1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Aik Muashi Gharat Gar Ki Kahani

Aik Muashi Gharat Gar Ki Kahani

ایک معاشی غارت گر کی کہانی

جان پارکنز 28 جنوری 1945 کو نیو ہیشمپائر کے قصبے ہین اوور میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور والدہ مڈل برے یونیورسٹی سے گریجویٹ تھے۔ جان نے ابتدائی تعلیم اپنے قصبے کے ٹیلٹن سکول سے حاصل کی۔ بعد اذاں اپنے والد کے پسند پر مڈل برے سے گریجویشن کے لئے چلے گئے۔ مڈل برے میں اسے ایک ایرانی جنرل کے بیٹے جس کا نام فرہاد تھا سے دوستی ہو گئی۔

فرہاد ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا تھا اور پرلے درجے کا عیاش تھا اسی عیاشی کی وجہ سے ایک دن بار میں جھگڑے کی وجہ سے اسے اور فرہاد دونوں کو مڈل برے سے نکال دیا۔ ورماؤنٹ سے وہ بوسٹن چلے گئے جہاں جان نے بوسٹن یونیورسٹی کے کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا۔ مڈل برے میں اس کی ملاقات ایک خوبرو لڑکی سے ہوئی۔ جو بعد اذاں عشق اور معشوقی تک چلی گئی اس لڑکی کا نام این تھا۔

این کے والد جو ایک نہایت قابل انجینئر تھے انہوں نے میزائیل نیویگیشن نظام کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کی بدولت اسے بحریہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز کیا گیا تھا۔ این کے والد کا ایک بہترین دوست جس کا نام فرینک تھا۔ وہ National Security Agancy) NSA) میں ایک اعلیٰ عہدے پر تعینات تھا۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جان نے این سے شادی کر لی اور ایک دن این نے جان کو اپنے والد کے دوست فرینک سے ملاقات کراوئی۔

ملاقات کے دوران فرینک جان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو جانچ چکا تھا۔ اور اسے NSA میں ملازمت دلوائی۔ جان کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جہاں سے جان کو ایک جاسوس سے ترقی دے کر ایک معاشی غارت گر (EHM) بنایا جا رہا تھا۔ جان کو اپنے غیر معمولی صلاحیتوں کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اور انہوں نے 1971 میں این ایس اے کو چھوڑ کر MAIN جو دنیا کی چند بڑی کارپوریشنوں میں ایک تھی، بطور بزنس ایڈوائزر جائن کر لیا۔

یہاں سے انہوں نے جاسوس سے ترقی کر کے معاشی غارت گر کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جان پارکنز نے اپنے ضمیر کی للکار پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں مختلف کارپوریشنوں، اسلحہ ساز فیکٹریوں اور جاسوسی اداروں کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہاں سے جان کو جان سے قتل کی دھمکیاں ملنے لگی۔ لیکن جان نے ان سب کی پرواہ کیے بغیر 2004 میں ان تمام رازوں سے ایک ایک کر کے پردہ اٹھا لیا اور کارپوریشنوں کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔

اس کتاب کا نام "THE CONFESSION OF AN ECONOMIC HITMAN"۔ اس کتاب میں ایسے نظام کی اندرونی کہانی بیان کی گئی ہے جس نے عالمگیریت (Globalization) کو جنم دیا۔ جو اس کرہ ارض پر اربوں انسانوں کی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ اس نظام کے پھیلاؤ اور استحکام میں جن نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔

حالیہ تاریخ کے ڈرامائی واقعات میں سے قابل ذکر شاہ ایران کے اقتدار کا خاتمہ، پانامہ کے صدر عمر ٹور بجوس کی موت، عراق پر امریکی حملوں، پاکستان کے بھٹو کا عدالتی اور ضیاءالحق کا پراسرار قتل، مشرقی وسطیٰ کے قد آور لیڈروں کے قتل مثلاً عراق کا صدام حسین، سعودی عرب کا شاہ فیصل، لیبیا کا قزافی وغیرہ اور افغانستان میں دہشتگردی کے نام نہاد مسلط امریکی جنگ ان تمام پس پردہ حقائق کا عینی شاہد اور شریک رہا۔

جان واشگاف الفاظ میں بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے اور ان کے ساتھیوں نے جو خود کو معاشی غات گر کہتے ہیں اس خفیہ منصوبے پر عمل درآمد کروانے میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا جس کی بناء پر سعودی عرب کے تیل کی تمام آمدنی کے اربوں ڈالر کیسے امریکی معیشت کا حصہ بن گئے۔ اور اس کے عوض سعودی حکمرانوں کو اپنے ملک پر بغیر کسی روک ٹوک کے بادشاہت کرنے کی ضمانت مل گئی۔

جان نے مزید لکھا ہے کہ کیسے امریکہ بہادر نے سعودی ایران، عراق کویت، پاکستان، ہندوستان اور کئی لا تعداد ایسے جنگیں کروا کر صرف چند اسلحہ ساز فیکٹریوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچایا۔ اور ہم معاشی غارت گر اس میں پیش پیش ہوتے تھے۔ جان نے مزید روشنی ڈالی جان لکھتا ہے کہ معاشی غارت گروں نے کیسے غریب اور تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کے حکمرانوں کو بیرونی ملک جائیداد بنانے، منی لانڈرنگ، رشوت خوری اور کک بیکس کے راستے دکھائے اور پھر اسی حکمرانوں کو دھوکہ دونس، بلیک میلنگ اور لالچ دے کر کیسے غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں کے لئے بڑی بڑی شرائطوں اور سود سے لبریز قرضے منظور کروائے۔

لیکن ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ اسی منصوبوں کے ٹھیکے انہی قرض دینے والی فرموں، کارپوریشنوں، تعمیراتی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دیے جاتے تھے۔ انہی کا پیسہ پھر انہی کی اکاؤنٹوں میں۔ یہ غریب اور پسماندہ ملک قرض تو دور سود میں دبتے چلے جاتے ہیں ان نام نہاد ترقیاتی منصوبوں میں خاص طور پر موٹر ویز جن کے دونوں اطراف ننگ، بھوک، افلاس، جہالت، غیر خواندگی ہوتی ہے۔

لیکن یہ بے ضمیر حکمران صرف اور صرف اپنے کک بیکس اور غیر ملکی آقاؤں کو رام کرتے ہیں ان نام و نہاد ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے وقت یہ حکمران خوشی سے پھولے نہیں سما پاتے۔ اور یہ جاہل اور ننگے عوام اپنے لیڈروں کے ان کرتوتوں پر اچھلتے اور کودتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عوام سالوں تک اس پرکشش اور پر آسائش سفر سے محروم رہتے ہیں۔

اختتامیہ میں جان لکھتا ہے جب ہم معاشی غارت گر ناکام ہو جاتے ہیں تو ایک منحوس ترین مخلوق نمودار ہوتی ہیں۔ جسے ہم لوگ گیدڑوں (JACKAL'S) کا نام دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے طور طریقے قدیم سامراجیوں والے ہیں یہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں البتہ ادر ادھر سائیوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ موقعے کے منتظر یہ گیدڑ جب نمودار ہوتے ہیں یا تو وہ ریاستوں کے سربراہوں کا تختہ الٹ جاتا ہیں یا وہ خونی حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگر اتفاقاً یہ گیدڑ بھی ناکام ہو جائیں پھر ننگے استعمار کا پرانا کردار سامنے آتا ہے۔ پھر نوجوان امریکیوں کو مرنے اور مارنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور مختلف پرائیوٹ کمپنیوں کو کنٹریکٹ دیے جاتے ہیں جیسا کہ حالیہ افغان جنگ کے دوران سب سے بڑا کنٹریکٹ بلیک واٹر بدنام زمانہ کمپنی کو دیا گیا تھا۔ جس کے ایک جاسوس نے 2012 میں پاکستان کے سیکریٹ ایجنسی ISI کے دو جاسوسں کو لاہور کے بڑی شاہراہ پہ سر عام گولیاں ماری تھیں۔

اس جاسوس کا نام ریمینڈ ڈیویس تھا۔ بعد میں اس نے The Contractor کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے اس ریمین ڈیوس نامی جاسوس کو کس طرح پاکستان کے بے ضمیر حکمرانوں نے بغیر کسی قانونی کارروائی کے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ اس معاشی غارت گر کی کہانی کو بڑی باریک بینی سے مطالعہ کے بعد میں اپنے جمہوری حکمرانوں، ڈیکٹیٹروں اور اشرفیہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا خداداد پاکستان کو ان موٹرویز، میٹروز اور اورینج ٹرینوں اور دیگر ایسی ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت تھی؟

اور اگر ضرورت تھی تو کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا ہے؟ میرے خیال میں ان منصوبوں کے دونوں اطراف آباد ننگے، بھوک، جہالت اور افلاس کے مارے ان لوگوں کو صرف اور صرف بدن کے لئے کپڑا، رہنے کے لیے چھت اور جسم کے لئے خوراک کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن کئی دہائیوں سے بند پڑی ہے لیکن افسوس پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا اتفاق فاؤنڈری نہایت منافع بخش ادارہ ہے۔

اسی طرح پی آئی اے کئی دہائیوں سے خسارے میں جا رہا ہے۔ 2017 سے پرائیوٹائز کیا جا رہا تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ائیر بلو دنیا کے نہایت منافع بخش ائیر لائنز میں شمار کیا جاتا رہا۔ ان تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خداداد پاکستان کو جو لوگ اس خطرناک اور گندے کھیل میں پھنسا چکے ہیں اس میں صرف سیاسی اشرفیہ نہیں بلکہ ہماری ملٹری بیورو کریسی بھی برابر کی شریک ہیں۔

میری تمام قارئین سے اپیل ہے کہ جان پارکنز کی اس کہانی کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ کس نے کتنا حصہ بقدر جسہ اس ملک کو اس نازک صورتحال تک پہنچایا ہے۔

Check Also

Mulazmat Pesha Khawateen Aur Mardana Chauvinism

By Najeeb ur Rehman