Asia Cup Ka Final, Afsos
ایشیا کپ کا فائنل، افسوس
کرکٹ پاکستان میں بہت زیادہ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے۔ یہاں کھیلنے والے کروڑوں میں اچھی کرکٹ کھیلنے والے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تو کہیں نہیں گئے۔ ان سینکڑوں لوگوں کی نمائندگی عالمی سطح پر گیارہ کھلاڑی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے کروڑوں پاکستانیوں کے جزبات، احساسات ایک کرکٹ میچ کے دوران یک جان و یکسو ہو جاتے ہیں۔ اور فائنل میچ ہو تو سمجھیں دل بھی ایک ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں۔
کل رات ایک بار پھر یہی منظر نامہ تھا دیس کا۔ ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کا ٹاکرا سری لنکا سے تھا۔ سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 170 رنز بنائے اور پاکستان 23 رنز سے یہ میچ ہار گیا۔ راقم الحروف نے بھی کرکٹ بہت کھیلی، بہت دیکھی اور کچھ کچھ سمجھی بھی۔ زندگی میں Analytical Approach سے جیون کی پہلی محبت یہ کرکٹ کیسے بچ سکتی تھی۔ کل کے میچ کو ایک ایک گیند دیکھنے کے بعد میں اس کا بساط بھر تجزیہ آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ آپ کو اپنے ہی تاثرات کی تحریری شکل نظر آئے گی۔
بابر کی عجیب کپتانی۔
بابر کی بیٹنگ کے ساتھ ایشیا کپ میں کپتانی کا گراف بھی نیچے گرا۔ محمد نواز سے پہلے تو باؤلنگ ہی نہیں کروائی اور پھر جب پندرہویں اوور کے پاس باؤلنگ کروائی بھی تو نسیم شاہ کو مار پڑنے کے بعد اس طرف سے دوبارہ نواز کو ہٹا کر حسنین کو بال دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسرا بیٹنگ میں خود کے آؤٹ ہونے کے بعد ہماری طرح ایک تماشائی کا کردار ہی ادا کیا۔ پورے 10 اوورز افتخار اور رضوان انتہائی منفی اور دفاعی بیٹنگ کرتے رہے لیکن نہ انہوں نے خود مطلوبہ رن ریٹ کو دیکھا نہ انہیں اسے دکھانے والا کوئی تھا۔
خراب فیلڈنگ۔
آپ دو کیچز کا موازنہ کر لیجیے۔ شاداب نے ایک کیچ چھوڑنے کے بعد اگلے کیچ کے لیے اوور ایکٹنگ کرتے ہوئے آصف کے ساتھ ٹکراؤ کیا اور وکٹ بھی گنوا دی اور چھکا بھی ہو گیا۔ سری لنکا کے دو کھلاڑی آئے ایک نے کال کیا دوسرا ساتھ کُشن کے لیے پہنچا اور آرام سے افتخار انکل کو چلتا کیا۔ جنہیں دس اوورز کے بعد بلے کو بیلچے کی طرح گھمایا اور یہ جا وہ جا۔
رضوان کی خود غرض بیٹنگ۔
ایک وقت تھا پاکستان کے بڑے کھلاڑی بڑے میچز اور ایونٹس کا انتظار کرتے تھے۔ اب عالم یہ ہے کہ بڑے کھلاڑی Leading from the front کی بجائے دوسروں کے پیچھے چھپتے ہیں۔ رضوان ایک لیگ سائیڈ کا کراس بیٹڈ بلے باز ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ Run a Ball کے ساتھ اپنے 40، 50 کے لیے کھیلتا ہے اور میچ کو پاور ہٹرز کے لیے Superman Task بنا دیتا ہے جو ظاہر ہے ہر میچ میں ممکن نہیں۔
دوسرا دنیا کا کوئی بھی اوپننگ بلے باز ہو پاور پلے کے دوران پوائنٹ، کور اور ڈیپ کوررز میں سے گیپ شاٹس کا ماہر ہوتا ہے۔ لیکن رضوان Defensive approach اور آ ف سائیڈ پر تکنیکی نقص کی وجہ سے بال کے اوپر گرتا ہے۔ اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ پہلے سے ڈاٹ بال کرنے کا ذہن بنائے ہوئے ہوتا ہے۔ اپنی کہنیوں کو جسم سے جدا صرف لیگ سائیڈ پر کھیلتے ہوئے کرتا ہے۔ کسی نے ٹھیک کہا کہ مخالف ٹیم رضوان کو آؤٹ کرنے کی بجائے کھڑے رہنے دینا چاہتی ہے کیونکہ اس سے مطلوبہ رن ریٹ مسلسل بڑھتا ہے۔
افتخار کی بزدلانہ بیٹنگ۔
ڈان بریڈ مین دی گریٹ کہتے تھے آپ جس بال کو سٹاپ کر سکتے ہیں اس پر سٹروک بھی کھیل سکتے ہیں۔ یہاں الٹا حساب ہے۔ افتخار کو شعیب ملک پر فوقیت جس پاور ہٹنگ کی صلاحیت کی وجہ سے دی گئی تھی حیرت ہے کہ وہ اس نے چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ ایک اوور تو اس نے سارا بالکل عمودی بلے کے ساتھ بال کو بس Dump ہی کیا۔ اگر آپ ایک آدھ باؤنڈری کے ساتھ آٹھ نو کر کے مطلوبہ رن ریٹ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے اور اتنی منفی کرکٹ کھیلتے ہیں کہ بعد میں آنے والے ایک اوور میں تین۔ چار چھکے لگائیں اور آپ ایک چوکا بھی نہ مار سکیں تو آپ کو قومی ٹیم میں نہیں ہونا چاہیے۔
ناقص باؤلنگ۔
وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر کی سب سے خاص بات جو انہیں Greats of the Game بنا گئی وہ بیٹسمین کے ایگریشن پر اور زیادہ مستعدی سے اس پر حملہ آور ہو کر قابو کرنا ہوتا تھا۔ وہ اس موقع پر اپنی بہترین Deliveries پھینکتے تھے۔ ہمارے فاسٹ باؤلرز میں اب وہ چیز ناپید ہی ہو گئی۔ 60/5 کے بعد حریف کا 170 کر جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں 150 سے نیچے Contain کرنے کے لیے جو Self Belief چاہیے تھا وہ ناپید تھا۔
وگرنہ نوجوان فاسٹ باؤلرز ہوں 140 پلس پیس ہو اور بیٹسمین Inside out جا کر کورز کے اوپر سے چھکے مار رہے ہوں۔ آپ اسے block hole میں یارکر مار کر کلیاں نہ اکھیڑ دیں۔ لیکن محض حارث کے جان مارنے سے نسیم اور حسنین کی کمی پوری ہونا ممکن نہ تھی۔ قصہ مختصر کہ ثابت ہوا کہ بری کپتانی، خراب ترین فیلڈنگ، منفی ذہنی اپروچ، ٹیم ورک کی کمی، خود اعتمادی کا فقدان اور ہمہ وقت دفاعی حکمتِ عملی کے ساتھ ایک اللہ والی ٹیم کی فتح ممکن نہیں۔
اور اگر آپ کو میری بات کا یقین نہ آئے تو سری لنکا کے دس اوورز وکٹ پر رکنے والے بیٹسمین Hasranga اور ہمارے افتخار کی میچ کے بعد کی گفتگو سن لیں۔ جس میں سری لنکن کہتا ہے 5 آؤٹ ہونے پر بھی ہم نے وکٹ پر کھڑے ہو کے فیصلہ کیا کہ اٹیکنگ اور پازیٹو کرکٹ کھیلیں گے کیونکہ ایک دفعہ آپ بیک فٹ پر چلے جائیں تو ٹی ٹونٹی میں واپس آنا مشکل ہوتا ہے اور حریف آپ پر حاوی ہو جاتا ہے۔
جبکہ افتخار نے کہا ہمارے دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو ہم نے سوچا ذرا لمبا لے کر جاتے ہیں آخر والے پاور ہٹرز رنز بنا لیں گے۔ اس سے منفی سوچ بھلا کیا ہو گی کہ اوپر والے کو مشکل بنائیں گے اور نیچے والے مشکل سے نکالیں گے۔ پاکستان کے ہر میدان میں میچ ایسے ہی کھیلا اور ہارا جا رہا ہے۔ افسوس۔
پسِ تحریر! طالبِ علم نے رضوان کی کرکٹنگ روحانیت کا تزکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا کہ وہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ اپنی پوسٹ پر تبلیفی جماعت سے لے کر حضرت خضر تک کے کمنٹس کی روشنی میں جلد حاضر ہوتا ہوں انشاللہ۔ کیونکہ چھکے اللہ لگواتا ہے تو مضمون بھی تو اللہ ہی لکھواتا ہے۔