Mujhe Mehboob Milay To Haal Bahal Ho
مجھے محبوب ملے تو حال بحال ہو
"یہ اس دور کی بات ہے جب پاکستانی فوج شاہراہ ریشم کی تعمیر پر کام کر رہی تھی۔ کام جاں گسل تھا اور جذبہ جوان۔ اس سڑک کی تعمیر میں بے شمارجوانوں کا لہو شامل ہے۔ ایک ٹیم کی قیادت ایک کپتان کر رہا تھا۔ اوپر جلتے توے جیسا سورج اور نیچے سلگتے سنگلاخ پہاڑ۔ ایک روز مشقت سے نڈال اور پیاس سے بےحال ٹیم جب نیم جان ہوگئی اور پینے کا پانی ختم ہوگیا تو پانی کی تلاش میں کپتان چند ایک ساتھیوں کے ہمراہ زیر تعمیر سڑک سے کافی دور چلا گیا۔ وہاں پانی کا ایک ذخیرہ تھا۔ جہاں گردو نواح سے لوگ پانی بھرنے آتے تھے۔ اس ذخیرے کو دیکھ کر کپتان اور ریکی ٹیم خوشی سے سرشار ہو گئے"۔
"اسی مقام پر محبت کی ایک لازوال داستان نے جنم لیا۔ یہ مکمل طور پر سچا واقعہ ہے۔ وہاں قریبی آبادی کی چند لڑکیاں پانی بھرنے آئی ہوئی تھیں۔ کپتان اور اس کے ساتھی ان لڑکیوں کے جانے کے انتظار میں ایک جانب کھڑے ہو گئے۔ جب لڑکیاں لوٹنے لگین تو ایک لڑکی کی نظروں سے کپتان کی نظریں چار ہوئی۔ قدرت کی تمام تر رعنائیاں اس حسن بلاخیز میں مجسم تھیں۔ دمکتے چہرے پر نظر نہ ٹھہرتی تھی اور اس کی جھلملاتی نیلی آنکھوں سے پھوٹتی سحر پھونکتی تھیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور جو ابھی متمول خاندانوں کی آماجگاہ تھا، کا کپتان اس کے دام میں ایسا اسیر ہوا کہ یہ روزانہ وہاں آنے لگا۔ چند روز بعد اس نے بلا تعارف اس لڑکی سے شادی کا ارادہ باندھا اور اپنے انچارج کرنل کو اس فیصلے سے آ گاہ کیا۔
جہاندیدہ کرنل نے اسے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی لاحاصل سعی کی اور بالاخر اس کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا۔
"اب یہاں ایک فلمی موڑ آتا ہے۔ لڑکی کا گاؤں زیر تعمیر مرکزی شاہراہ سے کافی ہٹ کے تھا۔ جب کپتان اور کرنل رشتہ لینے لڑکی کے گھر پہنچے تو اس کے چچا نے ایک شرط رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ مرکزی شاہراہ کو گاؤں سے ملایا جائے تاکہ مریضوں، ضرورت مندوں، اور مسافروں کو آ مد و رفت میں آسانی رہے۔ اب شاہراہ کا بنیادی پلان تبدیل نہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس گاؤں کہ اس کے اس گاؤں کو ایک زیلی سڑک کے ذریعے مرکزی شاہراہ سےملا دیا جاے۔ کپتان کے ساتھیوں نے اسے اپنی بھرپور مدد کا یقین دلایا شام کو جب عملہ اپنے سرکاری کام سے فارغ ہو جاتا تو کپتان کے ساتھی اس زیلی سڑک کی تعمیر میں جت جاتے۔
کپتان کبھی خود اپنے ہاتھوں سے مزدوری کرتا اور کبھی اپنی زیر نگرانی راستہ ہموار کراتا۔۔ یہاں تک کہ کئی ہفتوں کی انتھک محنت کے بعد ذیلی سڑک قابل استعمال حالت میں معرض وجود میں آ گئی۔ اب وعدے کے مطابق کپتان کی اس لڑکی سے شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد کپتان نے اپنی بیوی کو لیا اور لاہور میں اپنے گھر کا رخ کیا۔ گھر پہنچ کر جب اس نے اپنی شادی کی اطلاع اہل خانہ کو دی تو سب سناٹے میں آ گئے۔ اس کے والدین نے اس رشتے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن جب ان کا سامنا دلہن سے ہوا تو اس کے خیرہ کن حسن کی تاب نہ لا کر انہوں نے آمادگی کا اظہار کر دیا۔
"پاکستان ٹائمز " ایوب دور میں انگریزی کا سب سے اہم اور معیاری اخبار مانا جاتا تھا"۔
والدین کو آمادہ کرکے نیا نویلہ شادی شدہ جوڑا ہنی مون کے لیے مری کی جانب روانہ ہوا اور جی ٹی روڈ پر ایک ٹرک سے حادثے میں مارا گیا۔ ان کی محبت، شادی اور المناک موت کی خبر پاکستان ٹائمز نے نمایا سرخی کے ساتھ پہلے صفحے پر شائع کی تھی۔
عشق کی یہ سچی اور نرالی داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ یہ عشق ہی ہے جو انسان سے بڑے بڑے کام کرواتا ہے۔ مشہور صوفی شاہ حسین نے اپنی کتاب عشق نامہ میں اس کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا۔
نی سیو!
مینوں ڈھول ملے تا جا پے
برہوں بلائے گتی تن اندر
میں آ پے ہوئی آ پے
بال پنا میں کھید گوایا
جوبن مان بیاپے
شوہ راون دی ریت نہ جانی اس سنجے تر نا پے
عشق وچھوڑے بالی ڈھانڈی
ہر دم مینوں تاپے
سکن دور نہ تھیوے دل توں
ویکھن نوں من تاپے
کہے حسین سہاگن سو ای
جان شو ہ آ پ سنجا پے
ارے سکھیو، مجھے محبوب ملے تو حال بحال ہو۔
ہجر کی اس بلا کو میں نے اپنے اندر خود ہی ڈیرہ ڈالنے دیا، اب میرا جو حال ہے اس کی ذمہ دار میں خود ہوں۔
بچپن کھیل کود میں گوایا، جوبن کی سرمستی کام نہ آ ئی۔
اجڑی جوانی میں اپنے پیا کو منانے کا ڈھنگ نہ جان پائی۔
عشق میں جدائی نے الاؤ جلا رکھا ہے جو مجھے ہمہ وقت تپائے رکھتا ہے۔
شوق نظارہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ دیدار کے لیے من تڑپ تڑپ جاتا ہے۔
حسین کی بات سن! سہاگن وہی ہے جس کا محبوب خود اس کی تصدیق کرے۔