Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Salakhon Ke Peeche Roshni

Salakhon Ke Peeche Roshni

سلاخوں کے پیچھے روشنی

صبح کاذب کا وقت، جاڑے کا موسم۔ نوشہرو فِيروز میں مرغابیوں کے شکار میں مصروف ایک ٹیم کے ساتھ، آنکھوں میں چمک لیے 10 سال کی ایک لڑکی بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ موجود تھی۔ ایف آئی اے میں جاب کرنے والے اس شخص نے بچپن میں ہی اپنی بیٹی کے اندر چھپے ہوئے گوہر نایاب کو جان لیا تھا۔ وہ لڑکی نشانہ باندھتی ہے ٹریگر دباتی ہے اور رائفل کے ایک جھٹکے سے اس کی طرف واپس آتی ہے۔ یادوں کے یہ انمول لمحات شیئر کرتے ہوئے سنٹرل جیل کراچی کی سینیئر ڈاکٹر حمیرا کی آنکھوں میں نمی آگئی۔

ڈاکٹر حمیرا نے حیدرآباد جیل، کراچی وومین جیل، بچہ جیل میں اپنی خدمات پیش کیں اور آج کل سنٹرل جیل کراچی کی خواتین سیکشن میں وہ اکلوتی لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ سارا دن قیدی خواتین کے ساتھ گزارنا اور پھر اپنے گھر بحیثیت ماں اور بیٹی، کوالٹی ٹائم دینا۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے فولادی اعصاب چاہیں۔

ڈاکٹر حمیرا کی والدہ اے ایس ایف میں انسپکٹر تھیں۔ والدین کا اس شعبے سے تعلق یقیناً ان کے لیے ایک موٹیویٹنگ فیکٹر بنا۔ ان کے ساتھ جیل کی ڈیوٹی جوائن کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز تبادلہ کروا کر دوسرے شعبوں میں چلی گئیں لیکن وہ پچھلے 15 سال سے اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہی ہیں۔

قیدی عورتوں کی نفسیات کے بارے میں دلچسپ باتیں بتائیں کہیں وقتی غصّہ، لالچ، بےصبری، شارٹ کٹ کی تلاش، برے لوگوں کی صحبت، غرض مختلف عوامل ان کے جرم کرنے کے پیچھے موجود تھے۔

ڈاکٹر حمیرا نے ہمدردی اور کوالٹی لسننگ کی بنیاد پر وہاں موجود خواتین کا اعتماد جیتا اور وہ اپنے دل کی باتیں بھی ان سے شیئر کر لیتی ہیں۔ بقول وصی شاہ

کسی کے درد سہلانا

کسی روتے ہوئے کے جی کو بہلانا

محبت ہے، عبادت ہے

میٹھا بول، میٹھی بات، میٹھے لفظ

سب کیا ہے

محبت ہے، عبادت ہے، محبت ہے، عبادت ہے

ڈاکٹر حمیرا نوشہرو فِيروز میں واقع اپنے گوٹھ سے وہ پہلی خاتون تھیں جن کا ایڈمیشن لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں ہوا۔ روایتی خاندان میں اپنی لڑکی کو مخلوط تعلیمی ادارے میں بھیجنا والدین کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس دوران ان کی والدہ کینسر کے مرض کا بہادری سے مقابلہ کر رہی تھیں اور سخت تکلیف کے باوجود اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر مختلف ایگزامز میں اپنی شمولیت کو یقینی بناتی تھیں۔

اپنی والدہ کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں چمک اور طمانیت نظر آئی۔ میں نے پوچھا اپنی والدہ سے آپ نے کیا سیکھا؟ جواب دیا میرا ایڈمیشن یونیورسٹی میں ہوگیا اور یہ 24 سال پرانی بات ہے تو میری والدہ نے کہا آپ یونیورسٹی لائف کو انجوائے کرو، فیشن بھی کرو لیکن ہر چیز ایک لیمٹ کے اندر ہو۔

بے نظیر بھٹو کی مثال دیتے ہوئے ان کی والدہ نے کہا کہ وزیراعظم ہو کر بھی، ان کے سر پر آپ ہمیشہ دوپٹہ دیکھتی ہو۔ یہی اعلیٰ اقدار ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

خوشگوار شام میں ان کے ساتھ چائے پیتے ہوئے ان کے AURA کی پاور فل انرجی میں محسوس کر رہا تھا اور میں نے ریڈ کیا کہ سرخ اور سبز رنگ اس انرجی کے اندر ڈومیننٹ تھا۔

محترم دوستو! سرخ رنگ آپ کے کام کرنے کی اہلیت اور بڑے ویژن کو ظاہر کرتا ہے اور سبز رنگ محبت کا رنگ ہے۔ اس کی طاقت کا بڑھاؤ آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ ہر رشتے میں محبت دے بھی سکیں اور محسوس بھی کر سکیں۔ قیدی عورتوں کا ان پر اعتماد اور دوستی اس انرجی کی بنیاد پر ہے۔ گویا وہ کہہ رہی ہوں۔۔

اسے کہو کبھی آئے دل کی دھرتی پہ
اسے کہو یہی اس کا آستانہ ہے

(ثوبیہ خان نیازی)

قیدی خواتین کے شب و روز کے بارے میں پوچھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ ان کو تین وقت کا بہترین کھانا گورنمنٹ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس کے علاوہ کچن بھی موجود ہے جہاں وہ اپنی پسند کی کوئی چیز بنا سکتی ہیں۔ انہیں قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے سلائی، کڑھائی سکھائی جاتی ہے۔ کمپیوٹر کلاسز کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ زیادہ تر قیدی خواتین نماز پڑھتی ہیں اور رمضان کے روزے رکھتی ہیں۔ مزید بتایا کہ صفائی کا عمدہ انتظام ہے۔ واش روم اور بیرکس صاف ستھرے ہیں اور مختلف این جی اوز بھی ان کے لیے مختلف سہولیات مہیا کرتی رہتی ہیں۔ سچی بات ہے یہ سب کچھ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی یقیناً کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں پر ہم پاکستانی آگے بڑھ رہے ہیں۔

قیدی خواتین میں آرٹسٹک صلاحیتیں رکھنے والی بھی موجود ہیں آرٹس کونسل میں ان خواتین کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش ہوئی اور بہت سے پینٹنگز ہزاروں روپے میں فروخت ہوئیں۔ یہاں پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں میرا قلم بے بس ہوگیا۔

ڈاکٹر حمیرا نے کمیشن کے امتحان میں حصہ لیا اور سینکڑوں خواتین میں سے صرف تین کو ہوم ڈیپارٹمنٹ کے لیے منتخب کیا گیا اور پھر ہر روز ایک نیا چیلنج۔ ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ "اگر کوئی شخص یہ فیصلہ کرے کہ اسے کیسی زندگی گزارنی ہے تو کیا کوئی اس سے روک سکتا ہے"۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کمیشن کے ایگزامز کافی سالوں سے نہیں ہو رہے اس لیے جیل میں نئی لیڈی ڈاکٹرز نہیں آرہیں۔

انہوں نے بتایا کہ قیدی خواتین میں سے زیادہ تر منشیات اور چوری کے جرم میں یہاں پر قید ہیں ایسی بھی خواتین ہیں جن کا بار بار آنا جانا یہاں پر لگا رہتا ہے قانون کی کمزوریوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ جیل سے باہر نکلتی ہیں اور دوبارہ وہی جرم کرتی ہیں کچھ ایسی قیدیوں کے بارے میں بتایا جو 10 سے زیادہ بار اس جیل میں آئیں۔

ایک نئی بات جو اس ملاقات میں میرے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ خواتین کو پاکستان میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ قانون کی اس نرمی کا بھی عادی مجرمہ فائدہ اُٹھاتی ہیں۔

ڈاکٹر حمیرا کا متبادل اس شعبے میں نظر نہیں آتا۔ جاب چیلنجنگ ہے لیکن خدمت کا سکوپ بہت وسیع ہے۔ کمیشن ایگزامز کا باقاعدگی سے انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ مستقل مزاجی ان کی کامیابی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا

پسینے کی سیاہی سے جو لکھتے ہیں اپنے ارادوں کو
ان کے مقدر کے صفحے کبھی کورے نہیں ہوتے

ڈاکٹر حمیرا نے کووڈ کے سخت دنوں میں بھی اپنی ڈیوٹی بخوبی نبھائی اور خود ان کو دو دفعہ کورونا کا مرض ہوا لیکن کمٹمنٹ میں فرق نہیں آیا۔

خود سے ہی جیتنے کی ضد ہے
مجھے خود کو ہی ہرانا ہے

ڈاکٹر صاحبہ ایک سنگل پیرنٹ ہیں اور ہر روز جیل جیسی مشکل جگہ پر آکر پرفارم کرنے کے لیے فولادی اعصاب چاہیئں خود میں نے زندگی میں پہلی بار جیل کا وزٹ کیا اور اس دورے کے بعد میری انرجی میں کمی واقع ہوگئی تھی۔

ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی دادی کو یاد کیا جو سوات کی پٹھان فیملی سے تعلق رکھتی تھیں کہتی ہیں برداشت اور دور اندیشی میں نے اپنی دادی سے سیکھی اپنی نانی کے بارے میں آنکھوں میں ہلکی سی نمی کے ساتھ بتایا کہ وہ وائٹ کلر کا ملتانی دوپٹہ پہنتی تھیں وسیع القلب اور مہمان نواز۔

کامیابی کا سادہ سا فارمولا بتایا کہ پانچ سال تک جم کے محنت کر لی جائے اور پھر کامیابی آپ کی منتظر ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ اور پولیس افسران کی ٹیم کے ساتھ گزارا ہوا وقت اور چائے کی پیالی پر خیالات کا تبادلہ اور پوری ٹیم کا خلوص ہمیشہ میری یادوں میں جگمگاتا رہے گا۔ گویا پوری ٹیم اپنے عمل سے یہ پیغام دے رہی ہو۔

رات پر فتح تو پانا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

(عرفان صدیقی)

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Do, Rotiyon Ki Bhook Ka Qarz

By Mohsin Khalid Mohsin