈیوں پر ننگے پاؤں چلتے گزرا۔ اپنی بیٹیوں کے پیروں میں جوتے پہنا کر بھی رستوں سے کانٹے چنتے پائے گئے۔ اپنی محرومی کو عذر بنا لینا عمومی رویہ ہے۔ خود محروم ہو کر عطا کرنا عظمت ہے۔ یہی عظمت تھی ان تمام کی کہ جن خارزاروں کو انہوں نے اپنے خون اور پسینے سے سیراب کیا، آج ان گلستانوں میں انکی تتلیوں کی اپنی تتلیاں رنگ بکھیرتی پھرتی ہیں۔

آج انکے بیٹوں بیٹیوں کی بیٹیاں خوابوں کے شبستان میں اپنی اپنی گڑیاؤں کے ساتھ بچپن کی حسین یادیں سمیٹ رہی ہیں۔ جو انکی حسرتیں تھیں وہ ہمارا حاصل ہیں یہی درویشی ہے۔ ان بیٹیوں کو آج اپنی اپنی زندگیوں میں اعتماد سے چلتے دیکھتا ہوں تو دل انکے لیے دعاگو ہوتا ہے۔ کچھ آنسو اندر کہیں گرتے ہیں۔ بھائی جان کا بابا بن کر فاطمہ کانام رکھنا ہو یا۔

اس پر شفقت کی چھاؤں کرنا یا پھر ریحاب اور فاطمہ کا میرے اور میرے یار وقار کے سنگ اپنی پھپھو اور دادا جی کے ربط کی تجدیدِ عہد ہو، جینیات کی سائینس محبت کی درگاہ کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتی ہے۔ بدوملی، دیونہ، اور خواب نگر ملکوال سے شروع ہوتی مسافت راولپنڈی، لاہور، گجرات، لالہ موسیٰ، دیونہ کی منزلیں سر کر چکی۔ جو موجود ہیں، وہ اپنے خوابوں کو تعبیر ہوتا دیکھتے رہیں۔

جو گزر گئے خدا کرے وہ وہاں ہوں جہاں سے کائنات کی ہر بیٹی کو اماں ملی۔ کہ جب وہ (ص) تشریف لائے تو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ انہیں خدا نے بیٹیاں عطا کیں اور "یا ایھا المدثر" والی چادر۔ کائنات کی یہ سب سے مقدس چادر جب آپ ص نے اپنی بیٹی کے استقبال اور تعظیم کے لیے زمین پر بچھائی تو اسکی گردش بھی شاید تفاخر سے تھم گئی ہو گی۔

طالبعلم کے مطابق کائنات کی ہر بیٹی کو اپنے باپ کی جانب سے ملنے والی محبت اس چادر کے زمین پر بچھنے کا خراج ہے۔ جس کی یاد دہانی کے لیے کل زمین پر "بیٹیوں کا عالمی دن تھا، ان درویشوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جو دورِ جدید کے سال میں ایک دن منانے کی رسم کی بجائے اپنے عہد میں ہر دن بیٹیوں کے دن کے طور مناتے رہے۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal