Government Mulazim Aur Khud Kushi
گورنمنٹ ملازم اور خودکشی
مسٹر ایکس پاکستان کے ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھے تنخواہ چھ ہندسوں میں پکی نوکری، بیوی بچے اور خوبصورت گھر۔ زندگی کی گہما گہمی میں یہ شخص کروڑوں پاکستانیوں کی طرح مہنگائی سے پریشان تھا بچوں کو مہنگے سکولوں اور کالجز میں ڈالا ہوا تھا لیونگ سٹینڈرڈ اپنی تنخواہ سے زیادہ تھا دوسرا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ آن لائن یا فزیکل کوئی کام شروع کیا جائے ایسی کوئی سوچ دماغ میں نہ تھی اور دہائیوں سے چھٹی کے دن سستی اور کاہلی کی نذر ہو جاتے تھے۔
بڑھتے ہوئے خرچوں سے پریشان مسٹر ایکس کے دماغ میں کچھ ہفتوں سےایک خیال اپنی جگہ بنا رہا تھا کہ اگر میں مر جاؤں تو میری موت کے بعد سرکار میری فیملی کو ایک کروڑ روپوں سے زیادہ رقم دے گی ان کی زندگی آسانی سے گزرے گی۔ مائنڈ سائنسز یہ بتاتی ہے کہ دنیا کے زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن پھر اس اقدام سے باز آ جاتے ہیں لیکن لمبے عرصے تک اگر اس خیال کی پرورش کی جاتی رہے تو اس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہی کچھ مسٹر ایکس کے ساتھ ہوا اپنی فیملی کے نام ایک خط لکھ کر اپنے کمرے میں پھندہ لگا کر خودکشی کر لی کہ میرے مرنے کے بعد ملنے والی رقم سے میری اولاد عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی۔
یہ بالکل سچی کہانی پچھلے دنوں پاکستان کے ایک بڑے شہر میں پیش آئی اور المیہ یہ ہوا کہ تدفین کے موقع پر لاش کا چہرہ دیکھتے ہوئے گردن پر موجود پھندے کا نشان نظر آیا تحقیقات ہوئیں اصل کہانی کا پتہ چلا اور وہ رقم جس کی محبت میں مسٹر ایکس نے اپنی جان لی تھی وہ بھی ان کی فیملی کو نہ مل پائی گویا دنیا اور دین دونوں کی بربادی ان صاحب کا مقدر ٹھہری۔
ایک اور سرکاری ملازم اپنی فیملی کو کہتے رہتے تھے کہ میں مر جاؤں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں ایک کروڑ کیش ملے گا پینشن بھی آئے گی اور تم لوگ عیاشی کرنا۔ ان صاحب نے خودکشی تو نہیں کی لیکن کچھ ہی مہینوں میں دل کے دورے کے باعث اپنی جان گنوا بیٹھے۔ بار بار اپنی موت کی پلاننگ، کرنا گویا موت کو اپنے دروازے پر دعوت دینے کے مترادف ہے۔
گورنمنٹ ملازمین کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے اور یہ حیران کن ٹرینڈ سامنے آ رہا ہے مذاق میں یہ بات کرتے ہیں بیٹے کو پاکستان سے باہر بھجوانا ہے اس کے لیے 20 لاکھ روپے چاہییں بیٹیوں کی شادی کرنی ہے اگر میں مر جاؤں تو یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں اس کے بعد قہقہہ مارتے ہیں لیکن بطور مائنڈ سائنسز ٹرینر میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ ان کی لاشعور میں ان کے تمام مسائل کا حل اپنی موت کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ کیا پاگل پن اور دیوانگی کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔
اس کالم کے لیے ریسرچ کرتے ہوئے اس موضوع پر کچھ تحریریں پڑھیں جن کا فوکس یہ تھا کہ مہنگائی، غربت اور نکمی گورنمنٹ کی وجہ سے لوگ خود کشی کر لیتے ہیں کیا چھ ہندسوں میں تنخواہ لینے والے شخص کی خودکشی کی ذمہ دار گورنمنٹ ہے اپنے خرچے کم کرنے کو لوگ تیار نہیں۔ محنت کرنے کی عادت نہیں ہے نیا سوچنا ہم نے سیکھا نہیں اپنے بچوں کو یہ کہنے کی ہمت نہیں کہ تمہارا باپ تمہیں اتنے مہنگے تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھا سکتا یا تو یہ ادارہ چھوڑو یا پھر خود سے کوئی کام کرنا شروع کرو۔ اپنی نکمی کمفرٹ زون میں رہنے والی اولاد کی خوشی کے لیے خود کشی کی پلاننگ کرنا، پاگل پن سے بھی اگلے لیول کی چیز ہے۔
ایک قریبی لوئر مڈل کلاس دوست کا احوال سناؤں ان کا بیٹا تقریباََ تین سال کا ہوا تو مجھ سے کہنے لگے کہ میں اپنے بیٹے کو شہر کے بہترین سکول میں جس کی ماہانہ فیس 35 ہزار روپے ہے داخل کروانے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ حیرت اور غصے سے میں نے کہا کہ بھائی تم نے اپنی ذات پر آخری بار ایک مہینے میں 35 ہزار روپے کب خرچ کیے تھے پورے سال میں بھی اس بندے نے اپنے لیے 35 ہزار کی شاپنگ نہیں کی ہوگی۔ ایک ریسرچ نے بتایا کہ مرد جو کچھ کماتا ہے اس کا صرف تین فیصد اپنے اوپر لگاتا ہے۔ آپ خود اثاثہ ہیں اس دنیا میں آپ کے لیے اپنی ذات سپریم ہونی چاہیے اپنی فیملی کے لیے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالیں۔۔
اکبر بادشاہ نے ایک بار اپنے درباریوں سے سوال کیا "کونسی چیز اعلیٰ ترین ہے؟"
تمام درباریوں نے آپس میں سوال پر بحث کرنی شروع کی۔
ان میں سے ایک معمر درباری نے جواب دیا کہ "علم سب سے اعلیٰ چیز ہے"۔
شہنشاہ نے خیال کیا کہ کاش بیریل یہاں ہوتا وہ مزید مناسب جواب دیتا۔
اس لیے اس نے جلدی سے بیربل کو بلا بھیجا۔ بیربل فوری طور پر دربار میں آ گیا۔ اس سے سوال کا جواب دریافت کیا گیا۔
بیربل نے جواب دیا کہ عالی جاہ! کہا جاتا ہے کہ حوصلہ سب سے بہترین کوالٹی ہے۔ ذہین انسان بھی حوصلے کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر اس میں حوصلہ نہ ہو۔ اگر چہ علم سب سے اعلیٰ دولت ہے مگر حوصلہ ان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
شہنشاہ اور درباری بیریل کے عقلمندی کے جوابات سے بہت خوش ہوئے۔
اپنی فیملی کو نیکسٹ لیول پر لے کر جانا ہے تو محنت کے دریا میں چھلانگ لگائیں اگر خواب بڑے ہیں تو فیملی کا ہر شخص کمانا شروع کرے۔ یہ مرنے سے کہیں زیادہ آسان کام ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سات ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں یہ ایک بنیادی سطح کی ریسرچ ہے اصل تعداد کا کسی کو علم نہیں یہ تعداد اس فگر سے دو گنی، تگنی یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں پانچ کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح ذہنی، امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے اکثر کو خود معلوم نہیں کہ مریض ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ نفسیاتی معالج کے پاس جانا بھی ایک سماجی داغ سمجھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ خاندان کا کوئی بچہ، بچی یا مرد، عورت کسی ذہنی مرض کا شکار ہے۔ پانچ کروڑ کی تعداد میں دو کروڑ بچے ہیں۔
اسلام میں خود کشی حرام ہے، اسلام کی رو سے انسان اپنی جان کا مالک و مختار نہیں ہے، انسان کی جان اور اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی عطا کی ہوئی ودیعت وامانت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو"۔ (البقرہ)
"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے، (النساء)
خود کشی گناہ کبیرہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا، تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں) لڑھکتا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: مسلمان کو جو بھی بیماری، تکلیف، حزن و ملال، اذیت اور غم پہنچتا ہے (ان مصائب پر صبر کرنے)کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی خطائوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری)
اور آخر میں بار بار اپنی موت کے بارے میں سوچنا کہ میری موت میری فیملی کی خوشحالی کی بنیاد بنے گی کوئی مذاق نہیں ایسا شخص گویا موت کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو مال اور اولاد کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔