Kamyabi Ka Beej (1)
کامیابی کا بیج (1)
دو کمروں کا مٹی کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا گھر جس کی چھت بارش میں ٹپکتی رہتی تھی۔ ٹپکتی ہوئی اس بارش میں گھر کے سربراہ اور ان کی اہلیہ اپنے بچوں اور سامان کو بارش کے پانی سے بچانے کی سعی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
گھر کے سربراہ کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک تھی۔ یہ لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی کہانی ہے۔ جس کو بیان کر رہے ہیں آج ہمارے ساتھ پاکستان کے مشہور سکالر، ایجوکیشنسٹ اور ریسرچر ڈاکٹر محمد مجتبی اور جس شخص کی بات ہو رہی ہے جو آ نکھوں میں چمک لیے ایک بڑے ویژن کے ساتھ اس چھوٹے سے گھر میں اپنے بچوں کے بڑے مستقبل کا خواب دیکھ رہا ہے وہ ڈاکٹر محمد مجتبی کے والد صاحب تھے۔
ڈپلومہ کیا انہوں نے الیکٹریشن میں اور ہارڈ ورک کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کبھی وہ رات کو 12 بجے گھر آتے، کبھی رات کو ایک بجے گھر آتے اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ کام کی وجہ سے گھر پر موجود ہی نہیں ہوتے۔
بہت سارے بہن بھائی محدود بجٹ لیکن فیصلہ یہ کہ بچوں کو رزق حلال کھلانا ہے۔ گھر میں تھوڑا سا دودھ آتا تھا اور ان کی والدہ چپکے سے دودھ میں پانی ملا کے اس کو چینی ڈال کے میٹھا کر دیتی اور وہی دودھ تمام بچوں کو پلا دیا جاتا اور ان کی والدہ کی زبان پر ہمیشہ ایک ہی فقرہ ہوتا میرے بیٹے اور میری بیٹیاں زندگی میں بڑا مقام حاصل کریں گے۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب سے ملاقات میں کہ اپنے والد صاحب سے کیا سیکھا آپ نے؟
تو مسکرا کر بتایا انہوں نے کہ سب سے پہلا سبق ہارڈ ورکنگ کا تھا۔ جس کو آج کی زبان میں ہم کہیں دن اور رات ایک کر دینا اور دوسرا سبق بڑا خواب ان کی آنکھوں میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ بڑا سوچتے تھے، ہمیشہ مثبت سوچتے تھے۔ اور ایماندار ہونے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ان کے والد صاحب نے کہاکبھی امتحانات میں نقل نہیں کرنی کہ میرٹ بن جائے گا اچھے نمبر آ جائیں گے۔
ہمیشہ کام ایمانداری سے کرنا ہے۔
اسی ماحول میں اسی تربیت کے ساتھ لاڑکانہ سے 12 سال کی عمر میں یہ فیملی حیدرآ باد آ گئی۔ اور اس کے پیچھے بھی والد صاحب کا ہی خواب تھا کہ میرے بچے بڑے شہر میں آئیں گے تو تعلیم کے بہتر مواقع ملیں گے۔ ان کا وژن بڑا ہوگا، ان کی کمپنی کامیاب لوگوں میں ہوگی اور اس فیصلے نے اپنے اثرات دکھانا شروع کر دیے۔
ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب کے والد صاحب نے یہاں پر چھوٹے چھوٹے کانٹریکٹس لینا شروع کیے اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔ گریجویشن کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم پی۔ اے میں ایڈمیشن مل گیا۔
اب ایک چھوٹے شہر لاڑکانہ کی گلیوں میں بچپن گزارنے والا شخص جب قائد اعظم یونیورسٹی کی پر فضا انوائرمنٹ، براڈ ویژن اور مختلف شہروں کے اسٹوڈنٹس کے درمیان پہنچا تو شروع میں ایڈجسٹ کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ لیکن وہاں پر ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے والد صاحب کا دیا ہوا سبق یاد آیا کہ واپس نہیں جانا۔ کبھی بھی دل میں واپس جانے کا خیال نہیں آیا اور کہتے ہیں کہ والد صاحب ہمیں اتنے پیسے دیتے تھے کہ جس سے ہماری تعلیمی ضروریات اور بیسک نیڈز کپڑے اور کھانے کی پوری ہو سکیں۔
زیادہ پیسے نہ دینے کے پیچھے فلسفہ یہ تھا کہ کہیں ان پیسوں کی وجہ سے میرے بیٹے کی توجہ ڈائیورٹ نہ ہو جائے اور وہ تعلیم کی جگہ دوسری سرگرمیوں میں انوالو ہو جائے۔
یہی وجہ تھی کہ امتیازی نمبروں سے ایم پی اے اپنے مقررہ ٹائم میں انہوں نے پاس کیا اور اپنے استاد اقبال بٹ صاحب جو پبلک پالیسی پڑھاتے تھے، ان کو یاد کیا انہوں نے اس میٹنگ کے دوران کہ ان کا جو پڑھانے کا انداز تھا اس میں جو گہرائی تھی، جو ان کی صلاحیت تھی بات کو سمجھانے کی وہ نہ صرف ان کو آج تک یاد ہے بلکہ وہ ان کو اپنے لیکچرز میں، ٹریننگز میں، سیمینارز میں کاپی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مجتبی صاحب زیبسٹ، آئی او بی ایم سندھ مدرسۃ الاسلام اور ڈفرنٹ پلیٹ فارمز پہ پڑھاتے ہیں اور اپنے علم کو مختلف طلباء کے درمیان زبردست طریقے سے پھیلاتے ہیں اور ان کے سوچنے کے انداز کو نئے زاویے بخشتے ہیں۔ ایم پی اے کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب حیدرآ باد آ گئے اور ایک مقامی کالج میں ایم بی اے کے سٹوڈنٹس کو پڑھانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ ایل ایل بی کلاسز لیں اور اس کو بھی پائے تکمیل تک پہنچایا۔
زندگی کا ٹرننگ موڑ بتاتے ہیں وہ کہ اسلام آباد ڈیفنس منسٹری میں کچھ جابز آیئں اور ان کے دوست نے ان کو کہا کہ آپ بھی اس کے لیے اپلائی کریں۔ تو گھر سے بتائے بغیر انہوں نے اپلائی کیا اور رٹن ٹیسٹ کے لیے ان کو کال آ گئی اسلام آباد سے۔ اپنے گھر والوں کو بتایا کہ میرے ایک قریبی دوست کی شادی ہے اسلام آباد میں اس لیے میں صرف دو دن کے لیے اسلام آباد جانا چاہتا ہوں۔ کالج سے بھی بڑی مشکل سے چھٹی لی۔ حیدرآ باد سے کراچی آئے۔ فلائٹ کا ٹائم سات بجے کا تھا اور یہ 6: 30 پر بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے پہنچے بہت مشکل سے یہ پہنچے جہاز کے اندر اور کہا جب میں رات نو بجے اسلام آباد پہنچا تو ان کو ریسیو کرنے کے لیے جو دوست آئے تھے انہوں نے ایئرپورٹ پر بتایا کہ اس جاب کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپلائی کیا تھا اور 300 لوگوں کو رٹن ٹیسٹ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا اور سیٹیں صرف سات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مجھے اگر پہلے بتا دیتے اور میں سٹیٹسٹکس اپلائی کرتا اس کے اوپر تو مجھے چاہیے تھا کہ میں جاب کے لیے اپلائی نہ کرتا اتنے پیسے خرچ کرکے یہاں نہ آتا۔ خیر گھر پر جاتے ہیں تھکے ہوئے ہوتے ہیں پورا دن جاب بھی کی ہوئی ہوتی ہے تو جا کر سو جاتے ہیں۔ صبح جب رٹن ٹیسٹ ہوتا ہے تو ٹیسٹ کے بعد کمیٹی کہتی ہے اس کا رزلٹ دو گھنٹوں کے بعد اناؤنس ہو جائے گا آپ لوگ یہیں پر انتظار کریں۔
دو گھنٹوں کے بعد جب رزلٹ آتا ہے تو بغیر تیاری کیے ہوئے ٹیسٹ میں بیٹھنے والے ڈاکٹر محمد مجتبی کا نام ان تیس لوگوں میں شامل تھا جن کو انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور انٹرویو بھی اسی دن شام میں تھا چار بجے۔ ڈاکٹر صاحب انٹرویو میں بیٹھتے ہیں اور انٹرویو دے کے ایئرپورٹ پہنچتے ہیں کیونکہ ان کی فلائٹ بھی اسی رات کی تھی اور واپس آ جاتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک ہفتے کے بعد مجھے فون آتا ہے کہ آپ کی اپوائنٹمنٹ ہوگئی ہے اور ایک ڈیٹ بتائی جاتی ہے آپ نے اپنی جاب جوائن کرنی ہے گریڈ 17 کی اور جب یہ بات بتائی جاتی ہے ان کی فیملی کو تو ان کے والد صاحب فخر کرتے ہیں کہ بغیر کسی سفارش کے، بغیر کسی ریفرنس کے رزق حلال محنت اور بڑے ویژن کے بل بوتے پہ میرا بیٹا پاکستان کو سرو کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب کی اس دلچسپ اور اثر انگیز کہانی کا دوسرا حصہ ہم اگلے کالم میں بیان کریں گے۔