Mere Bache Sachai Ke Sath Bare Honge
میرے بچے سچائی کے ساتھ بڑے ہوں گے
چترال کی تحصیل مستوج سے تعلق رکھنے والے حیات محمد خان بتا رہے تھےکہ ثاقب میں نے اپنے بچوں کے سامنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اگر میں نے اپنے بچوں کو کہا کہ میں گھر واپسی پر آپ کے لیے چاکلیٹ لے کر آؤں گا تو واپسی پر لازما میرے ہاتھ میں چاکلیٹ ہوتی ہے۔ بچوں سے کہا کہ میں آپ کو اس ویک اینڈ پر کھانے کے لیے لے کر جاؤں گا تو انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارا باپ ایسی کوئی کمٹمنٹ نہیں کرتا جو وہ پوری نہ کر سکے۔
اس لیے وہ ڈنر کے لیے تیار ہوتے ہیں جس ٹائم پر گھر آنے کا کہتا ہوں اس ٹائم سے پہلے گھر پہنچ جاتا ہوں بچے کوئی ایسی فرمائش کر دیں جو میں پوری نہیں کر سکتا تو ان کو بتا دیتا ہوں جھوٹا آسرا نہیں دلاتا۔ ٹرخانے کا تصور گھر میں موجود نہیں۔ حیات محمد خان اور ان کی اہلیہ پاکستان میں یونیسیف کے ساتھ وابستہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب ہم بچوں کے سکول جاتے ہیں تو وہاں جا کر بچوں کے نمبر اور گریڈ نہیں پوچھتے بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا رویہ کیسا ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ ان کا برتاؤ کس قسم کا ہے۔
محترم دوستو! اس مضبوط تربیت کا نتیجہ یہ ہے کہ بچے اپنے والدین پر اعتماد کرتے ہیں۔
سچ بولتے ہیں کسی کو دھوکا نہیں دیتے حیات صاحب کو اللہ تعالی نے ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے۔ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے بچوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ انسان جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ یہی پیرنٹنگ سٹائل اگر پاکستان کے دیگر والدین بھی اپنا لیں تو اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ بچے اپنے والدین کو فالو کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ کے دونوں بچوں کا چلنے کا انداز بالکل آپ کے جیسا ہے۔ جی ہاں بچوں کی شخصیت کی بنیاد ان کے بچپن میں ہی پڑ جاتی ہے۔
چترال کا نام ذہن میں آتے ہی برف سے ڈھکی چوٹیاں، سر سبز وادیاں، صاف شفاف دریا اور اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے مہمان نواز لوگ ذہن میں آتے ہیں۔ حیات محمد خان کے والد صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے پاکستان آرمی کے ساتھ 1965 اور 71 کی جنگوں میں بہادری سے شرکت کی۔
پھر ٹیچنگ کی لائن میں آئے بزنس کیا مقامی کونسل کے ممبر رہے کہتے ہیں میرے والد صاحب کا اللہ تعالی سے تعلق بہت مضبوط تھا انہیں یقین تھا کہ جس شخص کو اللہ تعالی عزت دینا چاہے ساری دنیا کے لوگ مل کر اسے بےعزت نہیں کر سکتے۔ ہر وقت لوگوں کے کام آنے کے لیے تیار رہتے تھے اور ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے انہی چیزوں کی جھلک ہمیں حیات صاحب کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کی مینٹورنگ کی۔ دونوں میاں بیوی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آسٹریلین ایوارڈ سکالرشپ کے لیے اکٹھے منتخب ہوئے آسٹریلیا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں پر ٹھہرنے کی آفر ہوئی جواب دیا کہ میں واپس جا کر اپنے ملک کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں گویا
"مجھے اپنے سمندر کی ریت کافی ہے"
کہتے ہیں ثاقب یونیسف کے ساتھ جب میں بچوں کی بہبود کے کام میں اپنا حصہ ڈالتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے میرے اپنے بچے ہوتے ہیں اپنے 20 سالہ پروفیشنل کیریئر میں آپ نے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام یو این ڈی پی اور دیگر اداروں میں کام کیا پچھلے دنوں یوکرین کے ریفیوجی پروگرام کا حصہ رہے اس دوران پولینڈ میں قیام کیا اور روزانہ 15 سے 20 کلومیٹر کی واک کو اپنا معمول بنایا۔
وہی اپنا فیورٹ سوال پوچھا کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے کون سے اصول اپنائے جائیں ایسے کون سے کیپسول ہیں جو انسان کھا لے تو اسے اتنی توانائی مل جاتی ہے کہ وہ زندگی میں نیکسٹ لیول پر پہنچ جاتا ہے جواب میں اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا چترال کی تحصیل مستوج کے ایک گاؤں چنار سے ان کا تعلق ہے کہتے ہیں گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور میں نے ایف ایس سی تک اپنی تعلیم لالٹین کی روشنی میں مکمل کی۔ سکول لائف میں ٹاپر تھے اپنی والدہ کا تذکرہ کیا جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں لیکن تعلیم سے عشق تھا اپنے بچوں کے ساتھ رات 12 بجے تک جاگتی رہتیں۔
اس بات کو یقینی بناتیں کہ ہر بچہ پڑھائی میں مگن ہو ان کے لیے چائے کا بندوبست کرتیں۔
سکول سے چھٹی کرنے کا لفظ ان کی والدہ کی ڈکشنری میں نہیں تھا ان کی محنت اور دعاؤں نے ان کے تمام بچوں کو اعلی مقام پر پہنچایا حیات صاحب آج بھی ہر روز صبح اپنی والدہ کو فون کرتے ہیں اور رات کو کام ختم ہونے کے بعد پھر ان کو فون کرتے ہیں اور پورے دن کا احوال انہیں سناتے ہیں۔ ان کی فیملی بانڈنگ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں۔
مشہور رائٹر تھامس سٹینلے نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "دی نیکسٹ ڈور میلینیئر" میں کامیاب لوگوں کی 30 خوبیاں بیان کی ہیں۔ ان میں تیسرے نمبر پر ہارڈ ورک ہے۔ دوسری خوبی حیران کن ہے کہ ان تمام کامیاب لوگوں کو اپنی فیملی کی سپورٹ تھی۔ یہ فیملی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور نمبر ون پہ جو خوبی تھامس سٹینلےنے بتائی وہ ان کی ایمانداری تھی۔ یہ تینوں خوبیاں آپ کو حیات محمد خان کی ذات میں نظر آئیں گی۔
کامیابی کے اگلے پرنسپل کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کو پوری دنیا میں کامیاب لوگ فزیکلی فٹ ملیں گے واک، جوگنگ، جم اور یوگا آپ کے روٹین کا حصہ ہونا چاہیے۔
خود ہم نے اوپر تذکرہ کیا کہ 15 سے 20 کلومیٹر واک روٹین انہوں نے بنایا ہوا تھا۔ زندگی میں کمپیرزن سے بچنے کی اہمیت پر زور دیا کسی شخص کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اپنا موازنہ اس کے ساتھ کرنے کی کوشش۔ یہ جانے بغیر کہ دونوں نے زندگی کے سفر میں مختلف تجربات کا سامنا کیا۔
مولانا روم کی مشہور حکایت یاد آگئی۔
ایک دفعہ چند آدمی ہندوستان سے ایک ہاتھی کسی دوسرے ملک میں لے گئے۔
اس علاقے کے لوگوں نے ہاتھی نہیں دیکھا ہوا تھا۔ اُن آدمیوں نے ہاتھی کو ایک تاریک کمرے میں باندھ دیا۔ لوگوں کو جب ہاتھی کے متعلق پتا چلا تو وہ جوق در جوق اس مکان کی طرف جانے لگے۔ تاریک کمرہ اور ہاتھی بھی سیاہ فام۔ دیکھنے والوں کا ہجوم تھا لیکن ہاتھی دیکھنے کا شوق اس اندھیرے پر غالب آیا۔ جب آنکھوں سے کچھ نہ دکھائی دیا تو ہاتھوں سے ٹٹول کر قیاس کرنے لگے۔ جس شخص کے ہاتھ میں جو حصہ ہوتا وہ عقل سے اس پر دلیل اور قیاس کرتا۔ چنانچہ جس شخص کے ہاتھ میں اس کا کان تھا اس نے کہا یہ تو ایک بڑا سا پنکھا معلوم ہوتا ہے اور جس شخص کا ہاتھ اس کی پشت پر تھا۔ اس نے کہا یہ تو مثل تخت ہے اور جس شخص کا ہاتھ اس کے پاؤں اور ٹانگوں کو لگا اس نے ٹٹول کر کہا نہیں آپ لوگ غلط کہتے ہیں یہ تو مثل ستون ہے اور جس کا ہاتھ اس کی سونڈ پر پڑا اس نے کہا تم سب غلط کہتے ہو یا رویہ حیوان تو نلوے جیسا ہے۔
غرض ہر شخص کا دعوی تھا ہاتھی ویسا ہی ہے جیسا اس نے ٹٹول کر جانا بوجھا ہے، ہر ایک کی مول الگ تھی۔ کسی نے کہا الف ہے اور کسی نے "ب" کہا۔ مگر ہاتھی کی ابجد سے کوئی بھی واقف نہ تھا۔ ہاں اگر ان کے ہاتھوں میں اندھیرا دور کرنے والی شمع روشن ہوتی تو یہ سارے اختلافات ختم ہو جاتے اور انہیں پتا چل جاتا کہ ہاتھی کی شکل و شباہت کیسی ہے۔
نوجوانوں کو کیریئر کے سٹارٹ میں لرننگ کا مشورہ دیا سر جھکا کر جان توڑ محنت کی جائے اور معاوضے کے بارے میں اس وقت سوچا جائے جب آپ کچھ بن جائیں۔ اپنے آپ کو مارکیٹ کے لیے تیار کریں اپنے آپ کو اپڈیٹ کریں نئی نئی چیزیں سیکھیں۔
جو لوگ تہیہ کر لیتے ہیں کہ وہ بہترین سے کم تر زندگی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے تو انہیں بہترین زندگی مل ہی جاتی ہے۔ زندگی کو ایک پلان کے ساتھ گزاریے کیونکہ پلاننگ میں ناکامی دراصل ناکامی کی پلاننگ ہے آپ کو زندگی میں نیکسٹ لیول پر جانے کے لیے یقینا اللہ تعالی کی رحمت درکار ہوتی ہے۔ لیکن کیا آپ اس کامیابی کو پانے کے لیے زمین کو ہموار کر رہے ہیں۔
مالی دا کم پانی دینا
بھر بھر مشکاں پاوے
مالی دا کم پھل پھول لانا
لاوے یا نہ لاوے
حیات محمد خان کی آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کے مستقبل میں بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور آخر میں ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے منو بھائی کے یہ اشعار
ہونئیں جاندا
کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے