Basiyan e Gilgit Baltistan Ki Zinda Dili
باسیانِ گلگت بلتستان کی زندہ دلی
پچھلے روز مجھے زُلف تراش کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے مجھ سے میرے علاقے کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ میں نے جیسے ہی اسمِ گلگت بلتستان کو وِردِ زباں کیا تو کہنے لگے ارے واہ آپ تو بہت خوبصورت علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں جواباً مسکرایا اور ہاں میں سر ہلایا۔ وہ ایک جہاندیدہ انسان لگ رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں نے گلگت میں کافی وقت گزارا ہے ماشا اللّٰه وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز اور حسن ِ اخلاق کے مالک ہیں۔
یہ سن کر میری مسکراہٹوں میں قدرے اضافہ ہوتا گیا مگر وہاں کے باسیوں کی تعریف کرتے کرتے انہوں نےعرض فرمایا کہ وہاں کے لوگ زندہ دل ہیں تو میں نے ان کے سامنے فقط جی ہاں بولا لیکن یہ بات میرے ضمیر کو کھٹکنے لگی کہ ہم زندہ دل کیسے ہیں؟ ہم تو اپنے حقوق تک کیلئے خود کھڑے نہیں ہوئے اور 74 سال مکمل ہونے کے بعد بھی ہم متنازعہ ہیں اور کسی معجزے کے منتظر رہے ہیں کہ جس کی بدولت ہمیں پاکستان کے آئینی شہریت کا حق مل جائے۔
کافی غور و فکر کے بعد بندہ حقیر کو جن باتوں کی سمجھ آئی وہ پیشِ خدمت ہیں۔
ہم اتنے زندہ دل ہیں کہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے مگر ہم شکایت نہیں کرتے۔
ہم اتنے زندہ دل ہیں کہ پاکستان کے مختلف دور دراز علاقوں سے لوگ آکر ہمارے خطے سے معدنیات نکال کر لے جارہے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں اور اتنے سخی و زندہ دل ہیں کہ ہمیں معدنیات تک رسائی کا حق نہ ہونے پر بھی نالاں نہیں۔
ہماری زندہ دلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھے جانے پر بھی فکرمند نہیں، اپنے بچوں کو دور دراز علاقوں میں بھیج دیتے ہیں اور بھاری بھرکم فیس ادا کرتے ہیں مگر حکومتِ وقت سے گِلہ نہیں کرتے۔ ہمیں یہ منظور ہے کہ ہمارا اپنا بیٹا سال میں ایک بار گھر آئے مگر یہ گنوارا نہیں کہ سیاستدانوں کے پاس جاکے سکولز اور کالجز کے مطالبات کریں۔
ہماری زندہ دلی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہم دریا سندھ اور مختلف نہروں کے ذریعے پاکستان کے باقی صوبوں کو پانی فراہم کرتے ہیں مگر اپنے علاقے میں پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں اور ہمیں اس بات کی بالکل بھی فکر نہیں ہے۔
ہمیں اب اپنی زندہ دلی کو کم کرنا ہوگا۔ ہمیں فقط لوگوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا ہوگا اور اقدام کرنے ہونگے۔
سیاستدانوں کو راضی کرنے کے بجائے ہمیں ان سے کام لینا ہوگا۔
آپس کی رنجشوں کو ختم کرکے اجتماعی حقوق کے حصول کیلیے کوشاں ہونا ہوگا۔ ہم ابھی بھی ملک کے باقی حصوں سے سو سال پیچھے ہیں یہ اس بات سے ظاہر ہے کہ تقریباً بیس لاکھ کی آبادی والے علاقے میں صرف دو جامعات ہیں۔ یہ بات قابل غور بھی ہے اور شرمندگی کا باعث بھی۔
ہم اگر اپنی تقدیر بدلنے کیلئے کوشاں نہ ہوئے تو ہمیشہ کیلئے پست اور رسوا ہو جائنگے۔
ہمیں کسی مسیحا کا انتظار کئے بغیر اپنی تقدیر خود بدلنی ہوگی۔
علامہ اقبال (ر) نے شاید یہ شعر سر زمینِ گلگت بلتستان کے باسیوں کیلئے خاص لکھا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔