Ankhon Ki Bhook
آنکھوں کی بھوک
سحری کا عجیب سحر کن سماں ہے۔ جادوئی منظر نامہ۔ فضا میں ایک نعت گونج رہی ہے۔
"آکھیں سونڑیں نوں وائے نیں۔ جے تیرا گزر ہووے "
نعت کی آواز تھمتی ہے۔ ایک یادگار گرجدار آواز ابھرتی ہے۔۔ حضر۔۔ ا۔۔ ا۔ ا۔۔ ت۔۔ تین بج کر پینتالیس منٹ ہو چکے ہیں۔۔ سحری کا وقت ختم ہونے میں پینتالیس منٹ باقی ہیں۔ پینتالیس منٹ۔ یہ ججی مرحوم ہیں۔ کیسے کیسے زندہ و جاوید کرداروں کو مرحوم لکھنے کا وقت آ گیا۔ ایک دن کوئی ہمارے بارے لکھے گا۔ کوئی تو لکھے گا۔
ایک ریلوے کوارٹر کے کھرے کے ساتھ بنے سٹور نما کچن میں صبح سویرے ایک عورت دونوں آنکھوں کو بند کرکے لکڑیوں کے چولہے کے قریب چہرہ لے جاتی ہے تاکہ لکڑیوں کو پھونک مار سکے۔ زور سے پھونک مارتے آگ جل اٹھتی ہے تو چہرہ تمتما اٹھتا ہے راکھ کے کچھ ذرے بھی اڑ کر چہرے پر پڑتے ہیں۔ چہرے کو تیزی سے پیچھے کرتی ہے اور پسینے اور حرارت کو قمیض کے کفوں سے صاف کرتی ہے۔ اس نے دو لڑکوں کے روزے کے شوق کو پورا کرنے کی خاطر تھوڑے سے وقت میں اب پانچ لوگوں کو سحری کروانی ہے پھر آخر پہ خود کرنی ہے شاید انکے بچے کھچے سے۔
براؤن براؤن پراٹھے اتر رہے ہیں۔ پلیٹوں میں دہی اور سالن ڈال رہی ہے۔ خاتون ہے یا کوئی چھلاوا۔ ظاہری ہاتھ تو دو ہی ہیں۔ اتنے میں دونوں لڑکے اٹھتے ہیں یہ انکا پہلا روزہ ہے۔ جڑواں بھائیوں میں چھوٹا ماں کو دیکھتا ہے۔ سوچتا ہے کاش انکی زندگی میں گیس والا چولہا لا سکوں۔ اپنی ماں کے لیے گیس ہیٹر جلا کر اسے خود بھی سینکنے والے میرے بیٹے! تجھے کیا خبر میرے لعل۔۔
وہ ذائقہ نہیں آسکا سحری ہوتی ہے وہ سحر نہیں ہوتا۔ سحری ہوگئی۔ آکھیں سونڑیں نوں وائے نیں۔۔ ججی صاحب آئے۔۔ چار بج کر تیس منٹ ہو چکے ہیں سحری کا وقت ختم ہو چکا ہے۔۔ کھانا پینا بند کر دیں۔۔ او ں ں ں ں (سائرن)۔ تب یہ سائرن ایسا لگا کہ طبلِ جنگ ہو۔ خاتون برتن سمیٹنے لگیں۔ لکڑیوں کو چولہے سے پیچھے کھینچ دیا۔ اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر۔۔ انسان کہتا ہے مانتا نہیں۔ اصل اعلی ظرفی خدا کی ہے منواتا بھی نہیں۔۔ ورنہ انسان کیا اسکی بساط کیا۔
شاید فجر کی اولیں نماز ہو یاد نہیں۔۔ پھر بستر میں۔ یوں لگا آنکھ لگی ہی تھی کہ جگا دیا گیا۔۔ وہی ماں کی آواز گڈو مٹھو ہوا سویرا۔۔ دن آیا اور گیا اندھیرا۔۔ جاگو جاگو نہونے بھیا۔۔ دن آیا اور گیا اندھیرا۔۔
سکول میں خود کو بڑا بڑا محسوس کر رہے تھے۔ بھئی روزہ رکھا ہے۔ کوئی عام بات ہے۔ دوپہر، دن کو بڑا اور خود خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگے۔ بھوک اور پیاس نے برا حال کیا۔ گھر آئے تو سو گئے۔ سو کر اٹھے تو غسل خانے میں ایک بالٹی ہوا کرتی تھی۔ پھر یہ کہوں گا کہ فرج کا دروازہ کھول کر اس میں سے فاسٹ فوڈ نکال کر کھانے والے بچو۔۔ یقین کرو۔۔ اس بالٹی میں ٹھنڈے ہونے کے لیے رکھے گئے تربوز، آم اور خصوصی طور پر آلو بخارے کی خوشبو ہی امر ہوا کرتی تھی۔۔ ان پھلوں کی مٹھاس اور خوشبو جدا تھی۔ یہ دہن سے وہ ذوق و ذائقہ وقت لے اڑا۔
عصر سے مغرب کا وقت روز تو باوجود خواہش کے طویل نہ ہوتا مگر آج تو گھڑیال ہی رک گیا تھا۔ حلق خشک، زبان کانٹے کی طرح سوکھی پڑی۔ مگر کرکٹ کون چھوڑے۔ ماں کے منع کرنے کے باوجود ابا نے کہا جاؤ جاؤ کھیلو۔ کھیلنے کے دوران روزہ کہاں لگتا۔ بعد میں لگا۔
گھر واپس آئے۔ بار بار لکھوں گا، گھر وہی تھا پھر مکان آئے کوارٹر ملے۔ گھر نہ ملا۔ عجیب خانہ بدوشی ہے۔ کشور کمار جی کا گیت اسی لیے پسند ہے۔
مسافر ہوں یارو نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے بس چلتے جانا
وہی چولہا تھا، وہی پھونکیں، وہی منظر۔ وقت بدلا تھا منظر نہیں۔ اب پکوڑے بن رہے تھے۔ بیسن، پیاز، آلو، مسالے سب کچھ وہی ہے، وہ ذائقہ نہیں۔
دیوی جی اندر چنا چارٹ بنا رہی تھیں۔ اسکے سکول کے مینا بازار میں بننے والی چارٹ پر رالیں ٹپکاتے سکول چھوڑنا فریضہ تھا۔ آج اسی کا ازالہ تھا۔ اتنے موٹے موٹے سفید چنے اور ونیلا رنگ کے آلو۔ ٹماٹروں کی سرخی اور دھنیا کا ہرا پن۔ من و سلوی تھا خدا کی قسم۔
ایک خاص چیز بہت خاص۔ ماں نے کسی دور میں جو بھینس رکھی تھی۔ اس کا دودھ دوہنے کے لیے سلور کا ایک گڈوا تھا۔ چھوٹی چاٹی نما۔ اس گڈوے میں دیوی نے آبِ حیات تیار کیا۔ توقف۔۔ کہ اسکا سرور پھر سے محسوس کر سکوں۔ تخم بالنگا عرف تخ ملنگا والا گڑ کا شربت۔ بازار سے لائی گئی ایک دو روپے کی برف ایک کولر میں ٹکڑے کرکے رکھی گئی تھی۔ ٹکڑے اس لیے کہ کولر کا منہ چھوٹا تھا پیٹ بڑا۔ یارِ غار ٹھیک کہتا ہے۔ ورزش کرنی ہی پڑے گی وگرنہ وہ کولر کا انجام۔ اللہ معاف کرے۔
لمحے اشتیاق و انتظار سے چیزہ لینے لگے۔ آمنے سامنے دو چارپائیاں تھیں درمیان میں ایک بڑی میز ایک چھوٹی۔ کھجور چنا چارٹ، پکوڑے، بالٹی "چلڈ" فروٹ اور گڑ کا شربت۔۔ اور آس پاس آپس میں گندھے ہوئے چھے لوگ۔ اب پانچ رہ گئے۔ زندگی میں کبھی ایک بھی روزہ نہ چھوڑنے والے حتی کہ جنت میں افطار سے ایک دن پہلے قبل کی سحری کے لیے مجھے اٹھانے والے بابا کے بعد آج پانچ رہ گئے۔ ہم ازلی چھے کے ساتھ اب ابدی چھے ہیں۔ حسیب، معید، فیضان، فاطمہ، ثوبان، ریحاب۔ روزہ کشائی سارے کر چکے۔ مگر وہ لکڑی کا چولہا، وہ پراٹھے، وہ بالٹی جا فرج اور گڑ کا شربت۔۔ نہ بچو، تہاکوں کے پتا۔ چنو
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ ٹھاہ کی آواز آئی۔ دو سائرن شروع ہوئے۔ ایک مرکزی جامع مسجد، آں ں ں ں۔۔ دوسرا ریلوے اسٹیشن خواب نگر ملکوال۔۔ غوں ں ں ں ں۔۔ اس کا جادو ہی الگ تھا۔۔ ریلوے ملازموں کے گھرانے جسمانی طور پر بڑی بڑی شاہراہوں سے ہواؤں میں بھی پہنچ جائیں انکی روحیں ریل کی پٹڑی سے نہیں اترتیں۔ کوئی بھی کرسیاں پالیں، مگر سپیڈ بریکر کی طرح کے وہ پتھر اور لکڑی کے ریلوے بینچ۔ تخیل کی ریل کا آخری پڑاؤ خواب نگر ملکوال کا ریلوے اسٹیشن ہے۔
روزہ کھل گیا، بھاری بھرکم آواز، اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔۔ یوں لگتا تھا سب کچھ کھا جائیں گے ہم مگر کہاں۔ چیزیں پڑی تھیں بھوک مٹ گئی۔ تب سے اب تک آنکھوں کی بھوک نہیں دیکھی شکر خدا کا۔ آنکھوں میں بھوک نہ ہو تو روزے کی مشق کے لیے رمضان کا چاند نہیں دیکھنا پڑتا۔ عید مبارک