Baba Saghar
بابا ساغر
یہ دیونہ گاؤں ہے۔ کچی پکی دیواروں کے درمیان مٹی کے ایک آنگن میں چارپائی رکھی ہے۔ اس چارپائی پر ایک جسدِ خاکی ہے۔ چارپائی کے آس پاس بہت سارے بچے ہیں۔ یہ فارسی کے اس مرحوم استاد کے بچے ہیں۔ ابھی زندگی ہی سے آشنا نہیں ہوئے تھے کہ موت سے متعارف ہونا پڑا۔ ننھے سروں نے باپ کا سایہ ابھی تو ٹھیک سے محسوس بھی نہیں کیا تھا کہ یتیمی کی کڑکتی دھوپ نے آ لیا۔
اتنے میں دروازے پر ٹنگا پٹ سن کی بوری کا پردہ ہٹتا ہے۔ جیتے جی باپ کو کاندھا دیتا بڑا بیٹا آج جسدِ خاکی کے ساتھ یہ آخری مشق کرنے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ اسکی عمر شاید کوئی سترہ اٹھارہ سال رہی ہوگی۔ روتے روتے مرحوم کا سب سے چھوٹے سے بڑا بیٹا قمیض کا پلو اٹھا کر آنسو پونچھتا اس لڑکے کی طرف بڑھتا ہے۔ بڑا بھائی زمین پر بیٹھ کر چار پانچ سال کے سسکتے ہوئے اس بچے کو گلے لگا لیتا ہے۔ بچے کے منہ سے سسکیوں کے درمیان بس "ابا " نکلتا ہے۔۔ بڑا بھائی ہلک میں گرتے آنسوؤں کے درمیان سے ایک آواز نکالتا ہے " میں ابا"۔۔
قمیض سے آنسو پونچھنے والا وہ بچہ پھر اس بڑے بھائی کو واقعی یوں "ابا " سمجھ لیتا ہے کہ اس بڑے بھائی کے اپنے بچے جب اس یتیم بچے جتنے ہو جاتے ہیں تو اس تابعداری پر ایک رشک کرتے ہیں۔ وہ بچہ بڑے بھائی کے ان بچوں کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنے سے کاندھوں کے برابر ہونے تک ہمیشہ اس "میں ابا" کا مقروض سا دکھائی دیتا ہے۔ افلاس سے جھکے ہوئے کاندھے یہاں اور بھی جھکتے دیکھے۔ سلام آپکے کاندھوں کو ضیاالرحمن ساغر صاحب۔
جی ہاں اس چھوٹی سی کہانی میں وہ قمیض سے آنسو پونچھتا بچہ میرے مرحوم چچا ضیاالرحمن ساغر صاحب تھے اور بڑا بھائی میرے والد مرحوم رشید احمد صاحب۔ یہ کہانی میرے قلم پر قرض تھی۔ مگر محبت کے قرض چکائے نہیں جا سکتے۔ نا پچھلوں سے چکائے گئے نہ ہم ادا کر سکتے ہیں۔ محبت دہندگی میں نادہندگی کے احساس کا نام ہے۔ محبت واحد حلال سود ہے۔
کچھ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں گھر میں ایک کاغذ اور گتے کا بڑے نایاب سے البم میں سجی ہوئی، 92 کا سیلاب جنہیں ساتھ بہا لے گیا۔ یادوں کے نقوش مگر وقت کے بہاؤ کے ساتھ گہرے ہوتے ہیں۔
ان تصویروں میں کچھ شی جوانوں کے چہرے دکھائی دیتے، کمال لوگ تھے۔ بھوک سے چہروں کی رونقیں کشید کر لائے تھے۔ افلاس کی سرد مہری سے زندگی کی حرارت چھین لائے تھے۔ حسرت کے کھلیانوں میں تمناؤں کی کونپلیں اگاتے دہقان۔ محرومی کے دیوتا کے سامنے سجدہِ بےبسی سے انکار کرتے ہمت کے خدا کے پجاری لوگ۔ جو خود کو حاصل نہ ہو اسکی عطا کے مہم جو۔ آنسووں کے سارے لوازمات کے ہنگام دوسروں کے لیے مسکراہٹیں سجانے والے لجپال۔
یتیمی کی آہ و فغاں انکا گداز بن گئی۔ مفلسی کا درد ایک سوز میں ڈھل گیا۔ بھوک کا کرب انکے لیے سُر بن گیا۔
بے سروسامانی کو انہوں نے ادب کا سامان بنا لیا اور ان سب نے مل کر انہیں "ساغر" بنا دیا۔ لوہے کے ٹکڑوں کو ویلڈنگ کے ذریعے اور زندگی کے ٹوٹے پھوٹے ذروں کو شاعری کے ذریعے جوڑتا گمنامیوں کے دھندلکے میں گم گشتہ ایک باکمال و باجمال فنکار۔ ایک آرٹسٹ۔۔ ضیاالرحمن ساغر
ہوش میں ساغر صاحب سے پہلی ملاقات کوارٹر نمبر 54/اے (جی ہاں وہی ہمارا واحد گھر) میں ہوئی تھی۔ جب وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں علی عمیر اور صدف کے ساتھ رہنے آئے تھے۔ ہفتوں انہوں نے وہاں قیام کیا۔ اخلاص کے سفیر عاطف اور بہن صدف کی بیٹی میرب کو پہلی بار دیکھا تو زندگی اچانک اس کوارٹر میں ساڑھے تین دہائیوں کی چھلانگ لگا کر جا دبکی۔ جینیات کا خدا آسمان سے جھانکتا ہے " کن فیکوں"۔ کائنات کی سب سے بڑی سائینس جینیات خدا کا آرٹ ہے۔ اس بابت خدا کو سب سے بڑا آرٹسٹک سائینسدان مانتا ہوں۔
پھر ملاقاتیں اکثر ہونے لگیں۔ کسی مضمون میں ایک رات لالہ موسیٰ انکے گھر قیام کی روداد لکھی تھی۔ بچپن میں پڑھا گیا ایک مضمون لا شعور کا کوئی روگ بن گیا۔ ایک بچہ تھا جسکی ماں فوت ہوگئی تھی۔ میرے دل میں ایک وہم بیٹھ گیا کوئی رات امی کے بغیر نہ گزرتی۔ لالہ موسیٰ بڑے شوق سے انکے گھر گیا اور یہ بھول گیا کہ سورج نے غروب بھی ہونا ہے۔ جسطرح روتے بلکتے اس مضمون کے لکھاری کو انہوں نے ساری رات بہلایا شاید اپنے باپ کی چارپائی کے پاس کھڑے قمیض سے آنسو پونچھتے بچے کا قرض چکا رہے تھے۔ صبح سویرے چار بجے اسٹیشن پر میری خاطر پہنچ کر الٹا مجھے مقروض کر گئے۔
ہم ریلوے کوارٹر والے "گھر" سے اپنے مکان محلہ مولانگر شمالی خواب نگر ملکوال میں شفٹ ہوئے تو ابوجان مرحوم کی خواہش تھی کہ اپنی بیٹی اور ہمارے گھر کی دیوی کو اپنے گھر سے رخصت کریں۔ گھر کے ابھی دروازے تک نہیں لگے تھے کہ رخصتی کا دن ان پہنچا۔ ہمارا گھر جس شہتیر پر کھڑا تھا اسکے چل دینے کا وقت۔ عجیب لمحہ تھا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ساغر صاحب ساری رات دروازوں کے قبضے ویلڈ کرتے رہے۔ انکے پاس عینک نہیں تھی۔ دیوی کی رخصتی کے دن زخمی آنکھوں سے مسکراتے اور مسکراتے لبوں سے روتے رہے۔ بے مثل خاتون ہماری بڑی بہن کو اس چارپائی کے گرد کھڑے سارے بچوں نے "دیوی " بنایا تھا۔
پھر دیوی کی رخصتی سے ٹوٹ جانے والی چٹان کو جوڑنے آتے رہتے۔ زندگی دائرے کا عجیب سفر ہے۔ پٹ سن کی بوری اٹھا کر داخل ہوتا "میں ابا" والے ریلوے کے پر حشمت اور متانت کے شاہکار اسٹیشن ماسٹر صاحب قمیض اٹھا کر آنسو پونچھتا وہ بچہ بن گئے اور "وہ یتیم بچہ " اب ساغر صاحب کے روپ میں "میں ابا " بن گیا۔ ہم تینوں بھائیوں کے جفا کے رستے کے مسافر بننے پر بڑا سہارا ملا انکی صورت۔ ہمارے ابا کے رشتے سے چچی اور اماں کے رشتے سے باجی لگتی وفا شعار خاتون کو لے کر آ جاتے۔ چٹان کچھ لمحے کو سمٹ جاتی۔
اپنی زندگی کے ایک یادگار موڑ پر میں نے "میں ابا" کی حیران کن وفاداری کا عظیم مظاہرہ دیکھا۔ ابوجان نے چارپائی کے پاس کھڑے اس بچے کا ہاتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ کبھی زندگی میں خود نوشت لکھنے کا مقام آیا تو تفصیل خود ہی قلم سے وا ہو جائے گی۔
اور پھر وہ منظر جب ایک اور چارپائی، ایک اور جسدِ خاکی ایک اور آنگن۔۔ وہاں سبھی دیونہ کی اس چارپائی کے پاس کھڑے بچے تھے۔ ابوجان چلے گئے تھے۔ انکا دکھ بڑا تھا وہ دوسری بار یتیم ہو رہے تھے۔ مگر زخم یہاں بھی گہرا تھا۔ کوئی عجیب کیفیت ہوگئی۔ شاید اسی دیونہ والے بچوں والی۔ ابوجان کی خاموشی نئی نئی ٹوٹنے لگی تھی کہ ہمیشہ کے لیے ساکت ہوئے۔ ایک دن وہ گلی سے داخل ہو رہے تھے کہ ناسٹیلجیا کا عجیب جھٹکا لگا۔ سفید داڑھی، خاکی چادر، سر پر پٹھانی ٹوپی اور وہی مسکراہٹ، وہ مسکراہٹ جو ہمیں نئی نئی نصیب ہوئی تھی ہمیشہ کے لیے چھن جانے سے پہلے۔۔ ایسی ہچکیاں بندھیں میری کہ اللہ اللہ۔
پھر اسکے بعد انکی صورت بڑا سہارا تھا۔ مجھے ماں کی تنہائی دور کرنے کے لیے جلد شادی کرنا تھی۔ مجھے کی گئی ایک نصیحت پر عمل نہ کرنے کے زخم پر مرہم رکھنے آتے۔ میرے لاشعور سے وہ بچپن کی کہانی وقت نے لاکھ مٹانی چاہی نہیں مٹی۔ سامنے رہ کے بھی بھلا کوئی کسی کو یاد آ تا ہے۔ چھوڑیے۔ بڑی عزت و شفقت دی انہوں نے میری بیوی کو۔ مشترک دکھوں والوں کو تو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ یہ سرزمین مگر اور ہے۔
بڑی محفلیں سجنے لگیں انکے ساتھ۔ کہیں نہ کہیں اکٹھ ہوتا تو وہ مرکزِ محفل ہوتے۔ کیوں نہ ہوتے۔ سنگیت، شاعری، عارفانہ کلام، گفتگو، مزاح اور ساتھ غربت کا دیا ہوا عجز۔ کسی محفل میں ہیر وارث شاہ سنائی تو ایک مقام پر ایسی رفعتوں کو پہنچے کہ چاچو جان برداشت نہ کر پائے۔ پھوٹ کے روئے۔
ہمارے بچوں کو دی گئی شفقت شاید ان پر آخری ادھار تھا۔ ہیر وارث شاہ پڑھتی لمبی سانس سکڑنے لگی۔ اپنے سوز سے دھڑکنیں تیز کرتی صدا دھڑکنوں میں گھٹ کے مرنے لگی۔ وہ مزاح وہ قہقہے ایک مغموم و موہوم سی مسکراہٹ میں ڈھلنے لگے۔ آخری ملاقات میں ایک آکسیجن سیلنڈر تھا اور اسکے ماسک کے پیچھے بابا ساغر ایک خاموشی کا ساگر۔ قمیض اٹھا کر آنسو پونچھتے اس بچے نے بیماری بھی "میں ابا" والے کی چن لی۔ زندگی کے روگ خود میں مدغم کرتا دھواں زندگی ہی کو آخر حلقوم کرنے کو آیا۔
اور پھر وہ دن جب اس روئے زمین پر اڑتی وقت کی بے قدر دھول کے پار کھویا ہوا ایک عظیم گمنام فنکار اپنی خاک اس خمیر کے حوالے کرنے پہنچ گیا جہاں سے اٹھایا گیا تھا۔ انکو لحد میں اتارتے یہ پوری داستان تصور کے نہاں خانوں میں گونجتی رہی۔ دیر کر دی لکھنے میں ساغر صاحب کی روح سے معافی مانگتا ہوں جنکی محبت کا مقروض ہوں۔۔ آخر پہ انکا ایک قطعہ انکے کتبے کی نذر۔
عجب یکسانیت چھائی ہوئی ہے
تغیر و تبدل ڈر گئے ہیں
میرے حالات کی برفوں میں دب کر
میرے اندر کے موسم مر گئے ہیں
الہی مغفرت خدایا بخشش۔۔
غربت کو فن میں ڈھالنے والوں کو سلام