Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Chaprasi Se Arab Pati Tak (1)

Chaprasi Se Arab Pati Tak (1)

چپڑاسی سے ارب پتی تک (1)

اس کالم کا ٹائٹل آپ لوگوں نے پڑھا جی ہاں ہم کسی فلمی کہانی کی بات نہیں کر رہے یہ ایک پاکستانی بزنس مین کی سچی کہانی ہے۔ چپڑاسی کی ملازمت سے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کرنے والے محمد امین نا تھانی چائنا کے ٹیکسٹائل مینیو فیکچرنگ سیکٹر میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کمبائن گروپ کے چیئرمین ہیں دنیا بھر میں اپنے قدموں کے نشانات رکھنے والے ایک ویژنری کاروباری انسان۔ ایسے لوگ صرف امریکہ، یورپ اور انڈیا میں ہی نہیں پائے جاتے پاکستان میں بھی ایسے زرخیز لوگ موجود ہیں۔

آج 2024 میں ایک بڑی بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کے سفر کی شروعات میں چلتے ہیں جب ان کے والدین 60 کی دہائی میں انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ان سے گفتگو کرتے ہوئے بہت ساری چیزیں سیکھیں آواز میں روانی اور سادگی اور شخصیت میں عاجزی۔

کہنے لگے ثاقب بھائی انڈیا میں میرے والد عبدالغفار ناتھانی کاروبار کرتے تھے کچھ دکانیں ان کی ملکیت میں تھیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جب پاکستان آئے تو سخت محنت کی۔ مزدوری کی طرز کے جسمانی مشقت والے کام کیے اسی دوران ان کی ملاقات انڈیا سے آئے ہوئے ایک دوست سے ہوئی اس سے کہا کہ آپ کی نظر میں کوئی وائٹ کالر جاب ہو تو اس کے بارے میں بتائیں۔ ان کے دوست نے ایک بڑی کمپنی کے بارے میں بتایا کہ وہاں پر کلرک کی آسامی خالی ہے لیکن ان کو تجربہ کار بندہ چاہیے اس لیے آپ انٹرویو کے دوران یہ کہیں کہ میں نے یہ کام کیا ہوا ہے تو وہ لوگ آپ کو رکھ لیں گے اور چونکہ آپ انڈیا میں بزنس کرتے رہے ہیں اس لیے اس کام کو سیکھنا آپ کے لیے دشوار نہ ہوگا۔ ان کے والد صاحب انٹرویو کے لیے پہنچے سوالات کے مناسب جواب دیے جب ان سے ایکسپیرینس کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب میں سچ بولا کہ میں نے یہ کام پہلے نہیں کیا۔ انٹرویو پینل پر موجود صاحب نے کہا کہ ہمیں تو تجربہ کار بندہ چاہیے اس لیے ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں۔

اسی پوائنٹ پر ان کے والد صاحب نے پوچھا کیا آپ کی کمپنی میں اور کوئی جاب دستیاب ہے جواب ملا ایک جاب تو ہے لیکن وہ آپ کے جیسے شخص کے لیے مناسب نہیں وہ جاب چپڑاسی کی تھی۔ امین صاحب کے درویش والد عبدالغفار ناتھانی نے اس آفر کو قبول کیا۔ چپڑاسی کی حیثیت سے کام شروع کرنے کے کچھ ہی سالوں کے بعد وہ اسی کمپنی میں جنرل مینجر بنے۔ یہ بہت بڑا انڈسٹریل گروپ تھا شپ بریکنگ اور دیگر شعبوں میں یہ گروپ کام کرتا تھا۔ اس کمپنی کے مالک کے تین بیٹے تھے اور وہ کہتے تھے کہ میرے تین نہیں چار بیٹے ہیں کہ میرا جنرل مینجر عبدالغفار نا تھانی بھی میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ میں نے پوچھا ایسی کیا خوبی تھی آپ کے والد میں جس کی وجہ سے کچھ ہی سالوں میں وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچ گئے۔ مشکل ترین حالات میں سچ بولنے کی صفت کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں اس کے علاوہ بتایا کہ ان کی ذات میں عاجزی تھی تحمل اور برداشت سے لوگوں کی بات سنتے تھے سادہ تھے زیادہ تر سفر پیدل ہی کیا کرتے تھے۔

والد صاحب کی ذات میں موجود عاجزی امین نا تھانی کی شخصیت میں بھی نظرآئی۔

دوران گفتگو محسوس ہی نہیں ہوا کہ آپ ایک بڑی انڈسٹری کے مالک کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، علم سیکھنے ہی سے آتا ہے اور تحمل اپنانے سے حاصل ہوتا ہے۔

ان کے والد صاحب کے انتقال کو آج 40 سال سے زیادہ کاعرصہ گزر گیا اس کمپنی کے مالک کا بھی انتقال ہوگیا لیکن ان کے بیٹے جو آج بھی ایک بڑے بزنس گروپ کے مالک ہیں۔ امین نا تھانی صاحب سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان کے والد صاحب کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔

محمد امین نا تھانی کی عمر اس وقت 13 سال تھی جب والد صاحب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔

گھر میں سب سے بڑے تھے والدہ محترمہ نے گھر میں سلائی کا کام شروع کیا اپنی والدہ سے شکر گزاری کا وصف سیکھا کہتے ہیں ثاقب بھائی میں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی والدہ کی زبان سے ہمیشہ الحمدللہ کا لفظ سنا ان کی شخصیت خودداری شکر گزاری اور تواضع کا حسین امتزاج ہے۔

انہی صفات کو ایک عربی شاعر نے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے

عاجزی اختیار کرو۔ تم تارے کی طرح ہو جاؤ گے جس کا عکس دیکھنے والے کو

پانی کی سطح پر نظر آتا ہے جبکہ وہ تارا اس سے بہت بلند ہوتا ہے۔

دھواں مت بنو جو فضا کی پہنائیوں میں اپنے آپ کو بلند کرتا ہے

اس کے

با وجود حقیر ہی ہوتا ہے۔

تیرہ، چودہ سال کے بچے کے لیے زندگی چیلنجز سے بھرپور تھی مختلف گھروں دکانوں سے کپڑے گھر پر لے کر آتے۔ ان کی والدہ سلائی کرتیں زیادہ تر کام پردوں اور بیڈ شیٹس کا تھا ان کی رہائش اس وقت کراچی میں کھارادر کے علاقے میں تھی پتہ چلا کہ تقریبا پانچ کلومیٹر دور ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے دودھ آدھی قیمت پر ملتا ہے۔ ہر روز پیدل وہاں پہنچ جاتے اور 10 لیٹر دودھ وہاں سے لے کر آتے کچھ دودھ پڑوسیوں کو فروخت کر دیتے اور اس طریقے سے انہیں اپنے گھر کا دودھ فری میں پڑ جاتا لیکن اس کے لیے ہر روز 10 کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا اور واپسی پہ 10 کلو وزنی دودھ بھی ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔

گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ثاقب بھائی میں کبھی بھی فارغ نہیں بیٹھا سکول سے واپسی پہ کسی چپل کی ریڑھی پر کھڑا ہو جاتا اس طریقے سے قدرت ان کو بزنس کرنے کے طریقے سکھا رہی تھی وقت گزرتا ہے باقاعدہ سکولنگ ترک کرنی پڑتی ہے اور سولہ، سترہ سال کی عمر میں کراچی سٹاک ایکسچینج میں ایک کمپنی میں چپڑاسی کی حیثیت سے اپنا کیریئر شروع کرتے ہیں۔

ایمانداری، محنت اور توکل کا سبق اپنے والدین سے سیکھ چکے تھے اس لیے جلد ہی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور تین ماہ کے بعد ہی ٹیلیفون آپریٹر کا کام ان کے ذمے لگایا گیا اسی دوران فارغ وقت میں چھٹی کے دن کپڑے بیچنے والے چپل بیچنے والے اور دیگر کاروبار سے وابستہ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے کچھ انکم بھی ہو جاتی اور کاروبار کرنے کا طریقہ بھی ذہن میں آہستہ آہستہ پالش ہوتا جا رہا تھا۔

صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اپنا چھوٹا سا پلاسٹک کا کام شروع کرتے ہیں یہ کمبائن انجینئرنگ گروپ کا آغاز تھا دلچسپ بات بتائی کہ ایک چھوٹے پلاسٹک کے کارخانے کا وزٹ کیا کارخانے کے مالک نے کہا کہ میں اس کو بیچنا چاہ رہا ہوں قیمت پوچھی تو جواب دیا گیا اٹھارہ ہزار روپوں میں یہ کارخانہ آپ کے حوالے ہے۔

امین ناتھانی صاحب گھر آتے ہیں اپنی والدہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے پاس گھر میں کوئی رقم موجود ہے وہ گھر کی ساری جمع پونجی کا حساب کرکے بتاتی ہیں کہ سترہ ہزار روپے موجود ہیں والدہ سے رقم لے کر وہ کارخانہ جو نقصان میں چل رہا تھا اس کو خرید لیتے ہیں۔

آپ رسک فیکٹر کا اندازہ لگائیں اور فیصلہ سازی کی طاقت کو دیکھیں اور پھر ہم لوگ اپنےآپ کو دیکھیں اپنا زندگی بھر کا سرمایہ لگانے کا فیصلہ کوئی عام شخص نہیں کر سکتا۔

پاکستان کے ٹاپ سی ای اوز سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی کامیابی کو صرف ایک خوبی میں بیان کیا جائے تو وہ کون سی خوبی ہے جواب آیا فیصلہ سازی کا فن یعنی صحیح وقت پر فوری طور پر فیصلہ کرنا۔ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت بڑے بڑے خواب دیکھتی ہے لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پہلا قدم بھی اٹھانے کو تیار نہیں۔

بڑی منزلوں پر پہنچنے کے لیے ساحل کے سکون کو ترک کرنا ضروری ہوتا ہے زندگی بدلنے والے کچھ فیصلے ڈسکس نہیں کرنے ہوتے بلکہ ڈیسائیڈ کرنے ہوتے ہیں

مشہور صوفی شاعر شاہ حسین اپنی کافی میں لکھتے ہیں

اپنے مالک کا فیض پائے گا، اے درویش عجز میں اضافہ کر۔

میلی ٹوپی (سر میں سمائی خودی) کو دھونے کے لیے صابن (ایک عمر) کم ہے، اسے کونے میں بیٹھ کر دھونا پڑے

رب کا ذکر، چھوٹے سینگوں والی گائے کی طرح ہے اسے تنہائی میں آ کر دوہ لے۔

چڑھے ہوئے دریا گہرے ہو گئے ہیں، تو کنارے پر کھڑی رہ گئی ہے۔

اپنے رب کا سرمست حسین کہتا ہے، جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔

پلاسٹک کا چھوٹا سا کارحانہ ایک بڑی بزنس ایمپائر میں کیا چند مہینوں میں پہنچ گیا ایسا نہیں ہوا میرے دوستو کامیابی کے اس سفر میں ابھی سات طلسمات کو عبور کرنے کا سفر باقی ہے اس کو ہم اگلے کالم میں بیان کریں گے۔

جاری ہے۔۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Hum Smog Se Kaise Bach Sakte Hain? (2)

By Javed Chaudhry