CEO Siemens Aur Pakistani Engineer (1)
سی ای او سیمنس اور پاکستانی انجینیئر (1)
ٹائم میگزین میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سیمنس کو دنیا کی دس بہترین کمپنیوں میں جگہ دی گئی ہے۔ اسی کمپنی کے سی ای او مسٹر ایرک قیرز اپنے آفس میں ایک پاکستانی انجینیئر سے محو گفتگو ہیں جو سیمنس (SIEMENS) میں پچھلے دس سال سے کام کر رہے ہیں اور ریزائن دے کر اپنا کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔
ان دونوں کے درمیان یہ تیسری ملاقات ہے ایرک قیرز ان کو اپنے فیصلے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں ڈاکٹر نقاب خان میں سیمنس میں ایسا کیا تبدیل کروں کہ آپ سیمنس چھوڑنے کا فیصلہ ترک کر دیں۔ ایسا کیا تھا اس پاکستانی انجینیئر میں کہ دنیا کی ٹاپ انجینرنگ کمپنی کا سی ای او اس شخص کا دیوانہ تھا وہ کمپنی جس میں کام کرنا ہر انجینیئر اور ٹیکنیکل آدمی کا خواب ہوتا ہے۔
امبیلہ بونیر کے گاؤں میں بھیڑ بکریاں چرانے والا "نقاب خان" نامی بچہ "انجینئر ڈاکٹر نقاب خان" کیسے بنا؟ مکہ مکرمہ کے مشہور کلاک ٹاور کے حوالے سے دلچسپ کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں۔
انہوں نے اپنی آپ بیتی پر مشتمل اپنی کتاب "ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی" میں لکھا
(آپ لوگ اس ویب سائٹ سے یہ کتاب منگوا سکتے ہیں۔ http: //www.drmnk.com)
"مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے جنوب میں مشہور کلاک ٹاور کی کنسٹرکشن زورو شور سے جاری تھی۔ ہماری اپنی کمپنی کو ہماری نمائندہ کمپنی کے ذریعے چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے سات سال گزر گئے تھے۔ سعودی عرب، پاکستان، چین اور اردگرد کئی ممالک میں کچھ دوستوں اور دوست نما دشمنوں کے ذریعے، اچھا برا ہی سہی، کچھ نام بن گیا تھا۔ میرے ایک پرانے جاننے والے نے مجھے بتایا کہ اس پروجیکٹ میں پاور کنٹرول اور آٹومیشن کی ضروت ہے اور بہت ساری کمپنیاں، جن میں سیمنس، شنائیڈر، اے بی بی اور جی ای شامل تھیں، تگ ودو کررہی تھیں۔ جس کمپنی کے سکوپ میں یہ کام تھا ان کے لیے میں نے کچھ ہفتے پہلے ریاض میں پرانے وزیر دفاع پرنس خالد بن سلطان کے محل کا پاور اور کنٹرول سسٹم کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔
چند ہفتوں میں سو فی صد کسٹمر اور کنسلٹنٹ کی توقعات اور فکشنز کے مطابق جب اس پروجیکٹ کا ہینڈنگ اور رپورٹ میں نے ان کے حوالے کی تو ان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی اور اپنے سارے ڈویژنز کو اس قسم کے کام آئندہ ہمیں دینے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ مکہ مکرمہ میں کلاک ٹاور کا پروجیکٹ اسی وجہ سے نسبتاً آسانی سے ہمیں ملا تھا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کا دورانیہ چونکہ کافی طویل تھا اس لیے ہم نے مل کر اس پر اتفاق کیا تھا کہ جیسے جیسے بلڈنگ تیار ہوگی ویسے ویسے ہمارا کام بھی ہوگا۔
پہلے دو سال میں ہمارا سسٹم ڈیزائن ہوا اور ہمارے سارے ایکوپمنٹ سائٹ پر پہنچائے گئے، مگر کسٹمر کی طرف سے کچھ معاملات پینڈنگ تھے اس لیے ہمارے سسٹم کی انسٹالیشن میں تاخیر ہوتی گئی۔ جب باقی سب کچھ تیار ہوا تو کچھ مہینے ہمارے انجینئرز اور پاور سسٹمز کے گروپ نے کوآرڈینیشن اور آپس کے بلیم گیم اور جھگڑوں میں گزار دیئے۔
آج وہ وقت آگیا تھا کہ آخری تنکے نے اونٹ کی کمر توڑ دی تھی۔ مکہ مکرمہ کی شہری دفاع نے سعودی بن لادن گروپ کو نوٹس دیا تھا کہ اگر دس دن میں پورا کنٹرول اور آٹومیشن کا نظام مکمل طور پر خودکار نہ ہوا تو یہ عوامی جان و مال کے لیے خطرہ ہوگا۔ اس لیے یہاں پر جتنے بھی ہوٹل، شاپنگ سینٹرز وغیرہ ہیں وہ خالی کرانے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر مہینے کم از کم پچاس سے سو ملین سعودی ریال کا نقصان ہونا تھا۔
اب بات بہت گمبھیر ہوگئی تھی۔ ہمارے سویچ گیئرز کنٹریکٹر، جو ہمارے کسٹمر بھی تھے، کے ساتھ مجھے بھی سعودی بن لادن گروپ کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا تھا۔ میں جب ان لوگوں کے ساتھ میٹنگ روم میں داخل ہوا تو سویچ گیئرز کنٹریکٹر کے ساتھ سختی سے بات چیت جاری تھی۔
محمد افانہ، جو اس میٹنگ کو لیڈ کر رہا تھا، کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد میں نے ان کو اپنا بزنس کارڈ دیا جو اس نے دیکھے بغیر میز پر رکھ لیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت یا دوسرے الفاظ میں جنگ میں مصروف رہا۔
"مجھے اس مسئلے کا حل چاہیے۔ میں دس ملین ریال بھی خرچ کرنے کو تیار ہوں، مگر کسی بھی صورت میں یہ مسئلہ اب حل ہونا چاہیے"۔
"آپ کو ایک ریال بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں"۔
میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا۔
"آپ کون؟" پھر میز پر پڑا ہوا میرا بزنس کارڈ اٹھایا۔
"اچھا آپ ڈاکٹر نقاب خان ہیں"۔
"جی سر۔۔ " میں نے بات مزید آگے بڑھائی۔ "یہ کام بغیر کسی مزید خرچ کے مکمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے"۔
" آپ کو مجھ سے کیا چاہیے؟"
مجھے یہ جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کا اور آپ کی سائٹ کے لوگوں کا مکمل تعاون چاہیے اور آپ کا موبائل نمبر چاہیے تا کہ اگر میرے ساتھ ان میں سے کسی کا تعاون نہ ہوا تو میں آپ سے بات کرسکوں۔ میں انشاءللہ یہاں سے نکل کر سیدھا مکہ مکرمہ جاؤں گا اور وہاں سے تب واپس آؤں گا جب دفاع المدنی کے ذمہ داروں سے آپ کو سو فی صد فنکشنل سکاڈا سسٹم کا سر ٹیفکیٹ مل جائے"۔
مسٹر افانہ نے کچھ سیکنڈ میرے چہرے کا جائزہ لیا۔ پھر کسی کو فون کرکے میرے لیے ہوٹل میں کمرہ بک کرنے کا کہا۔ اپنا بزنس کارڈ دیا اور ہم لوگ آفس سے نکل گئے۔ یہ شام کا وقت تھا۔ ہمارے دو انجینئر سائٹ پر تھے۔ میں نے ان کو کال کیا، صورت حال سمجھائی اور بتایا کہ وہیں رک جائیں۔ پھر میں نے گھر سے کپڑے لیے اور مکہ پہنچ گیا۔
کنٹرول روم میں تمام متعلقہ افراد پہلے سے ہی میرے منتظر تھے۔ میں اس سائٹ پر کچھ سال پہلے گیا تھا تو لوگوں سے بس رسمی سا تعارف تھا۔ کرسیاں قریب کرکے سب بے یقینی کے عالم میں میری طرف دیکھ رہے تھے۔
ہر کمپنی کے سب سے بڑے لیول، جن میں بن لادن کے شیخ بھی شامل تھے، نے ان لوگوں کو میرے ساتھ تعاون کی تاکید کی تھی اور یہ کچھ مزید یقینی بنانے کے لیے اپنے خاص نمائندے بھی بھیجے تھے جو لمحے لمحے کی خبریں ان کو دے رہے تھے۔ میں نے بات یہاں سے شروع کی کہ ہمارے پاس دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ پرانی چال پر ساری کمپنیاں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتی رہیں اور کسی طرح یہ ہفتہ گزار کر فیل ہو جائیں۔ اس صورت میں ہم سب بیٹھے ہوئے لوگوں کا اس بلڈنگ میں یہ آخری داخلہ ہوگا۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ ہم شفاف طریقے سے ایک دوسرے کے سسٹم کو دیکھیں، مسئلے کو سمجھیں، سارے مل کر حل کریں اور آگے بڑھیں۔ اس طرح انشاءاللہ ہم سسٹم کو ایک ہفتے میں مکمل فنکشنل کردیں گے اور سارے کامیاب ہوں گے۔
یہ بات کرکے پھر میں نے وہاں سائٹ کے پروجیکٹ منیجر سے کہا کہ اس پورے معاملے کو آپ لیڈ کریں گے اور میں آپ کو صرف دیکھوں گا، اگر مجھے بات کرنے کی ضرورت ہوئی تو کروں گا ورنہ خاموش رہوں گا۔
ایک ایک کرکے سسٹم کی ٹیسٹنگ شروع ہوئی۔ جہاں کوئی خرابی آتی سویچ گیئرز کے لوگ اس کو درست کرتے۔ اگر پروگرام کا مسئلہ ہوتا اس کو ٹھیک کیا جاتا۔ اس طرح دو دن میں تقریباً تمام خرابیاں اور ان کے حل پتہ چل گئے تھے ہم لوگ دن رات کام کرتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے سوتے پھر بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی۔
پورے چھ دن کے بعد ہم نے پورا سسٹم آٹو موڈ میں ٹیسٹ کیا اور پھر دفاع المدنی کو بھی پورا سسٹم ٹیسٹ کرا کر بہترین طریقے پر سسٹمز کی کارکردگی کا سر ٹیفکیٹ لیا۔ ان چھ دنوں میں بھاگ دوڑ کی وجہ سے میرا وزن پانچ کلو کم ہوگیا تھا۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ جدہ جاکر میں دو دن سویا۔
تیسرے دن مسٹر افانہ کی کال آئی۔ انہوں نے دفتر میں ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
دفتر پہنچا تو اس نے مجھے گلے لگالیا۔ پھر کہا کہ اس دن جب تم نے بات کی تھی تو میں نے تمہارے چہرے کی طرف دیکھا تھا، اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یہ شخص جوکچھ بول رہا ہے وہ انشاءاللہ کرکے دکھادے گا"۔
انجینئر ڈاکٹر نقاب خان نے زندگی کو ہمیشہ متحرک رکھا۔ گاؤں سے کراچی آئے، ایران گئے، اور نئی ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کی۔ گویا وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر انسان ٹھہر جائے تو ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح اس میں بدبو آجاتی ہے۔
چلی کے مشہور نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا (Pablo Neruda) نے اسی پیغام کو خوبصورتی سے اپنی نظم میں بیان کیا ہے۔
تم آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہو
اگر تم سفر پر نہیں نکلتے
اگر تم کتابیں نہیں پڑھتے
اگر تم زندگی کی پکار پر دھیان نہیں کرتے
اگر تم اپنی ہی قدر کرتے اپنی توصیف نہیں کرتے
تم آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہو
جب تم اپنی انا کو ملیا میٹ نہیں کرتے
جب تم دوسروں کی مدد قبول نہیں کرتے
تم آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہو
جب تم اپنی عادتوں کے غلام ہو جاتے ہو
ہر سویر اسی ایک راستے پر چلتے ہو
جب تم اپنے روزمرہ کا چلن نہیں بدلتے
تم آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہو
جب تم جذبے کی شدت سے کنارہ کش ہو جاتے ہو
اور اس کی ہنگامہ خیزی سے الگ ہو جاتے ہو
اور تم ان سے جدا ہو جاتے ہو
جو تمہاری آنکھوں میں آنسو بھرتے ہیں
اور تمہارے دل کی دھڑکن کو تیز کرتے ہیں
تم آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہو
اگر تم وہ جو طے نہیں ہے اپنےآپ کو اس کے سپرد نہیں کرتے
اور اگر تم ایک خواب کا تعاقب نہیں کرتے
اور اگر تم اپنے آپ کو۔۔
زندگی میں ایک بار
اجازت نہیں دیتے کہ تم فرار ہو جاؤ
تو تم مرنے لگتے ہو آہستہ آہستہ"
(جاری ہے)