Rapid Growth
ریپیڈ گروتھ
پیٹر (میرا سابقہ باس) ایک پڑھا لکھا تائیوانی تھا۔ چیزوں کو ہی نہیں لوگوں کے رویئے کو بھی گہرائی کے ساتھ دیکھنے کا عادی تھا۔ ایک اتوار والے دن ہم کوئی اور تفریح نہ ہونے کی وجہ سے ایک سٹاف (لڑکی) کے گاؤں میں اسے گھر والوں سے ملوانے کا بہانہ کر کے چلے گئے۔ لڑکی کے والدین زمیندار تھے۔ لونگیئن نامی پھل (لیچی کا چائینیز ورژن۔ تصویر کمنٹ میں) کا موسم تھا۔ اسے درختوں سے توڑتے رہے۔ مچھلیاں پکڑیں، ٹیوب ویل کی چھت پر بیٹھ کر باربی کیو کیا اور خوشگوار دن گزار کر واپس آ گئے۔
لڑکی کے گھر جاتے ہوئے ایک دریا کے کنارے بنی ہوئے سڑک کے ساتھ سفر کرنا تھا۔ سڑک ایک طرف سے بانسوں کے جنگل میں گھری ہوئی تو دوسری طرف دریا کے کنارے لگے ہوئے خود رو پودوں اور سرکنڈوں سے۔ ہمیں راستے میں ایک چھوٹا سا سانپ ملا جو دریائی طرف سے نکل کر کچی سڑک پر آگے کہیں جا رہا تھا۔ سانپ کو یوں آزاد گھومتا دیکھنا ہم سب کیلیئے خوشگوار تجربہ تھا۔ سانپ دو فٹ سے کم یا بیش تھا اور ہم اس کی رفتار یا حملہ کرنے کی استطاعت سے آگاہ ہو کر کار سے اتر کر اسے دیکھنے، خوش ہونے اور تصویریں بنانے میں لگ گئے۔ سانپ بانسوں کی طرف بھاگ نکلا تو ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
دوسرے دن دفتر میں اس واقعہ کے شاہد سب لوگ انتہائی بیتابی کے ساتھ ایک دوسرے کو اس واقعہ کی جزئیات اور اپنے مشاہدات سنا رہے تھے۔ اتفاق سے ہمارے پاس اسی دن ایک ایرانی مہمان بھی آیا ہوا تھا۔ اسے میں نے کل والے سانپ کا حال سنایا تو بازو سے اشارہ کر کے لمبائی بھی بتائی۔ پیٹر آہستگی سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا، سلیم میں صبح سے سب لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں لیکن جس طرح تیرا سانپ سائز میں بڑھ رہا ہے یہ شام تک تین چار میٹر کا ہو چکا ہوگا۔
**
ہم دفتر کے سارے لوگ سال میں دو بار ایک سیاحتی دورے پر جاتے تھے۔ اس دورے کے اخراجات دفتر آئے ہوئے سیمپلز کو بیچ کر پورے کیئے جاتے تھے۔ دورہ پانچ سے چھ دن پر مشتمل ہوتا تھا جس میں ہوائی ٹکٹ، ہوٹلنگ، سیاحتی بسیں اور ٹور کمپنیوں کی گائیڈنس شامل ہوتی تھی۔
ہم ایک بار ینان صوبے میں گئے۔ برما کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے اس صوبے کے پھل، سبزیاں اور پھول مجھے ہمارے اپنے اپنے نظر آتے تھے۔ خاص طور پر آلوبخارا میرا پسندیدہ رہا۔ جس کا سائز بھلے ہمارے ہاں جیسا نہ تھا مگر ذائقہ بالکل ویسا ہی۔ تاکہ راستے میں مجھے کھانے پینے کی قباحت نہ ہو میرے بیک پیک میں ہر وقت کچھ ٹونا فش کے ڈبے، ایک آدھا لیموں، پیاز اور ٹماٹر اور ان سب کو کاٹنے کیلیئے چھری موجود رہتی تھی اور میں اس خود مختاری کی وجہ سے کسی پر بوجھ نہیں بنتا تھا اور نہ ہی سفر میں کسی کیلیئے مسئلہ۔
ایک سیاحتی مقام پر گھومنے پھرنے کے بعد ہوٹل واپسی کیلیئے بس میں سوار ہوئے- آخری نشستوں پر باس، اس کی بیوی اور میں تھا جبکہ باقی کی بس میں دفتر کی لڑکیاں اور ایک چند لڑکے۔ کل تعداد چالیس سے زیادہ ہوگی۔ سیٹ پر بیٹھنے سے پہلےمیں نے پہلے بیک پیک پھینکا، پھر خود سیٹ پر ایسے گرا جیسے بیحال ہوا شخص گرتا ہے۔ بیگ میں لمبوترے پھل والی چھری کا رخ اوپر کی طرف تھا جو میرے بازو میں پیوست ہوگئی۔
چھری کا زخم ڈیڑھ سینٹی میٹر ہوگا اور گہرائی شاید چار سے پانچ سینی میٹر ہوگی۔ چھری لگتے ہی میری چیخ نکلی تھی۔ ساری بس کے لوگ میری طرف متوجہ ہوئے۔ قریب والوں نے دیکھا تو ان کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ ساتھ والوں نے اگر زخم کا قیاس ڈیڑھ بائی پانچ سینٹی میٹر کیا تو بات بس کی آخری سواری تک پہنچتے پہنچتے پانچ بائی دس سینٹی میٹر ہو چکی تھی۔ پیٹر اس بار بھی ساتھ ہی تھا۔ کہہ رہا تھا اوئے، بس کے ہوٹل پہنچتے پہنچتے تیرا زخم فٹ بھر چوڑا اور میٹر بھر گہرا بن چکا ہوگا۔