Ghairat Hai Bari Cheez Iss Jahan e Tag o Dao Mein
غیرت ہے بڑی چیز اس جہاں تگ و دو میں
یہ 326 قبل مسیح کی بات ہے جب سکندرِ اعظم پوری دنیا کو روندتا ہوا اٹک تک جا پہنچا۔ اٹک سے پہلے سکندر اعظم نے ٹیکسلا کے مقام پر راجہ پورس کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا لیکن اٹک کے مقام پر ان کے ساتھ ایک عجیب کھیل ہوا۔ تاریخ لکھتی ہے کہ جب سکندر اعظم نے پختونوں کی سر زمین پر قدم رکھا تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ سکندر اعظم جو پوری سلطنتوں کو چند دنوں میں نیست و نابود کرتا تھا اس مقام پر انہیں چند مہینے لگ گئے۔
لیکن غیور پختونوں نے انہیں مضافات سے آگے جانے نہ دیا۔ اس جنگ کی کشمکش کے دوران سکندر نے اپنے والدہ کو اس صورتحال کے بارے میں خط کے ذریعے آگاہ کیا اور وجہ پوچھی۔ والدہ نے مشورہ دیا "اس علاقے کی مختلف جگہوں سے پانچ، چھ آدمی اٹھا لو اور اس کو چند سکوں کا لالچ دے کر جاسوس کے طور پر واپس اپنی جگہ پر بھیج دو۔ سکندر اعظم نے ایسا ہی کیا اور اس نے ان آدمیوں کو اکیلے اکیلے پنجرے میں بند کر دیا اور خود ان سے باری باری ایک ہی سوال دہرایا کہ آپ کے علاقے کا خان کون ہے؟
سب کا ایک ہی جواب تھا کہ میں اپنے علاقے کا خان ہوں حالانکہ وہ سب کے سب عام آدمی تھے۔ اس صورت حال کا نقشہ سکندر اعظم نے واپس اپنی والدہ کو خط کی صورت میں پیش کیا ان کی والدہ کو جب خط موصول ہوا اور اس نےجب پڑھا تو وہ چونک اٹھی۔ سکندر کی والدہ نے اس کو یہ الفاظ لکھے "سکندر بیٹا میں نے پوری یونان میں ایک ہی سکندر اعظم جنا ہے اور اس قوم کی ہر ماں نے سکندر جنا ہے میں آپ کو اس علاقے سے جلد از جلد نکلنے کا مشورہ دیتی ہوں۔
دوسری کہانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے بیس ہزار فوجی جو کہ ہر طرح کے توپ خانوں، بندوقوں سے لیس نوجوان افغانستان پر حملہ آور ہوئے یہ اپریل 1842 کی بات ہے اس سے پہلے کمپنی کے صرف دس ہزار فوجیوں کے ذریعے پورے ہندوستان کو روند ڈالا تھا۔ اس وقت افغانستان میں امیر عبد الرحمٰن کی حکومت تھی جب انگریز فوج کا سامنا سر بکف افغانستان ہوا تو افغانوں نے انگریز فوج کے بیس ہزار سپاہیوں کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹ دیا۔
اور صرف ایک انگریز طبیب اور دوسرا ایک ہندو پنڈت لال کشمیری کو زندہ چھوڑا اور ایک مراسلہ تھما کر یہ کہا اگر دوبارہ اس سر زمین کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو پھر ہندوستان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 150 سال تک ہندوستان پر حکومت کر کے کبھی پڑوسی ملک افغانستان کی طرف نہیں دیکھا اور بعد میں انیس سو بیانوے میں (ڈیورنڈ لائن پاکٹ) پر مشترکہ دستخط کر ڈالے۔
اقبال نے کہا تھا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
بندہ صحرائی پا مرد کوہستانی۔
تیسری کہانی ایک روسی ریچھ کی ہے جس کو اس زمانے میں یو ایس ایس آر کہتے تھے۔ روسی ریچھ راتوں رات افغانوں پر حملہ آور ہوا اس وقت افغانستان میں حافظ امین اللہ کی حکومت تھی۔ روسی ریچھ کے سامنے لیٹ گئی لیکن غیور پٹھانوں نے تاریخ دہراتے ہوئے ہمیشہ کی طرح سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی جو کہ ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔
ان مسلح افغانوں کو افغان طالبان کا نام دیا گیا۔ اس مسلح تحریک میں پوری دنیا کے مسلمان شریک ہوئے اور اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں بالآخر 15 فروری کو آخری روسی سپاہی جو ایک جنرل تا دریائے اموں کو عبور کرتے ہوئے پیچھے مڑ کے دیکھا اور تاریخی الفاظ کہے "ہم دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے"۔ روس اس حد تک کمزور ہو چکا تھا کہ انیس سو اکانوے میں بغیر ایک گولی چلے پندرہ ریاستوں نے یو ایس ایس آر سے آزادی کا اعلان کر دیا۔
چوتھی کہانی امریکہ بہادر کی ہے۔
جس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا بہانہ بنا کر اور اسلامی افغانستان میں اسلامی شریعت نظام پر بشمول 30 ناٹو کے ممالک حملہ آور ہوئے، افغانوں کا ایک ہی قصور تھا وہ اپنی سر زمین پر اپنے اللہ کے نظام کو نافذ کر چکے تھے اس کے مطابق اپنی 24 گھنٹے زندگی گزار رہے تھے لیکن اللہ نے افغانوں کو عمر ثالث مولانا عمر دے چکے تھے جس کے اعصاب اتنے مضبوط اور طاقتور تھے کہ وہ اپنی طاقت سے ہزار گنا طاقتور دشمن سے اللہ کے توکل سے ٹکر لینے کے لیے تیار تھے۔ مجھے وائس آف امریکا کی وہ بارہ منٹ کی انٹرویو جو کہ چھبیس ستمبر کو لی گئی تھی رولا دیتی ہے۔ اس انٹرویو نے باطل کے ایوانوں کو ہلا دیا تھا۔
انٹرویو کا پہلا سوال:
کیا آپ کو صرف ایک شخص کی بنا پر اسامہ کے لیے پوری افغانستان کو جنگ میں کود دیں گے؟
جواب: دیکھیں ہمارے دین اور ہمارے پختون روایات کبھی اپنے مہمان کو دشمن کے حوالے نہیں کرتے ورنہ ہمیں تا حیات اسلام اور نہ روایات معاف کرے گی۔
دوسرا سوال: بش کہتا ہے میں ان پر اپنے زمین تنگ کر دوں گا؟
جواب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری زمین بڑی وسیع ہے جہاں تم چاہو وہاں آباد ہو جاؤ، اب میں اللہ کو مانو یا پھر بش کی۔
تیسرا سوال: بش کہتا ہے میں افغانوں کو مٹی میں ملا دوں گا۔
جواب: اب ملا عمر مسکراۓ اور تاریخی الفاظ کہے جو چودہ سال پہلے صحابہ کی یاد تازہ کراتے ہیں۔
ملا عمر مسکرائے وہ ایک عام سی چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ملا عمر نے کہا دیکھو ہمارا ایمان ہے کہ ہم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ہمارے آباؤ اجداد انہیں مٹی کے گھروں میں رہتے تھے اور ہم بھی انہیں مٹی کے گھر میں رہتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے واپس اسی مٹی میں جانا ہے اور مسکرائے تو ہمیں مٹی سے کیا ڈرنا۔
سوال کے اس جواب میں انٹرویو لینے والا چونک اٹھا اور بارہ منٹ کے انٹرویو نے افغانوں کو پوری دنیا کے خلاف بشمول (پاکستان) جنگ کا طبل بجا دیا اور بالآخر 20 سالوں کی خونی جدوجہد کے بعد امریکا بہادر پاؤں پکڑتے ہوئے اس کی سر زمین سے زخم چاٹتے ہوئے بھاگ گیا اور بیس سال بعد وہی اسلامی شریعت نظام کو نافذ عمل کر دیا۔
آج ہمارا ملک جو پچھتر سال کا ہو چکا ہے لیکن ان کے حکمران اور فوجی قیادت صرف ایک امریکہ ساہفر کے ذریعے سارے کے سارے امریکی بت کے سامنے سر بسجود ہو گئے یہ ہماری غیرت اور ایمان ہے۔ ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے پیسے قرض لیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ امارت اسلامی سے کچھ غیرت ادھار لے لو پھر سود سمیت وآپس کر دیں گے۔ کاش ہمارےجمہوری حکمران ایسا کرتے۔
غیرت ہے بڑی چیز اس جہاں تگ و دو میں
پہناتی ہے درویشوں کو تاج سر دارا۔