Energy Circle Aur Sister Clara Hussain
انرجی سرکل اور سسٹر کلارہ حسین
علِم ذہانت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز توانائی ہے ہم اپنے ہاتھ کو حرکت دیتے ہیں زبان سے کوئی لفظ ادا کرتے ہیں تو یہ عمل مثبت یا منفی انرجی کی صورت میں ہماری زمین پر سفرکرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کی بھی انرجی ہوتی ہے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے مل کر آپ زندگی سے بھرپور ہو جاتے ہیں، چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے اور زندگی سے محبت ہونے لگتی ہے ایسی ہی ایک شخصیت سسٹر کلارہ حسین سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی سسٹر کلارہ کراچی کے مشہور جیززاینڈ میری کانونٹ سکول کی پرنسپل ہیں۔
ہم انرجی کی بات کر رہے تھے یہ انرجی ہمارے سحر کی صورت میں ہماری جسم کے اردگرد موجود ہوتی ہے عام انسانوں میں اس کا حجم تین فٹ سے آٹھ میٹر تک ہوتا ہے جیسے ہی آپ اس انرجی کے اندر آتے ہیں تو اس انسان کی شخصیت کی مناسبت سے مثبت یا منفی اثرات آپ کو محسوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
سسڑ کلارہ حسین کے ساتھ بیٹھ کر اپنے علم ذہانت کے تجربات سے بتاؤں تو کوئی شخص غصے کی حالت میں ان کے پاس آ کر بیٹھ جائے تو اس کے غصے کی شدت کم ہو جائے گی۔ ان کی سحر انگیز شخصیت میں سرخ، سبز اور سفید رنگ نمایاں طور پر نظر آۓ۔
سرخ رنگ انسان کے جذبے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، سبز رنگ ہمارے دل کے چاکرا کا رنگ ہے اور ہماری محبت کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے گفتگو کے دوران سسٹر کلارہ نے بتایا کہ ان کی زندگی کا مقصد ذاتی خاندان کی خوشیوں سے بڑھ کر ہے اور اسکول کے تمام بچے ان کے خاندان کی مانند ہیں۔ اسکول کے علاوہ بھی جن کے ساتھ وہ کام کر رہی ہیں ان لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی خواہش 24 گھنٹے ان کے ذہن میں رہتی ہے۔
عیسیٰ کی سادگی، دلوں کو چھو جائے
محبت کا پیغام، ہر جا پہنچائے
(جون ایلیا)
محترم دوستو! ایسی شخصیت سسٹر کلارہ کی ہے جن سے مل کر انسانیت پر آپ کا یقین پھر سے بحال ہو جائے۔ توانائی کے ہالے میں موجود سفید رنگ انسان کی روحانی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ سسٹر کلارہ حسین نے کراچی یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا ان کی شخصیت میں صبر اور قناعت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ قدریں اپنے والد حسین پطرس سے سیکھیں، محبت سے اپنی والدہ کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ان کی ماں سادگی کو پسند کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرو کوئی بھی چیز ضائع نہ کرو۔ سسٹر کلارہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں مسیحی افرادکی لازوال خدمات ایک فلم کی طرح میری یادداشت میں چلنے لگیں۔
کون بھول سکتا ہے لانس نائیک یعقوب مسیح کو جس نے 1948 کی کشمیر جنگ میں پانڈو ٹاپ پر وطن کی حفاظت کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا یعقوب مسیح سے وطن کے لیے جان دینے کا یہ سفر 1965،1971،1999 کی کارگل جنگ اور آج 2024 میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ تک سینکڑوں مسیحی سپوتوں کی بہادری کی بے مثال داستانوں کے ساتھ جاری ہے۔
پائلٹ آفیسر نوون تھیوڈور اور فلائٹ لیفٹیننٹ ایڈون، گروپ کیپٹن سیسل چودھری کا نام آج بھی پاکستان آرمی کی بیرکس میں احترام سے لیا جاتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں گیاری سیکٹر میں سات مسیحی جوانوں نے اپنے خون سے وطن کے جھنڈے کو سربلند کیا۔
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
جسٹس اے- آر کارنیلس کا نام سامنے آنے پر آج بھی ہمارے سینیئر جج صاحبان احترام سے اپنی آنکھیں جھکا لیتے ہیں اور ڈاکٹر روتھ فاؤ کے بارے میں لکھنے کے لیے تو پوری ایک کتاب چاہیے۔ میں نے سسٹر کلارہ حسین سے پوچھا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ حیران کن کام کیسے کر لیا کہ ساری زندگی کوڑھ کے مریضوں کی خدمت کے لیے وقف کر دینا۔ انہوں نے جواب دیا جب آپ کسی کام کا عزم کر لیتے ہیں تو خدا وہ تمام صلاحیتیں آپ کے اندر پیدا فرما دیتے ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے سسٹر کلارہ حسین کو خود بھی راہبانہ زندگی کے ساتھ وابستہ ہوئے 30 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔
میں نے پوچھا مسیحی سکولوں سے فارغ التحصیل بچے مزاج اور تربیت کے لحاظ سے باقی بچوں سے منفرد نظر آتے ہیں ان کی اس مضبوط تربیت کے پیچھے کون سے اصول ہیں ان کا دیا ہوا جواب ہم سب کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ہم سکول میں بچوں کو معمولی چیزیں (مثلا پینسل یا ربڑ وغیرہ) بانٹناسکھاتے ہیں اس سے وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا اور پوچھنے کا فن سیکھتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ بغیر پوچھے کسی کی چیز استعمال نہیں کرنی۔
ایمانداری اور جھوٹ نہ بولنے کا بیج یہیں پر بو دیا جاتا ہے کسی بچے کو اکیلا نہیں چھوڑا جاتا کھانا ضائع نہ کرنے کے بارے میں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور بچپن سے ہی سادہ غذا کی اہمیت بتا کر جنک فوڈ سے دور کیا جاتا ہے۔ جھگڑا نہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور جھگڑے کی صورت میں ٹیچر کو بتانے کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ طلبا کو بتایا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو غلط ناموں سے نہ پکاریں کسی پر الزام نہ لگائیں اپنے بیگ خود اٹھائیں سکول میں اور گھر میں ملازمین کے ساتھ احترام سے پیش آئیں، والدین کی عزت کریں، پودوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم بچوں کو کہتے ہیں کہ پتے نہ توڑیں یہ جاندار ہوتے ہیں اور جیسے آپ کے بال یا کان کوئی کھینچے تو آپ کو تکلیف ہوگی اسی طرح پودوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔
سسٹر کلارہ حسین کا سٹاف بھی زبردست تھا چائے پیش کرنے والی باجی انیتا کا چہرہ محبت سے معمور تھا۔ ایڈمنسٹریشن کی مسز نبیلہ جونیجو کی اسکول کے ساتھ وابستگی اس قدر پُر عزم اور سرشار ہے کہ وہ ہروقت اسکول کے کسی بھی کام کے لیےتیاررہتی ہیں۔
مریم کی پاکیزگی، عیسیٰ کا نور
محبت کا پیغام، دلوں میں بھرپور
(پروین شاکر)
دوران گفتگو بتایا کہ سکول کے کتب خانے میں 1330 سے زیادہ کتابیں موجود ہیں اور ہر روز ایک پیریڈ لائبریری کے لیے مخصوص ہے اپنی پسندیدہ کتاب کے جواب میں انتھونی ڈی میلو کو کی کتاب سونگ آف دہ برڈ اور پریئر آف دہ فراگ کا تذکرہ کیا۔
پاکستان میں برداشت کی اہمیت پر زور دیا بچوں کی تربیت پر مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ والدین ان کی ہر بے جا خواہش پوری کرکے ان کو بگاڑ دیتے ہیں والدین ان کو وہ سب دے رہے ہیں جو انہیں کم عمری میں نہیں ملنا چاہیے انہوں نے زور دیا کہ والدین کو بچوں کی فرمائش سے انکار کرنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے والدین کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ماں کہتی تھیں کہ کھانے پر اپنا غصہ نہ نکالو وہ روزانہ اپنے گھر کے باہر پانی کا پائپ لگا کر سکول سے واپس جاتے ہوئے سینکڑوں بچوں کو پانی پلاتی ہیں یہ سوچ کر کہ اگر آج وہ کسی کے بچوں کا خیال کریں گی تو کل ضرورت کے وقت کوئی ان کے بچوں کا بھی خیال کرے گا۔
عیسیٰ کی محبت، امن کی زبان
دلوں کو جوڑتی، ہر ایک داستان
(فیض احمد فیض)
ماں باپ سے سیکھی ہوئی شفقت آج ان کی پہچان ہے اور ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کہ پاکستان اور انسانیت کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور ہزاروں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
(علامہ اقبال)