1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Pakistan Ka Matlab Kya?

Pakistan Ka Matlab Kya?

پاکستان کا مطلب کیا؟

موریہ (322 - 150) قبل مسیح اور گپتا سلطنت(320-550) قبل مسیح تک ہندوستان پر حکومت کی۔ یہ ہندوستان کے پانچ ہزار سال تاریخ کے تین سو ستاسٹھ سال بنتے ہیں۔ یہ قدیم ہندوستان پر ہندوؤں کی مثالیں دور حکومت تھی ہندوستان پر سب سے پہلے بیرونی حملہ اور میک ڈورین سلطنت کے سکندر اعظم تھا سکندر نے 326 قبل مسیح راجہ پورس کو ٹیکسلا کے مقام پر شکست دی۔ سکندر اعظم نے ہندوستان کےلئے بیرونی حملہ آوروں کے لئے راہ ہموار کی۔

سکندر اعظم کے بعد آریاؤں، بدھ بھکشوؤں، ایرانیوں، پرتگالیوں، فرانسیسیوں مسلمانوں اور دیگر مختلف اقوام حملہ آور ہو کر ہندوستان پر کئی سالوں تک حکومت کی۔ لیکن ہندوستان کے پانچ ہزار سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ 800 سال حکومت مسلمانوں نے کی یہ آٹھ سو سال موریہ اور گوپتا تہذیبوں کے بعد ہندوستان کے سنھری ادوار گردانے جاتے ہیں۔

ہندوستان پر مسلمانوں کا پہلا حملہ ایک مسلم جرنیل نے 720 ھ میں کیا تھا اس حملے کی وجہ ایک رومال تھی حملے سے پہلے عرب تاجر ھندوستان تجارت کی غرض اور ساتھ ساتھ تبلیغ کیلئے آیا جایا کرتے تھے اس وقت ہندوستان میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ ھندوستانی غیر مسلم عرب تاجروں کے حسن سلوک اور تبلیغ سے نئے نئے اسلام میں داخل ہو چکے تھے جس کی بدولت نو مسلموں کو اپنے مذاہب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک مسلمان ہندوستانی لڑکی نے کپڑے کے رومال پہ یہ الفاظ لکھ کے ایک تاجر کو پکڑا دیدی کہ میری فریاد مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس پہنچا دو اس کپڑے کے رومال پر کشیدہ کاری سے لکھا تھا " اے مسلمانوں کے امیر آپ کی بہن، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت ہندوستان میں تار تار ہو رہی ہے لیکن آپ کو کوئی خبر نہیں خدا کے لیے ہماری مدد کو پہنچے ورنہ ہندوستان سے اسلام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا"۔

تاجر نے جب یہ رومال عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کی خدمت میں پیش کیا تو کپڑے کے ننھے ٹکڑے نے اموی خلافت کے ایوانوں میں ہلچل مچادی حجاج نے اپنے 15 سال کے بھتیجے کو فورا حملے کے لیے ھندوستان روانہ کیا۔ اس ننھے ے جرنیل کو صرف چھ ہزار سپاہی دیے گئے لیکن ننھے جرنیل کے حوصلے فولاد سے سخت، پہاڑوں سے اونچے اور سمندر سے گہرے تھے اس ننھے جرنیل کا نام محمد بن قاسم تھا۔

محمد بن قاسم نے ہندوستان پر اتنے سخت اور تابڑ توڑ حملے کیے کے صرف دو سالوں یعنی 712 ھ میں اپنی شجاعت و بہادری اور اخلاق سے پورے ہندوستان میں فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔ محمد بن قاسم ہندوستانی عوام کے کرشماتی اور طلمساتی جنگجو بن چکے تھے۔ محمد بن قاسم کے بعد ہندوستان کئی مسلم سلطنتوں کا حصہ بنا جس میں افغانستان کے سلطان محمود غزنوی، شیر شاہ سوری، بابر، شہاب الدین غوری، اور احمد شاہ ابدالی کے نام پیش پیش ہے۔

ان تمام ادوار میں ہندوستان نے معاشی، علمی، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بے پناہ ترقی کی۔ کمال اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ انگریز colonization سے پہلے ہندوستان کی کل جی ڈی پی(GDP) ٪35 سے زیادہ تھی جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔

انگریزوں نے ہندوستان پر بلاواسطہ دو سو سال اور واسطہ 90 سال حکومت کی۔ 1857ء جنگ آزادی کے بعد انگریزی غلامی سے نجات لینے کے لئے مسلمانوں میں ایک نئے ملک کا خیال پیدا ہوا۔ جو 1930 تک ایک نئے ملک کے مطالبہ کی شکل اختیار کر گئے۔ مسلمان 1913 میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈال چکیں تھے۔ 1930 الہ آباد کے جلسے میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک الگ ریاست کے مطالبہ کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں نے ایک سیاسی جدوجہد شروع کی۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جب خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے اور مسلمانوں کو قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو اس وقت عراقیوں نے کہا ہم بابل نینوا (قدیم تہذیب) کے علمبردار ہے ہمیں عراق دے دو مصریوں نے کہا ہم فرعون کی اولاد ہے ہمیں مصر دے دو عربیوں نے کہا تمام جزیرہ نما عرب میں صرف عربی رہتے ہیں اس لیے ہمیں عرب دے دو لیکن اس ڈرامائی کیفیت کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے کہا ہم چاہیے پٹھان ہے پنجابی سندھی بلوچی اور سرائیکی جو بھی ہے لیکن چونکہ ھم لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں اس لیے ہمیں پاکستان دے دو۔

اس وقت ایک ہی گھر میں رہنے والے دو بھائی ایک طرح کا لباس پہننے والے، ایک طرح کا ساگ کھانے والے، ایک ہی زبان بولنے والے اور ایک ہی طرح کا بھنگڑا ڈالنے والے دو بھائی غلام رسول اور پھوکررام۔ لیکن غلام رسول کہتا تھا کہ تم میرے بھائی اسلیے نہیں ہوں کہ تم لاالہ الا اللہ نہیں پڑھتے۔

جب خلافت عثمانیہ کو قومی ریاستوں میں ان کے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیائی حیثیت سے تقسیم کیا جا رہا تھا اس وقت میرے ملک کے دروازے پر لاالہ اللہ کی تختی لگی ہوئی تھی۔

اور بلا آخر 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کے لازوال قربانیوں اور قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد کے بعد ایک آزاد ریاست پاکستان کی شکل میں مل گئی۔ مسلمانوں اور خاص طور پر قائداعظم کے آزادی کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا مسلمانوں کو ایک ایسے زمین کے ٹکڑے کی ضرورت ہے جس میں وہ آزادی سے 24 گھنٹے کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق گزار سکے۔

قائداعظم کی تمام تقریروں کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا جس کا کوئی قانون اسلام کے متصادم نہیں بنے گا لیکن میرا ذاتی خیال ہے (میں غلط بھی ہو سکتا ہوں) قائد اعظم سے بہت بڑی غلطی ہوئی تھی جس طرح اسرائیل کے قیام کے فورا بعد اس کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان ایک عوامی جلسے میں تورات کو لہراتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم یہودی ہیں ہماری الہامی کتاب تورات ہیں اسرائیل کو کسی آئین بنانے کی ضرورت نہیں ہمارا آئین اور قانون تورات ہوگا"۔

میرے خیال میں قائد اعظم کی پہلی تقریر 11 اگست 1947 کو بطور گورنر جنرل قرآن لہراتے ہوئی کہنا چاہئے تھا" کہ ہمارا آئین صرف اور صرف قرآن ہوگا" لیکن کاش اگر ایسا ہوتا۔

قائد اعظم کے وفات کے بعد پاکستان ایک آئینی بحران میں داخل ہوا افسوس کی بات یہ ہے کہ لا الہ اللہ کے نعرے پر بننے والا پاکستان اس کا آئین نو سال بعد 1956 میں بنایا گیا ٹھیک دو سال بعد 1958 میں ایک ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا آزادی کے فورا بعد اگر قائد اعظم اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کی طرح قرآن کو نافظ عمل کر دیتا تو پاکستان کو 1958، 1959 1977، 1999، اور 9 اپریل 2020 کے دن نہیں دیکھنے پڑتے۔

آزادی کے 75 سال ہونے کے باوجود پاکستان کی معزز عدالت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ لڑکا اور لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے یا اس سے کم۔ ہمارے نام نہاد جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ اتنا کھلواڑ کیا ہے اسکا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے"اسلامی انقلاب"۔

پاکستان کے بچپن جوانی اور بڑھاپے کے ہر طرح کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چہروں کے بدلنے سے پاکستان کا مستقبل نہیں بدلنے والا چاہیے بھٹو جیسا خودار اور عمران خان جیسا دیانتدار لیڈر کتنے اور کیوں نہ آ جائے یہ ملک نہیں ٹھیک ہونے والا کیونکہ اس ملک کے سیاستدان، اشرفیہ، جمہوریت زدہ علمائے کرام، ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ اب واپسی کا راستہ نہ پیدا ہو چکا ہے۔

اب اس کا واحد حل اسلامی شریعت نظام ہے چاہے وہ سیاسی جدوجہد سے ہو یا مسلح جدوجہد کا نتیجہ ہو استعمار کے اس گندے نظام کو بدلنا پڑے گا۔ اقبال کہتا ہے

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے۔

اور آخر میں اس کی تائید میں دو حدیثیں پیش کرنا چاہتا ہوں ایک حدیث امام ابن ماجہ رح کی ہے حضرت عبداللہ بن حارث رض سے نقل کرتے ہیں "مشرق سے فوجیں نکلیں گی جو مہدی رح کی حکومت قائم کرنے کے لئے منزل پر منزل مارتی ہوئی چلی آئیں گیں " حدیث سے معلوم ہوا مشرق کے کسی علاقے میں نظام خلافت پہلے قائم ہوچکا ہوگا دوسری حدیث ابو ہریرہ رض سے منقول ہے" کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خراسان کی جانب سے علم چلے گا ان کو کوئی روک نہ سکے گا جب تک وہ ایلیا میں جا کر نصب نہ ہو جائے"۔

نبی ﷺ کے زمانے میں یروشلم یعنی بیت المقدس کا نام ایلیا تھا اور خراسان اس علاقے کا نام ہے جس کا کچھ حصہ اس وقت پاکستان میں ہے اور زیادہ حصہ افغانستان کا ہے گویا پاکستان اور افغانستان میں خلافت قائم ہوگی نیز افغانستان میں تو قائم ہوچکی ہے بس باری پاکستان کی ہے میرے خیال میں اب تک تمام سیاسی صورتحال ایک اسلامی انقلاب کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔

امید ہے کہ ایک دن انشاءاللہ سورج طلوع ہوگا اور اس گندے نظام کے بادل چھٹ جائیں گے۔ اقبال کہتا ہے۔

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے ہم نے

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat