Pakistan Ki Top Trainer Shireen Naqvi Ke Sath Aik Mulaqat
پاکستان کی ٹاپ ٹرینر شیرین نقوی کے ساتھ ایک ملاقات
پاکستان کی ٹاپ ٹرینر شیرین نقوی ایک متحرک شخصیت گزشتہ دنوں کراچی میں ان کے آفس میں ملاقات ہوئی مہمان نواز پر وقار چہرے پر مسکراہٹ، سٹرانگ انرجی، مضبوط آواز اور عاجزی اللہ تعالی نے گویا خصوصی طور پر ان کو تخلیق کیا۔
پشاور میں پیدا ہوئیں والد محترم عادل خان پشاور یونیورسٹی میں فزیکل ڈائریکٹر تھے اور مختلف رولز میں یہی کام وہ 60 سال تک کرتے رہے ان کی والدہ جرمن تھیں کہنے لگیں ثاقب صاحب ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں برلن جاتے تھے اور بچپن میں ہی پورا یورپ ہم نے گھوم لیا تھا۔
ان کی سوچ میں وسعت اور گہرائی اوائل عمری میں ہی پیدا ہوگئی تھی کالج لائف میں ٹینس اور سویمنگ چیمپین رہیں۔ کلاسک رقص اور تھیٹر بھی کیا اسی لائن میں جاپان میں بھی پرفارم کیا۔
ان کی تربیت بہت مضبوط بنیادوں پر ہوئی گھر میں صفائی کا خیال رکھنا وقت کی پابندی کرنا کمٹمنٹ کو پورا کرنا غلطی ہو جائے تو سوری کہہ کر زندگی کو آ گےبڑھانا اور سچ بولنا۔ ان کے والدین نے انہیں سکھایا کہ پانی، بجلی، کھانا اور وقت کوئی بھی چیز ضائع نہیں کرنی۔
ہماری میٹنگ کے دوران انہوں نے میرے لیے کافی منگوائی بات چیت کے دوران نوٹس بناتے ہوئے میں کافی کے سپ لے رہا تھا باتوں میں مگن ہونے کی وجہ سے گفتگو کے اختتام پر کافی کی آدھی پیالی بچ گئی انہوں نے کہا کہ یہ ضائع نہیں کر سکتے اس لیے اس بچی ہوئی کافی کو میں پی لوں گی میں نے کہا آپ کیوں پییں گی میں خود اس کو ختم کر دیتا ہوں اور پھر میں نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی ایک قیمتی سبق اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔
ویژنری لوگوں سے ملاقات آپ کی زندگی کو 90 ڈگری کے زاویے پر تبدیل کر دیتی ہے۔ شیرین نقوی کو سکول لائف میں ان کی سالگرہ پر ٹول باکس کا تحفہ ملا ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ثاقب صاحب میں ڈرل مشین پیچ کس اور دیگر اوزار آسانی سے استعمال کر لیتی ہوں اپنی گاڑی کا ٹائر خود تبدیل کرتی ہوں شخصیت میں ٹھہراؤ اور مضبوطی میں ان کی والدہ کا خصوصی کردار ہے ان کی جرمن نژاد والدہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پانچ سال کی تھیں۔ جنگ کے دہشت ناک سال ان کی یاداشتوں میں باقی تھے۔
جس پر انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی اپنے والد صاحب سے ڈسپلن اور غیرت سیکھی ان کے والد صاحب کی گائیڈنس سے بہت سے مالیوں کے بچوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ان کے والدین کی مضبوط شخصیت پر امجد اسلام امجد یاد آگئے۔
ہزار طوفان آئے ہزار مشکلیں آئیں
ہم نے تو رکنے کا نہیں سوچا کبھی
ہماری جستجو ہی ہماری پہچان ہے
ہماری کوششیں ہی ہماری داستان ہیں
اپنا فیورٹ سوال کہ ایک اچھا ٹرینر بننے کے لیے کیا کیا جائے کوئی خاص فارمولا۔ جواب دیا زندگی میں رونا دھونا بند کیا جائے اور ایکشن لیا جائے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ بڑے خواب دیکھے جائیں۔
دیکھو خواب پر عمل بھی کرو
یہی ہے زندگی کا اصول
آگے بڑھو، اپنے خوابوں کے ساتھ
آسمان کو چھونا ہے یہی ہے نصب العین
(احمد ندیم قاسمی)
انہوں نے کہا میں ہار نہیں مانتی ڈٹ جاتی ہوں ایک ٹرینر کو حساس ہونا چاہیے اس کے اندر غصہ اور جنون ہو کچھ کر دکھانے کا غصہ کچھ بڑا کرنے کا جنون اور ہائی سیلف اسٹیم۔
شیرین نقوی نے آئی بی اے سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 24 سٹوڈنٹس کی کلاس میں یہ واحد خاتون تھیں گولڈ میڈلسٹ بنیں ان کے شوہر پائلٹ ہیں اور زیادہ تر بیرونی دوروں پر رہتے تھے بچوں کی پرورش اور پروفیشنل ذمہ داریاں، دونوں کام احسن طریقے سے انجام دیے۔
ٹریننگ انڈسٹری کے لوگ ان کو آپا کہتے ہیں اور یہ اس کی حقدار بھی ہیں۔ جیسے بیان کیا پروقار شخصیت اور عاجزی اپنے آفس میں میری آمد پر پارکنگ میں مجھے خود لینے آئیں اور واپسی پر پھر پارکنگ تک میرے ساتھ آئیں ایسے لوگ جن سے مل کر آپ کی عزت میں مزید آضافہ ہوتا ہے۔
آپا نے کراچی میں سکول آف لیڈرشپ کی بنیاد رکھی زندگی میں ہزاروں لوگوں کو ٹرینڈ کیا ایک بیکری بنائی جس میں صرف گونگے لوگ کام کرتے تھے اس کے بعد گونگے لوگوں کے لیے چاٹ شاپ اور درزی کی دکان کی بنیاد ڈالی مشہور ٹرینر کامران رضوی اور اپنی ٹیم کے ساتھ ٹرین دی ٹرینرز کے نام سے مشہور ورکشاپ کرواتی ہیں۔
آپا کے پسندیدہ مصنفین میں کیرن آرمسٹرونگ، ڈینیل گولمین اور جم کولنز شامل ہیں آئن رینڈ کے ناول دی فاؤنٹین ہیڈ کا بھی تذکرہ کیا۔ ان سے مل کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ ارادہ کرے کہ اس نے اپنے خواب پورے کرنے ہیں تو دنیا کا کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا۔
میں نے دیکھا ہے خوابوں کو حقیقت میں
مگر خوابوں کا یہ سفر ابھی جاری ہے
میرے خوابوں کا یہ آسمان
ابھی بھی روشن ستاروں سے بھرا ہے
(احمد فراز)