Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saqib/
  4. Kamyabi Ka Beej (2)

Kamyabi Ka Beej (2)

کامیابی کا بیج (2)

کالم کے اس دوسرے حصے میں ہم ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب کی کامیاب سٹوری کو آ گے بڑھاتے ہیں۔ پہلا حصہ جو پڑھا آپ نے اس کا فیڈ بیک بہت زبردست آ رہا ہے اور بہت سارے لوگ ڈاکٹر صاحب کی سٹوری کے اندر اپنے آ پ کو دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کے کمنٹس آ رہے ہیں کہ یہ تو ہماری سٹوری ہے۔

تو ہر کامیاب آدمی کچھ اصولوں پہ کام کرتا ہے اس کو اور گہرائی میں سمجھتے ہیں۔

ہم نے کالم کے پہلے حصے میں بیان کیا کہ ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب کی ڈیفنس سروسز میں جاب ہوگئی۔ محنت کرنے والا آدمی، وژنری آدمی اور ایماندار آدمی کو کسی کمپنی میں اپنا مقام بنانے کے لیے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا کام اور اس کی ایمانداری ہی اس کی سفارش ہوتی ہے۔ یہی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہوا 10 سال کامیابی کے ساتھ گزارے پرموٹ ہوئے سرو کیا اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اب جس کنٹری سے ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی کرنا چاہ رہے تھے کمپنی ان کو وہاں بھیجنے پر راضی نہیں تھی اور ڈاکٹر صاحب نے ملاقات میں بتایا کہ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری گروتھ یہاں پر رک گئی ہے۔ میں نے جو کچھ سیکھنا تھا اس ادارے سے وہ میں سیکھ چکا ہوں اور اب وہ ٹائم آ گیا ہے کہ میں اپنے لیے نیا افق ڈھونڈوں۔

جی ہاں زیادہ اونچا اڑنے والے لوگ زیادہ اونچائی پر جانے کے لیے اس قسم کے سٹیپ اٹھاتے ہیں۔ مشکل فیصلہ کیا انہوں نے اور 10 سال جاب کرنے کے بعد گورنمنٹ جاب سے ریزائن دیا اور حیدرآباد واپس آ گئے۔

بتاتے ہیں کہ یہ مشکل وقت تھا لیکن اس مشکل وقت نے لوگوں کی پہچان ان کے سامنے کروائی۔ کھرے اور کھوٹے کا فرق محسوس کیا۔ مشکل وقت میں دوبارہ سے اٹھنے کا فن سیکھا۔ اپنی لمٹس کو آگے بڑھانے کا ڈھنگ آیا۔

سکھر میں جاب کی۔ پھر سکھر میں ایک بینک میں جاب ملی پھر کراچی آئے اور آج بھی گورنمنٹ کے ایک بڑے ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پہ کام کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنا پی ایچ ڈی کا ڈریم بھی پورا کیا۔

لیکن یہاں پر یہ پہلو ذہن میں رکھیں کہ ایسا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے ایک بہت سٹرانگ وائی ہونا ضروری ہے۔ جب تک سٹرانگ وائی نہیں ہوں اس طرح کا بڑا فیصلہ زندگی میں نہ لیں۔

ڈاکٹر صاحب انٹرنیشنل لیول پہ ٹیلنٹ مینجمنٹ کی سروسز پرووائڈ کرتے ہیں۔ ان کے کلائنٹس میں برطانیہ، پرتگال اور جرمنی کی بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا میں نے کہ آ ج کل کے سٹوڈنٹس اپنے کیریئر کو کس طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا ان کو پتا ہوتا ہے کہ پانچ سال کے بعد میں نے کیا کرنا ہے، 10 سال کے بعد میں نے کیا کرنا ہے، 15 سال کے بعد میں کہاں ہوں گا، 20 سال کے بعد مجھے زندگی کہاں لے کر جائے گی۔

ایک گہری سانس بھر کر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کیریئر کونسلنگ بالکل بیسک لیول پر پاکستان میں ہے اور سٹوڈنٹس کا تھنکنگ پیٹرن انہوں نے ڈیفائن کیا کہ سٹوڈنٹس یہ خواب دیکھتے ہیں کہ ہم ڈگری مکمل کرکے جاب نہیں کریں گے بلکہ ہم ڈائریکٹ بزنس کریں گے اور تعلیم کے دوران بھی تھیوری پڑھنے میں علم کو اس کے روٹس کے اندر گہرائی کے اندر جا کر جاننے میں ان کا انٹرسٹ بہت کم ہے۔ ان کے جو خواب ہیں وہ بڑے بڑے ہیں ایلن مسک، جیف بزاز، بل گیٹس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے جو وژن چاہیے، جو محنت چاہیے اس کا فقدان نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب نے دوران گفتگو اس بات پر زور دیا کہ پرسنل ڈیویلپمنٹ کو یونیورسٹیز کے، کالجز کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ تاکہ سٹوڈنٹس اپنا سیلف اسٹیم، پرسنلٹی ڈیویلپمنٹ، کانفلکٹ مینجمنٹ، ڈیسین میکنگ اور ٹیم میں رہ کر کام کرنے کا فن سیکھیں۔ ہر سٹوڈنٹس کو پتا ہو دوران تعلیم کہ وہ دو سال کے بعد، چار سال کے بعد، چھ سال کے بعد، 10 سال کے بعد کہاں تک جائے گا۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب بہت سارا کام کرنے کا پلان ذہن میں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ریسرچ آ رٹیکلز کے ذریعے سیمینارز، ورک شاپس، کری کولم ڈیزائننگ کے ذریعے سٹوڈنٹس کی لائف میں ایک انقلابی تبدیلی لے کر آ نا یہ ان کا خواب ہے۔ ان کی فیوچر پلانز کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں اپنا زیادہ ٹائم اب ایکیڈیمکس کو دینا چاہتا ہوں۔ ایسی سٹریٹجیز، ایسے پلان، ایسی ریسرچ ڈیزائن کرنا چاہتا ہوں جس سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہو اور کیریر سے ہٹ کے فیملی کے اندر ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ایک نیوکلیس کی ہے۔

ایک ایسا نیوکلیس جس نے پورے خاندان کو جوڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنی فیملی، ان کی وائف اور ان کے بچے زبردست ویژن کے ساتھ اپنی پرسنل گروتھ اور کنٹری کی ڈیویلپمنٹ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اور ان کے والدین جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن یقینا ان کی ارواح مطمئن ہوں گی کہ انہوں نے سچ، ایمانداری، قناعت اور ویژن کا جو بیج بویا تھا وہ ان کے بچوں کی کامیابی اور کنٹریبیوشنز کی صورت میں صدقہ جاریہ بن کر آج بھی ان کے کام آ رہا ہے۔

Check Also

Aik Aur Yakum May

By Sajid Ali Shmmas