Aik Mazhabi Taxi Driver
ایک مذہبی ٹیکسی ڈرائیور
ہمارا اسکندرآباد سے راولپنڈی اور معکوس سفر ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس بار راولپنڈی سے واپسی پر کچھ دلچسپ و عجیب منظر نامہ تھا۔ تقریباً پانچ سال قبل ایک بھلے مانس ڈرائیور سے ملاقات ہوئی تھی۔ عملی زندگی میں بطورِ گاہک چند بنیادی انسانی قدروں کا متلاشی رہتا ہوں۔ اچھا اخلاق، حلیمی اور دیانت۔ بات ختم۔ اسی لیے چند لوگوں سے سال ہا سال کا پیشہ ورانہ ساتھ رہا۔
اس بار راولپنڈی سے واپس اسکندرآباد آنا تھا اسی ڈرائیور کو فون کیا۔ بتائے گئے وقت کے مطابق گاڑی آئی تو میں اسکے لیے پانی پکڑ کر باہر کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ڈرائیور کے ساتھ پانچ چھے سال کا بچہ تھا۔ ایسا ہوتا نہیں۔ پوچھنے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی اور سر پر ٹوپی پہنے ڈرائیور نے بتایا میرا بیٹا ہے اسلام آباد سیر کی ضد کر رہا تھا، کچھ جھینپ کر کہنے لگا مسئلہ کوئی نہیں میری جھولی میں بیٹھے گا۔ بہرحال میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اور بیگم اور دونوں بچے پیچھے۔
سفر شروع ہوا تو تعارف پر پتا چلا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی ہے اور حال ہی میں ایف سی سے پینشن پر آیا ہے۔ میں نے اس سے کہا اسطرح بچے کو جھولی میں بٹھا کر ڈرائیو کرنا محفوظ نہیں اسے میرے ساتھ بٹھا دو۔ اس نے بچے سے سرائیکی میں کہا " چاچو دی جھولی وچ بھا ونج "۔ میں نے کہا نہیں بچوں کو تربیت ہونی چاہیے کہ اجنبیوں کی جھولی میں نہ بیٹھیں۔ اسے میرے ساتھ بٹھا دو۔ میں کچھ زیادہ ہی دروازے کی طرف ہوگیا اور بچے کو ساتھ بٹھا لیا۔
ہکلہ ڈی آئی خان موٹروے پر چڑھنے سے کچھ پہلے ریسٹ ایریا آتا ہے وہاں سے بچے کچھ کھانے پینے کو لیتے ہیں۔ میں نے جب ڈرائیور سے کہا تو کہنے لگا، جی میں نے پیٹرول وی پوا گھنساں تے سجدہ وی ڈے گھنساں" (میں پیٹرول بھی ڈلوا لوں گا اور سجدہ بھی کر لوں گا)۔
اب تک کی زندگی میں یہ تجربہ اتنی بار ہوا کہ باقاعدہ سے ایک "تھیسز" بن گیا کہ جو نیت کے دین کو علامتی طور پر سجا کر مذہبی ہونے کا بالخصوص مظاہرہ کرتا ہے نیت کا کھوٹا نکلتا ہے۔ میرا مشاہدہ تو مجھے یہاں تلک لکھنے پر آمادہ کرتا ہے کہ دراصل اپنی نیت کے علم میں انسان خدا کا شریک ہوتا ہے۔ انسان اپنی نیت کی کھوٹ کو مذہبی ملمع کاری سے چھپاتا ہے۔
اب تو جونہی کوئی مذہبی اداکاری کا پہلا سین کرتا ہے تو اندر کہیں ایک گھنٹی بجتی ہے، ایک ٹائمر سٹارٹ ہو جاتا ہے اور یقین کیجیے کلائمکس کبھی زیادہ بعید ثابت نہیں ہوا۔ یہاں بھی یہی ہوا۔
شدید گرمی میں اس نے مسجد جانے کے لیے گاڑی بند کی تو میں نے کہا بھائی بہت گرمی ہے گاڑی چلتی رہنے دو، اچانک بدلے ہوئے لہجے میں کہنے لگا، نہیں کھڑکیاں کھول دیتا ہوں لیکن گاڑی سٹارٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ میں خاموش ہوگیا اس نے بچے کو لیا اور خلقِ خدا کا حق مار کر اسے بخشوانے خالق کی چوکھٹ پر پہنچ گیا جو دراصل خالقِ کائنات کی نہیں اسکے دین کی اس تعبیر کے خالق کی چوکھٹ ہے۔ میں نے نکل کر اپنے دوست ڈرائیور کو فون کیا کہ یہ کیا بھیج دیا آج۔ اسکو روداد سنائی تو کہنے لگا میں اڈے والے سے بات کرتا ہوں۔
اڈے والے کا مجھے فون آیا کہنے لگا ڈرائیور میرا فون نہیں اٹھا رہا۔ اتنے میں وہ "سجدہ" دے کر آ چکا تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ اڈے والے سے بات کرو اور ڈرائیور نے پہلے تو یہ کہا کہ اسطرح اجنبی کو گاڑی دے کر کون جاتا ہے اور پھر اڈے والے کے کچھ کہنے پر اس نے باوضو جھوٹ بولا کہ وہ سارے لوگ تو باہر کھڑے تھے جبکہ میری بیگم اور بیٹی اندر ہی بیٹھے تھے اور گاڑی دھوپ میں کھڑی تھی۔ بہرحال گاڑی منزل کی طرف فراٹے بھرنے لگی۔
اگلی باوضو حرکت سنیے۔ یہ ڈرائیور بڑے غیر محسوس انداز میں ہر تین چار منٹس کے بعد ایک ڈیڑھ منٹس کے لیے اے سی بند کر دیتا تھا۔ میں آگے بیٹھا موبائل پر "وقاص نامہ" لکھتے اپنے ساتھ بیتتے اس "سجدہ نامے "کو دیکھ رہا تھا۔ جب اس سجدہ گزار فراڈئیے نے دورانیے بڑھانے شروع کیے تو فیضان نے بھی محسوس کرکے کہا پیچھے گرمی زیادہ ہو رہی ہے اور یہ اے سی بار بار بند کر رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ میں بے وضو آخر پہ اسکے بچے کو بازو پر سلائے ہوئے تھا جبکہ وہ باوضو میرے بچوں کو تکلیف دے رہا تھا۔ فیضان کے کہنے کے بعد اسکو شرم آ ہی گئی۔
"کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے " اسکندرآباد آیا تو میں نے سامان اتار کر دوست ڈرائیور کو فون کیا جس نے ساری روداد سن کر مجھے کہا اسے پچھتر سو کی بجائے سات ہزار روپے دو اور کہو باقی میرے سے لے لے۔ جب میں نے پیسے دیے تو تلملا اٹھا کہنے لگا پانچ سو کم ہیں۔ میں نے کہا۔ اس سے جا کر لو۔ اچانک کرخت لہجے میں بولتے ہوئے کہنے لگا کہ میں اڈے والے کو فون کرتا ہوں۔ اڈے والے کو فون کیا تو اس نے کہا بات تو پچھتر سو کی ہوئی تھی۔ میں نے اڈے والے کو کہا، پچھتر سو کی بات اے سی کے ساتھ ہوئی تھی تو یہ اے سی بند کیوں کرتا رہا۔ اس نے کہا میری بات کرواؤ اور حریص سجدہ گزار اس کے سامنے آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ اڈے والا مجھے کہنے لگا کہ میں معزرت کرتا ہوں آپ سے۔ آئیندہ اس کی گاڑی ہم نہیں چلائیں گے۔ آج کی معافی قبول کریں۔ میں نے کہا۔ میں تمہارے کہنے کے لیے دے دیتا ہوں لیکن آئیندہ اسطرح کا کوئی "متقی" میرے ساتھ مت بھیجنا۔ یہ کہہ کر میں نے اسے پیسے دیے اور چلتا کیا۔ ذہن میں ایک کلام گونج رہا تھا میرے۔۔
نماز پڑھنا کم زنانہ
تے روزہ صرفہ روٹی
اچیاں بانگاں اوہو ای دیندے
نیت جنہاں دی کھوٹی
تے مکے دے ول اوہو ای جاندے
جیہڑے ہونڑ کم دے ٹوٹی
وے بلھیا جے رب نوں لبنھا
تے رکھ صاف اندر دی کوٹھی