Logon Ki Fitrat Zameen Ki Manind Hai
لوگوں کی فطرت زمین کی مانند ہے
لوگوں کے مختلف مزاج پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے مزاج کا یہ اختلاف زمین کے مزاج کے مختلف ہونے کی طرح ہے۔ بعض لوگ نرم اور سہل خو ہوتے ہیں اور بعض سخت کھردرے۔ کچھ لوگ بار آور اور زرخیز زمین کی طرح فراخ دل و فیاض ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بنجر زمین کی صورت جہاں نہ پانی ٹھہرتا ہے اور نہ سبزہ اگتا ہے، بخیل ہوتے ہیں۔
زمین کے مختلف انواع کے ساتھ انسان کا طرز عمل ان کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔ پتھریلی اور اونچی نیچی زمین پر انسان آہستہ خرامی اور احتیاط سے چلتا ہے جبکہ نرم اور ہموار زمین پر اطمینان سے بھاگا چلا جاتا ہے۔
لوگوں کا بھی یہی حال ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجس کا مفہوم ہے "اللہ نے ساری زمین سےمٹھی بھر مٹی لی اور اس سے آدم پیدا کیا اب آدم کے بیٹے زمین کے مطابق پیدا ہوئے ہیں کوئی سرخ ہے تو کوئی سفید اور کوئی کالا ہے اور کوئی ان کے درمیان ہے کوئی نرم مزاج ہے تو کوئی درشت۔ کوئی خبیث ہے اور کوئی اچھا"۔
رسول اللہ ﷺ کا لوگوں سے تعامل اُن کے مزاج کے موافق ہوتا تھا۔
حدیبیہ کے مشہور واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ مہاجرین و انصار اور عرب کے دیگر حلیف قبائل کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کی تعداد 1400 تھی۔ ہدی کے جانور ساتھ تھے انہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ مسلمان بیت اللہ کی زیارت کے لیے روانہ ہو رہے ہیں ہدی کے جانوروں میں رسول اللہ ﷺ کے 70 اونٹ بھی تھے مسلمان مکہ پہنچے تو قریش نے انہیں شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ سے کچھ دور واقع ایک مقام حدیبیہ پر پڑاؤ ڈال دیا۔ قریش نے مذاکرات کے لیے اپنے آدمی بھیجنا شروع کیے ان کا پہلا سفیر مکر زبن حفص تھا جو تعلق تو قریش سے رکھتا تھا لیکن عہد کی پاسداری کرنا اس کی عادت نہیں تھی وہ ایک بدکار اور بد عہد آدمی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آتے دیکھا تو کہا
"یہ بدعہد آدمی ہے"
رسول اللہ ﷺ نے مکرز سے اس کا مزاج ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہم صرف عمرے کی نیت لے کر آئے ہیں آپ نے اسے کوئی وثیقہ لکھ کر نہیں دیا۔
آپ جانتے تھے کہ یہ اس کا اہل نہیں ہے مکرز بن حفص اپنا سا منہ لے کر بغیر کسی نتیجے کے جیسے آیا تھا ویسے لوٹ گیا۔
اب قریش نے سید الا حابیش حلیس بن علقمہ کو قلمدان سفارت تھمایا اور رسول اللہ ﷺ سے مذاکرات کرنے بھیجا۔
احابیش عرب کی ایک قوم تھی جو حرم کعبہ کی تعظیم کی خاطر مکہ میں آباد ہوگئی تھی اور قریش سے اس کے حلیفانہ تعلقات تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے حلیس بن علقمہ کو دیکھا تو فرمایا جس کا مفہوم ہے "اس آدمی کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی بے حد تعظیم کرتی ہے اس لیے ہدی کے جانور اس کے سامنے کھڑے کر دو کہ وہ انہیں دیکھ لے۔
حلیس نے قلادے پہنے۔ حرم میں ذبح کے لیے تیار، بھوک اور پیاس کے ستائے ہوئے قربانی کے اونٹ اور بکریوں کے ریوڑ دیکھے جو وادی میں دور تک پھیلے ہوئے تھے وہ یہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھا اور رسول اللہ ﷺ سے ملے بغیر قریش کے پاس واپس چلا گیا۔ اس نے کہا ایسے لوگوں کو کیونکر بیت حرام میں آنے سے روکا جا سکتا ہے جو عمرےکی غرض سے آئے ہیں۔
قریش نے اسے ڈانٹ دیا "ارے بیٹھ جاؤ تم اعرابی ہو تمیں کیا معلوم؟"
اس پر حلیس کو تاؤ آگیا اس نے کہا اے معشر قریش! ہم نے اس بات پر تم سے عہد نہیں باندھا تھا نہ اس ظلم پر تمہارے حلیف بنے تھے۔ کیا جو لوگ بیت اللہ کی عظمت دلوں میں بسائے اس کی زیارت کو آئے ہیں انہیں بیت اللہ میں آنے سے روکا جائے گا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں حلیس کی جان ہے تم محمد ﷺ کے راستے میں نہیں آؤ گے یا پھر میں احابیش کے ہمراہ تم پر ہلا بول دوں گا۔
قریش نے جواب دیا تم خاموش رہو ہمیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ پھر انہوں نے کسی بڑے آدمی کو بھیجنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے عروہ بن مسعود ثقفی کا انتخاب کیا گیا۔
عروہ نے کہا "اے معشر قریش تم نے محمد ﷺ کی طرف سے ناکام واپس آنے والوں سے جو بد سلوکی کی وہ میں دیکھ چکا ہوں تم جانتے ہو کہ میں تمہاری اولاد اور تم میرے والد کی جگہ ہو"۔ لوگوں نے جواب دیا "تم نے سچ کہا تم ہمارے نزدیک قابل اعتماد ہو"۔ عروہ جو اپنی قوم میں سردار مانا جاتا تھا ان کے درمیان ان کی بڑی قدر و منزلت تھی روانہ ہوا۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کے روبرو بیٹھ کر بولا محمد ﷺ تم ان اوباشوں کو اکٹھا کرکے یہاں لے آئے ہوتاکہ ان کی مدد سے شہر فتح کر لو تم کیا سمجھتے ہو یہ قریش ہیں قریش، انہوں نے تمہارے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے اور جوان اونٹوں پر سوار اپنے بال بچوں سمیت نکل کھڑے ہوئے ہیں انہوں نے اللہ سے عہدباندھا ہے کہ اس شہر میں کوئی زبردستی داخل نہیں ہو سکے گا اور اللہ کی قسم گویا میں تمہارے ان ہم جولیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ کل یہ تمیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے!
ابوبکرؓ رسول ﷺ کے عقب میں کھڑے تھے عروہ کی یہ بات سن کر وہ طیش میں آ گئے اور کہا
جس کا مفہوم ہے
"جا، جا کر لات کی شرمگاہ چاٹ، کیا ہم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے"
یہ تیز اور تیکھا جواب سن کر اپنی قوم کا بادشاہ ہکا بکا رہ گیا اور وہ ایسے جواب سننے کا عادی نہیں تھا لیکن اس کے سر میں سمائے ہوئے غرور کو توڑنے کے لیے ایسے ہی جواب کی ضرورت تھی۔ عروہ منہ کی کھا کر ڈگمگایا پھر ذرا ہوش میں آیا تو جواب دینے والے کے متعلق پوچھا "محمد یہ کون ہے"
"یہ ابن ابی قہافہ ہیں"
رسول اللہ ﷺ نے بتایا۔
عروہ نے ابوبکر سے مخاطب ہو کر کہا تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا میں اس بات کا تمہیں ضرور جواب دیتا لیکن یہ اس احسان کا بدلہ سمجھو اس کے بعد عروہ نے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے۔
وہ رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کے دوران آپ کی داڑھی چھونے لگا۔
مغیرہ بن شعبہ ثقفی نے جو سر سے پیروں تک آہنی لباس پہنے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کھڑا تھا۔
تلوار کی نوک سے اس کا ہاتھ پرے کیا عروہ نے دوبارہ ہاتھ بڑھا کر اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی داڑھی چھونے کی کوشش کی تو مغیرہ بن شعبہ نے دوبارہ تلوار کی نوک سے اس کا ہاتھ ہٹایا تیسری بار اس نے ہاتھ بڑھایا تو مغیرہ نے کہا: "اپنا ہاتھ نبی پاک کے چہرے سے پرے رکھو اس سے پہلے تمہارا ہاتھ تم تک واپس نہ پہنچے۔
عروہ نے کہا: "تمہارا برا ہو تم کتنے درشت اور سنگلدل ہو"، "محمد یہ کون ہے؟"
اس نے پوچھا
رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کا جواب دیا
"یہ آپ کا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے"۔
اس پر عروہ نے کہا "ارے او پیمان شکن! ابھی کل ہی تو تم نے اپنی شرمگاہ دھونا سیکھی ہے"۔
عروہ تھوڑی دیر اور رکا، پھر قریش کے پاس لوٹ گیا
اس نے قریش کے سرکردہ افراد سے مخاطب ہوکر کہا " اے معشر قریش! واللہ! میں نے قیصر وکسری اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں۔ واللہ میں نے ایسا کوئی بادشاہ نہیں دیکھا جس کے رفقاء اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جس طرح محمد ﷺ کے اصحاب محمد کی تعظیم کرتے ہیں"۔
یہ سن کر قریش کے دلوں میں ایسا رعب پڑا کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔
قریش نے سہیل بن عمرو کو رسول اللہ ﷺ کی طرف حدیبیہ بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آتے دیکھا تو فرمایا تمہارا معاملہ کچھ سہل ہوگیا۔
پھر مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان عہد نامہ طے پا گیا۔
جسے ہم صلح حدیبیہ کے نام سے جانتے ہیں۔
لوگوں کے مزاج کو سمجھ کر ان سے معاملات طے کرکے ہم اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو اگلے درجے پر لے کر جا سکتے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری کے لیے عبد الرحمن العریفی کی کتاب "زندگی سے لطف اٹھائیے" سے مدد لی گئی۔