TTP Kon Hai
TTP کون ہے
دسمبر 1979 جب سابق یو ایس ایس آر نے افغانستان پر حملہ آور ہوا تو امریکہ اور پاکستان سمیت ان کو افغانستان میں دیکھنے کے لئے برقرار تھے۔ کیونکہ امریکا ویتنام جنگ میں 58 ہزار فوجیوں کو سرد جنگ کی نظر کرنے میں چین اور خاص طور پر ان کے حریف روس کو ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی اور پاکستان سقوط بنگال کا آدھا زمہ روس کے کھاتے میں ڈال رھا تھا بلکہ پاکستان سمجھتا تھا، کیونکہ انہوں نے انڈیا کے لیے اسلحہ کے ڈھیر لگا دیے تھے۔
اب دونوں روس کو افغانستان میں دیکھ کر بغلے بجارہے تھے۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ امریکہ اور سعودی عرب سرمایہ اور مصر اسی سرمائے سے اسلحہ فراہم کرے گا اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو ٹاسک دیا گیا کہ روسی ریچ کو وہی دبوچ لیا جائے، ایسا نہ ہو ان کا زار روس کا پرانا خواب گرم پانیوں کی بندرگاہ یعنی" کراچی اور گودار " تک رسائی حاصل ہو جاے۔
ان تمام صورتحال کے پیش نظر ایک درجن کے قریب چھوٹے اور بڑے جہادی گروپس بنائے، جس میں جلال الدین کا حقانی نیٹ ورک، انجینئر گلبدین حکمت یار کا حزب اسلامی اور پروفیسر ربانی کا قابل ذکر تھے یہ تمام گروپ عام طور پر جہادی گروپ کہلاتے تھے۔ جب انیس سو نواسی کو یو ایس ایس آر کا انخلاء ہوا 1989 سے 1996 تک افغانستان باہمی خانہ جنگی میں سلگتا رہا اور 1996 سے 2001 تک ملا عمر کی سربراہی میں امارت اسلامی۔
افغانستان بنا تب جاکے امارت کے ان پانچ سالوں میں امن اور بھائی چارہ رہا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کو عام طور پر افغان طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ لکین اب یہ تحریک طالبان پاکستان کون ہیں؟ اور ان کا وجود کیسے بنا؟ آئیے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ جب 1996 میں قندہار کے ایک چھوٹے مدرسے سے 49 طالب علموں اور استادوں سمیت ایک چھوٹا سا لشکر افغانستان میں جاری بدامنی۔
اور خانہ جنگی کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی اور ایک سال کے اندر اندر ان سرفروشوں نے پورے افغانستان کو فتح کر لیا تب انہیں طالبان پکارنے لگے یعنی مدرسے کے طالب علم، انہوں نے پانچ سال حکومت کی یہ ان میں صرف افغانی نہیں تھے بلکہ ان کے لشکر میں خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع سے بھی کافی تعداد میں لوگ جمع ہو چکے تھے۔ جو زیادہ تر پرانے اور کچھ نئے مجاہدین تھے، پرانے یعنی روس کے خلاف جو لڑے تھے۔
جب امریکہ کا 9/11 کا ڈراما پوری دنیا نے دیکھا، انہیں کار جواز بنا کر دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملہ آور ہوئے تو افغانستان کے چاروں طرف تمام ممالک امریکہ کے بلاک میں تھے اور انہیں ہر طرح کا سپورٹ دے رہے تھے۔ اسی طرح پاکستان مشرف کی سربراہی میں بڑی آسانی سے امریکی بہادر کی گود میں بیٹھ کر کھیلنے لگا۔ پاکستان نے ان تمام مجاہدین جو دراصل پاکستانی علاقوں سے بھی تھے۔
انہیں کہا گیا کہ اب ہماری پالیسی بدل چکی ہے۔ اب آپ لوگوں نے امریکہ کے خلاف نہیں لڑنا لیکن وہ پرانے مجاہدین ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ دو دو ہاتھ ہونے کے لیے پر تول رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے روسی بھی کافر تھے اور امریکی بھی کافر ہے۔ لہذا ہم یہ عہد کر چکے ہیں کہ ہم اپنے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ لہذا پاکستان نے انہیں دہشت گرد قرار دیا، انہیں دہشت گردوں (بقول اسٹبلشمنٹ) نے کہا، جب ہم آپ لوگوں کے مفاد کے لیے لڑ رہے تھے۔
تب ہم مجاہدین کہلاتے تھے۔ لیکن جب آپ کے مفاد کے خلاف یعنی امریکہ سے لڑ رہے اب ہم دہشت گرد ہو گئے، لہذا ہمیں جو بھی روکے گا ہم ان کے خلاف بھی لڑیں گے۔ ان کی یہ منطق شاید پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں آئی اور جب یہ باز نہ آئے تو حکومت نے انہیں ہر طرح سے زدوکوب کیا انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، امریکیوں کے حوالے کیا، کییئوں کو لاپتہ کیا گیا، لہذا ان تمام مظالم برداشت کرنے کے بعد۔
جب ان میں تھوڑی سی جان آئے تو انہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی اور ان سے بدلہ لینے کی ٹھان لے اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے گروپ کا اعلان کر دیا۔ اردو کا مشہور منقولہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، لہذا kGB اور خاص طور پر RAW نے انہیں امداد دینا شروع کر دیا، ان بیس سالوں میں امریکہ کے مفادات کی خاطر ہم نے ستر ہزار لاشیں اور تیس ارب ڈالر کا نقصان کیا۔
یہ صرف اور صرف ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اداکاروں نے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کیا، کیونکہ وہاں ان کے بچے پڑھتے ہیں، ان کے کاروبار چلتے ہیں، باہر کے بنکوں میں یہاں کا لوٹا ہوا پیسہ جمع کیا ہوا ہے اور وغیرہ وغیرہ، لیکن 2018 میں عمران خان کے آنے کے بعد دہشت گردی کی لہر تقریباً تمام ہوگئ تھی، 2018 سے 2022 تک تقریبا پونے تین سال امن سے گزرے، کیونکہ اس دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے۔
کچھ باتیں مان لیے گئے تھے اور کچھ پہ گفت و شنید جاری تھیں کہ اس دوران رجیم چینج آپریشن کروایا گیا اور عمران خان کو بیرونی اور اندرونی سازشوں نے نکال باہر کیا اور تمام مذاکرات وہی کے وہی ٹھپ ہوگی۔ اب ٹی ٹی پی نے دوبارہ مسلح سرگرمیاں شروع کر دی ہے۔ پہلے سوات سے شروع کرتے ہوئے بنوں اور اب لکیمروت کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ بنوں آپریشن کی منظوری ہو چکی ہیں۔
لیکن اعلان باقی ہے، سوال یہاں پیدا ہوتا ہے؟ کہ بلاول زرداری امریکہ میں بیٹھ کر یہ کہتا ہے" کہ افغانستان کی طرف سے اشتعال انگیزی پر ہماری بارڈر محفوظ بنانے کے لیے امریکہ فراہم فنڈ فراہم کرنے کا خواہاں ہے" لیکن ہم یہ سمجھ نہیں آتی کہ افغانستان کے ساتھ چار ممالک کے بارڈر لگتے ہیں۔ لیکن اشتعال انگیز اور دہشت گرد ہمیشہ پاکستان کی طرف رخ کرتے ہیں یہ کیا وجہ ہے؟
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کہ واقعات اور اسی دوران وزیر خارجہ کا یہ بیان کچھ اور ہی ظاہر کرتا ہے اور اب عوام خوب سمجھتی ہے کہ دال توڑی ہی نہیں پوری کالی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام اب دہشت گردی کی نئے نئی لہر اٹھنے کے بعد ان نظریں کچھ جس جانب اٹھ رہی ہے، وہ سب کو پتہ ہے۔