Banda e Sehrai Ya Mard e Kohistani (2)
بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی(2)
9 اکتوبر 2001 کا ڈرامہ پوری دنیانے نیوز چینلوں پر براہ راست دیکھا۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان کو دھمکی دی کہ اگر ان کو ہمارے حوالے نہیں کیا تو ہم افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینگے۔
ملا عمر نے ردعمل دیا اور کہا پہلے توحملہ آوروں میں ایک افغانی بھی ارادی اور غیر ارادی طور پر شامل نہیں اور دوسرا اسامہ کے خلاف ٹھوس ثبوت لا کر ہمارے ساتھ گفت و شنید کرے اگر وہ ملوث ہوا، تو ہم آپ کے حوالے کر دیں گے۔
یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت چلا رہا تھا انہوں نے امارت اسلامی افغانستان کے تمام مطالبات رد کئیے۔ پاکستان اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر ہمارا ساتھ نہیں دو گے ہمارے دشمن تصور کیے جاؤ گے۔ یعنی امریکہ بہادر نے "غیر جانبداری" کا آپشن مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔
یہ پاکستان کے لیے امتحان کا لمحہ تھاایک اسلامی برادر ملک یعنی نبی ﷺ کی حدیث کے مطابق "مسلمان کا جسم جسد واحد کی طرح ہے" کا ساتھ دیتا ہے یا امریکہ بہادر کے ٹیکنالوجی کے سامنے اور کی طرح سر بسجود ہوتا۔ لیکن ہوا وہی جس کا ڈر تھا، اس وقت کے CIA DIRECTOR جارج جے ٹینٹ اپنی کتاب "At THE CENTER OF THE STORM" میں لکھتا ہے۔
صبح سات بجے ڈائریکٹر پینٹاگون چیف اور صدر کا روزانہ ایک میٹنگ ہوتی ہیں۔ ایک دن پہلے ہم نے مشرف کو سات پوا نٹس بھیجے تھے جو درج ذیل ہیں۔
القاعدہ کو بارڈر پر رکھنا، امریکہ کو سٹریٹیجی اور نیوی فراہم کرنا، انٹیلی جنٹس تعاون، حکومتی سطح پر دہشت گردی کی مزاحمت کرنا، طالبان کی سپلائی اور بھرتی روکنا، طالبان حکومت سے تعلقات منقطع کرنا اور اسامہ کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دینا تھا۔
ہم نے آپس میں تبادلہ خیال کیا تھا کہ اگر ان میں مشرف صرف تین یا چار مان لیں اور بدلےمیں جو بھی چیز مانگ لیں ہم دینے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ پھر ہم افغانستان کا اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں لیکن اگلے دن صبح سات بجے میٹنگ ہم یہ دیکھ کر حیران ھو گئے کہ مشرف نے ساتھ میں سات پوائنٹس بغیر کچھ ڈیمانڈ کے مان لیے تھے اور ہماری خوشی دیدنی تھی۔
پھر مشرف نےطالبان کے ساتھ وہ کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا طالبان کی آدھی لیڈرشپ پاکستان میں ہی گرفتار ہوگئی اور پاکستان نے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتار کیا ہوا سفیر ملا عبدالسلام ضعیف امریکہ کے حوالے کیا۔
2013 میں رہائی کے بعد وہ اپنی کتاب صفحہ نمبر 35 "گوانتاناموبے کی کہانی ملا ضعیف کی زبانی" کو پڑھتے ہوئے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے "خداحافظ کے الفاظ سننے کے بعد میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے ریچھوں کی طرح مجھ پر حملہ آور ہو گئے اور مجھ پر لاتوں گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے میرے کپڑے تک پھاڑ دیے گئے امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا اور بے لباس کر دیا۔ پاکستانی فوجی قطار بنائے کھڑے تھے یہ تماشا دیکھتے رہے اور ان کی زبان پر تالے لگے ہوئے تھے۔ میں کوئی قاتل، چور، ڈاکو یا قانون کا مجرم نہیں تھا بلکہ ایک مسلمان ملک کا باقاعدہ سفیر تھا "۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی آدھی دنیا ایک طرف آدھی دنیا دوسری طرف تھی۔ یعنی دنیا جرمنی، خلافت عثمانیہ، ہنگری ایک طرف اور دوسری طرف فرانس، برطانیہ، جاپان، روس اور امریکا دوسری طرف تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں آدھی دنیا یعنی جرمنی، اٹلی اور جاپان اور دوسری طرف فرانس، یوکے، روس اور کچھ حد تک چین بھی شامل تھا آپس میں گتھم گتھا تھے دونوں جگہوں میں طاقت کا توازن برقرار تھا لیکن یہاں تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے 56 ممالک اور افغانستان کے پڑوس میں واقع ان کے دیرینہ ساتھی پاکستان بھی ٹیکنالوجی کے سامنے سجدہ ریز ہو چکا تھا۔
لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ 60 ہزار سرفروش امریکی حملے کا تاب نہ لاتے ہوئے تتر بتر ہوگئے اعلیٰ قیادت کی طرف سے تمام مجاہدین کو انفرادی طور پر محفوظ ہونے کی اطلاع دیں گی اور جس کا جدھر سینگ سمایا وہاں محفوظ ہوگیا۔ لیکن کچھ سالوں کے بعد وہ دوبارہ کوئٹہ اور میرانشاہ شوری کی سرپرستی میں دوبارہ وہ سرفروش منظم ہونا شروع ہو گئے اور رفتہ رفتہ امریکا کے خلاف مزاحمت شروع کر دی اور جہاد کو ایک نہ روح پھونکی گئی۔
2008 کے بعد طالبان نے کافی علاقے اپنے اثررسوخ میں لے چکے تھے 2014 میں اوباما انتظامیہ کا افغانستان سے انخلاء کا اعلان کرتے ہی پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے جنرل راحیل کے آنے بعد طالبان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کافی برف پگھل چکی تھی۔
2014 سے 2019 تک اسٹبلشمنٹ نے امارت اسلامی افغانستان کا مالی، جانی اور عسکری لحاظ سے ہر قسم کا ساتھ دے کر امریکہ کو پیغام دیا کہ اب آپ کے اور انڈین لابی کے دن گنے جاچکے ہیں اور پھر دنیا نے ان سرفروشوں کو 2019 میں دوحہ میں امریکی وفد کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا کہ ہمیں دبایا تو جاسکتے ہیں مگر مٹایا نہیں۔ دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر 15 اگست 2019 کو افغانستان کے عوام نے یوم نجات منایا اور مزاحمت کی سرزمین افغانستان پر ایک بار پھر امارت اسلامی افغانستان نے اسلامی شریعتی نظام رائج کرنے کے لیے عہد کر بیٹھی۔
کنٹرول سنبھالتے ہی اغیار کے رائج کردہ نظام کو جڑ سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اس دفعہ کی قیادت اب 1996 قیادت سے زیادہ بالغل نظر اور وسیع الفراست ہے۔
1942 میں برطانیہ، 1989 میں روسی ریچھ اور 2021 میں امریکی بہادر کی ذلت آمیز شکست یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان غیور، سخت جان اور جنگجووں کا مسکن ہے جنہوں نے کبھی اغیار کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ افغانوں نے ذندگی کے آخری سانس اور جسم کے آخری قطرے تک مقابلہ کیا۔ اس لئے اقبال نے عربوں اور افغانوں کا ذکر کرتے ہوے کہا تھا۔
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی