1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Pakistan: A Hard Country (2)

Pakistan: A Hard Country (2)

Pakistan: A Hard Country (2)

14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو لاتعداد مسائل نے ایک نئی مملکت کو اپنے حصار میں لے لیا، اسی دوران کشمیر پر بھارتی یلغار پر جرنل گریسی کو حملہ کرنے کا حکم دیا تو وہ انکار پر تل گئے۔ قائداعظم کی ایک للکار پہ قبائل کی غیور پختون نے جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، کشمیر میں بھارتی افواج پر ٹوٹ پڑے اور کچھ ہی عرصہ میں ادھے کشمیر پر بھارتی قبضہ چھڑوا لیا اور نہرو کی اقوام متحدہ میں دوڑیں لگوا دئ۔

اور 23 اگست 1948 کو یونائیٹڈ نیشن کے اعلان نے، جو جہاں ہے۔ اسی بنیاد پر جنگ بندی کا اعلان ہوا، 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اندوہناک اور افسوس ناک واقعے نے ملک کو ایک نئی سیاسی انتشار میں دھکیل دیا۔ 1951 سے 1956 تک 6 وزیراعظم تبدیل ہوگیے اور پاکستان نو سالوں بعد بھی بدقسمتی سے آئین، 23 مارچ 1956 کو نافذالعمل ہوا تو دو سال بعد 17 اکتوبر 1958 کو۔

ایوب خان نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ ایوب خان نے 10 سال حکومت کی پاکستان ایک مثبت ڈگر پر چل رہا تھا۔ اسی دوران پاکستان میں بڑے بڑے ڈیم بننے، کارخانے لگائے گئے، پانچ سالہ منصوبے بنائے گئے اور انہیں کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں گئے، یہاں تک کہ 1965 میں پاکستان نے جرمنی کو تین کروڑ کا قرضہ دیا۔ 65 کی جنگ لڑی گئی اور دشمن کو ناکوچنے چبوا دیے۔

ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والا بھٹو 1966 کو تاشقند سے واپسی پر یہ الزام لگایا کہ ہم نے جیتی ہوئی، جنگ میز پرہار دی۔ اس دوران عوام کو ایوب حکومت کے خلاف نکالا گیا۔ جب تاشقند میں روس کی سرپرستی میں انڈیا اور پاکستان کی وہ گفت و شنید جاری تھی۔ ایک دن ایوب خان نے روسی وزیر خارجہ سے استفسار کیا کہ بھٹو سے ہاتھ نہیں ملاتے تو انہوں نے بہت تلخ جواب دیا کہا کہ ہم جو باتیں آپ سے میٹنگ کے دوران کرتے ہیں۔

مسٹر بھٹو وہ تمام گفتگو امریکی ایمبیسی جاکر امریکی سفیر کو بتاتے ہیں۔ ایوب خان کافی سیخ پا ہوا اور دن معاہدے کی واپسی کے بعد بھٹو نے جو سیاسی چال چلائی تاریخ گواہ ہے۔ ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور 1969 کو جنرل یحیٰی خان نے مارشل لگا دیا۔ ان دو سالوں کے دوران بنگالیوں سے جو زیادتی ہوئی ہیں۔ ان کی تاریخ گواہ ہے۔ اسی نا انصافیوں کے دوران 1970 میں جنرل الیکشن ہوئے۔

جس میں عوامی لیگ 2/3 اکثریت سے پاس ہوئی اور یوں ان کا آئینی حق تھا کہ وہ حکومت بنائے، لیکن بھٹو کی نیت صاف نہیں تھی گئے اور اسی آنا اور ضد کی وجہ سے 16 دسمبر1971 کا دن دیکھنا پڑا۔ لوگوں کا آج بھی یقین ہے کہ بھٹو سقوط ڈھاکہ میں برابر کا شریک نہیں، لیکن اسی دوران جنرل ٹکا خان جو مشرقی پاکستان میں"Butcher of benghal" نئی "بنگال کا قصائی" کے نام سے مشہور تھا۔

اسی کو بعد میں پیپلز پارٹی نے جنرل سیکرٹری سے کیوں بنایا؟ اور حمود الرحمن کمیشن رپورٹ یعنی(1971 تا 1970) تک اس دوران بھٹو کی حکومت تھی۔ انہیں منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا؟ سوال بہت سے ہیں، ان کے جواب آج تک نہیں ملے۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور آیا، اسی دوران امریکی دوستی عروج پر تھی اور افغان جنگ 1979 تا نئی 1989 تک جاری رہی اور آخری فوجی جو ایک جنرل تھا۔

24 دسمبر 1989 کو دریائے امو عبور کرتے ہوئے، پیچھے دیکھا اور کہا" ہم آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے"۔ اور پھر 1991 میں ایک گولی چلائے بغیر13 ریاست روس سے جدا ہوئی، اس وقت روس کے پاس سینکڑوں ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ لیکن وہ کسی کام کے نہ آئے، 1988 سے 1996 تک چار حکومت آئی۔ یہ دور پاکستان کی سیاسی عدم استحکام عروج پر تھیں، ان چار سالوں میں پاکستان کی پٹھا بیٹھ گیا اور آج تک بیٹھا ہوا ہے۔

جب سے پاکستانی سیاست میں بے نظیر اور نواز شریف کی انٹری ہوئی، پاکستان میں اس وقت سے سیاست کا جنازہ اٹھا اور آج تک ہے۔ کیونکہ پاکستان کی سیاست میں گالم گلوچ اور بدتمیزی کا کلچر نواز شریف صاحب نے دیا اور بینظیر کے برہنہ تصویریں ہیلی کاپٹر سے پینکھوای گئی اور پیغام دیا کہ ہم سیاست میں ہر حد تک جا سکتے ہیں۔

پھر 1999 میں جنرل مشرف آیا اور پاکستان کو کچھ ڈالروں کے عوض امریکی اور نیٹو بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا اور، war on terror کے سرحد کے پختونوں اور افغانستان کے سادہ لوح عوام کا خون بہایا گیا، مقاتل بن رہے 1999 سے 2008 تک ہمارے جرنیلوں، سیاستدانوں، اور بیوروکریٹس نے خوب دولت سمیٹی لیکن اس دوران ملک کا اخلاقی، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور دینی لحاظ سے دیوالیہ نکل گیا۔

ان کے ثمرات آج بھی نظر آ رہے ہیں۔ لیکن 2001 سے آج تک بدامنی اور دہشتگردی کی فلسفہ تاریخ کیا ہے۔ آئیے میں بتاتا ہوں؟ جواب بہت سادہ سا ہے، وہ ہے، پاکستان کی غلط اور منافقانہ پالیسیاں۔ جب 1979 میں افغانستان کو روسی ریچھ نے دبوچ لیا، اس دوران آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی مدد سے کی جہادی تنظیمیں بنائی گئی اور گیا کہ ہم نے کفار کے خلاف لڑنا ہے۔

افغانستان کی عوام اور سرحد کے غیور پختونو نے سینہ سپر ہو کے روسی ریچھ کے خلاف لڑتے رہے اور انہیں ذلت آمیز شکست کے ساتھ ساتھ ان کی 13 ٹکڑے کر دیئے، لیکن جب دو ہزار ایک2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تو ان تمام مجاہدین جو ابھی تک زندہ ہے۔ ان کا خون کھولنے لگا، پالیسی بدل چکی تھی۔ اس دفعہ پاکستان کے عسکری اداروں نے یہ سلیبس دیا، کیونکہ اب ہم امریکہ کے اتحادی ہے۔

لہذا افغانستان جائے بھاڑ میں ہم نے ڈالر بٹورنے ہے۔ لیکن وہ جو افغانستان سے اس طرف تھے، انہوں نے اس بیانے کو رد کیا۔ اور صاف کہا" کہ وہ بھی کافر تھے اور یہ بھی کافر ہے اور اللہ نے ہمیں کفر کے خلاف ہر حالت میں جنگ کا حکم فرمایا ہے" جب بار بار کی خبر داری کے باوجود لوگ جہاد سے باز نہیں آئے تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اور پھر ٹی ٹی پی کے نام سے تنظیم بنا کے جوابی کاروائیاں شروع کی۔

اور یوں ہم نے ستر ہزار بے گناہ شہریوں اور لاتعداد فوجیوں کی شہادت دے کر اور تیس ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ اتنا جنگ و جدل کرنے کے باوجود بھی ہم آج بھی نہیں سدھریں امارات اسلامیہ افغانستان کے آرمی چیف جنرل مبین چلاتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ کابل میں القاعدہ کے امیر پر امریکی ڈرون حملہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا پڑوسی کہاں کھڑا ہے اور یہ أبیل مجھے مار والی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔

2007 میں دو دفعہ سابق وزیر اعظم بینظیر کا قتل ہوا، ان کے شوہر پانچ سال تک اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہے، لیکن اپنی بیوی کے قاتل نہیں ڈھونڈ پایا سوال تو بنتا ہے؟ دال تھوڑی نہیں پوری کالی ہے۔ 2013 سے 2022 تک چار وزراۓ اعظم تبدیل ہوئے، لیکن پاکستان میں تبدیلی نام کی کوئی چیز نہیں آرہی ہم دن بدن ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

جس طرح عمران خان کو رجیم چینج آپریشن کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا اور جس طرح 13 پارٹیوں کو ایلفی کے ساتھ جوڑا گیا، جو پہلے ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ سوال تو بنتا ہے کہ وہ کون تھا؟ جنہوں نے 13 پارٹیوں کو جوڑا۔ پاکستان اس نہج پر پہنچانے والے آج بھی عجیب قسم کے تجربات ازمار ہیں۔ لیکن وہ سب ان کے گلے پڑ رہے ہیں۔

اسلام اور پاکستان کے مایہ ناز جرنیل حمید گل رح نے کچھ پیشن گوئیاں کی تھیں ذرا ملاحظہ کیجئے "امریکا افغانستان سے بھاگ جائے گا، بھاگ گیا۔ پھر کہا مداخلت ہوگی، ہوگئی، کہا کٹ پتلی حکومت آئے گی، اور آگئی، اور بل آخر کہاں انقلاب آئے گا" لیکن اس سے پہلے نبی دو جہاں صہ کے دو حدیث ملاحظہ کیجئے۔

"نبی صہ نے کہا مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے"

دوسری حدیث

امام ابن ماجہ رح کی ہے، عبداللہ بن حارثؓ سے نقل ہے" مشرق سے فوجی نکلے گی جو مہدی رحمہ اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے منزل پر منزل مارتی ہوئی چلی آئیں گے "حدیث سے معلوم ہو کہ مشرق کے کسی علاقے میں نظام خلافت پہلے قائم ہو چکی ہوگی، لیکن ایک اور حدیث میں خراسان کا ذکر آیا ہے اور اس نبی کے زمانے میں خراسان جس میں کچھ حصہ اس وقت پاکستان اور زیادہ تر افغانستان ہے گویا وہ افغانستان ستان اور پاکستان میں خلافت قائم ہوگئی ہے۔

افغانستان میں تو قائم ہوچکی ہے، باری پاکستان کی ہے۔ اب حمید گل نے جس انقلاب کا ذکر کیا ہے، وہ آمین کے لائق نہیں اسلامی انقلاب کی بات ہے، آج کل کی صورتحال پر غور کیجیے، کہ پاکستان میں ریجیم چینج آپریشن کے بعد جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اور حالات جس راستے پر چل پڑے ہیں۔ وہ کسی دکان کے سامنے پٹے پہ بیٹھا ہوا شخص بھی خوب جانتا ہے۔

اللہ سے بس یہی دعا ہے "کہ اے اللہ اس ملک کو اجاڑنے والوں کی نسلیں اجاڑ دو"۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

چمن معمور ہوگانغمہ توحید سے۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat