Zameen Ke Maalik, Kainat Ke Ghulam
زمین کے مالک، کائنات کے غلام
ہم انسان اپنی زمین پر کس قدر اہم اور طاقتور بنے پھرتے ہیں۔ خود کو تہذیب کا عروج سمجھتے ہیں، اپنی تاریخ کو عظمت کی کہانی قرار دیتے ہیں اور اپنی دنیا کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ باقی کائنات کو اس پر رشک کرنا چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس زمین کی حیثیت کائنات میں اتنی سی ہے جیسے ایک ذرے کی کسی وسیع صحرا میں۔ افسوس، ہم اپنی یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے اپنی انا کے محل کھڑے کر رکھے ہیں اور ان محلوں میں بیٹھ کر کائنات کو اپنی نگاہِ حقارت سے دیکھتے ہیں۔
یہ کائنات، جو 13.8 ارب سال پہلے ایک دھماکے سے وجود میں آئی، آج بھی پھیل رہی ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے، دو کھرب کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے۔ ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ہر ستارے کے گرد زمین جیسے کئی سیارے گردش کر رہے ہیں۔ پھر بھی، ہم زمین کے انسان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ صرف ہمارے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم خود کو کائنات کے مرکز میں دیکھتے ہیں، جیسے ہر ستارہ ہمارے لئے روشن ہوا ہو اور ہر کہکشاں ہمیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔
زمین، جسے ہم نے اپنی ذات کا محور بنایا ہوا ہے، نظام شمسی کے بے شمار سیاروں میں سے محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگر پورے نظام شمسی کو ایک سکے کی شکل دی جائے تو زمین کا سائز ایک دھبے سے زیادہ نہ ہوگا اور یہ نظام شمسی بھی کہکشاں کی وسعتوں میں ایک قطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ہماری خودپسندی یہاں رکتی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا وجود اتنا اہم ہے کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی شاید ہم تھے۔
ہم نے اپنے اس غرور کو زمین پر بھی نافذ کر رکھا ہے۔ ہم اپنی سرحدوں کے لیے لڑتے ہیں، وسائل کے لیے قتل کرتے ہیں اور نظریات کے اختلاف پر ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ہماری انا اس قدر بلند ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہمارے جیسا نہیں سوچتا، وہ جینے کے قابل نہیں۔ ہمارے سیاستدان زمین کے چند میل کے ٹکڑوں کے لیے جنگوں میں لاکھوں انسانوں کی قربانی دینے کو تیار ہیں، جیسے زمین کے ان ٹکڑوں کی کائنات کے سامنے کوئی اہمیت ہو۔
ہماری دنیا، جسے ہم نے مذاہب، قوموں، نسلوں اور زبانوں کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتی کہ یہ سب کائنات کے مقابلے میں بے معنی ہیں۔ یہ سرحدیں، یہ اختلافات، یہ نفرتیں، کائنات کے پھیلتے ہوئے خلا میں ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر بھی، ہم نے اپنے مفروضہ اختلافات کو اتنی اہمیت دی ہوئی ہے کہ ان پر خون بہانا ہمارے لیے معمول کی بات ہے۔
کائنات ہمیں روز یاد دلاتی ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں۔ ہماری زمین پر روزانہ چھوٹے شہاب ثاقب گرتے ہیں اور ہم انہیں ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ سمجھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ تقریباً 65 ملین سال پہلے ایک بڑے شہاب نے زمین پر ڈائنوسار کا وجود مٹا دیا تھا؟ وہ ڈائنوسار، جو ہم سے کہیں زیادہ طاقتور تھے، وہ اس زمین پر 18 کروڑ سال تک حکمرانی کرتے رہے، مگر ایک لمحے میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اور ہم؟ ہماری پوری انسانی تاریخ بمشکل دو لاکھ سال پرانی ہے۔ پھر بھی، ہمارا غرور اس کائناتی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
سائنسدان ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کائنات کا ہر گوشہ بے حد وسیع اور لاتعداد رازوں سے بھرا ہوا ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں، جو ہماری کہکشاں کے قریب ترین ہے، ہم سے 2.5 ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی کو لاکھوں سال درکار ہوں گے۔ اس کے باوجود، ہم زمین کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے خلا میں اپنی حکومت کے جھنڈے گاڑنے کے خواب دیکھتے ہیں۔
یہاں ایک اور تلخ حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ہم زمین کے وسائل کو بے رحمی سے لوٹ رہے ہیں، ماحول کو تباہ کر رہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ناقابلِ رہائش سیارہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ زمین، جسے کائنات نے ہمیں عارضی طور پر دیا ہے، ہم اسے اس طرح برباد کر رہے ہیں جیسے ہمارے پاس رہنے کے لیے اور بھی بہت سی زمینیں ہوں۔ ہم نے اپنے جنگل کاٹے، اپنی ہوا کو زہر آلود کیا اور اپنی زمین کو زہریلے مواد سے بھر دیا۔ پھر بھی، ہم اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔
کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر لمحہ، کائنات ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہو رہی ہے۔ ہماری موجودگی اس پھیلاؤ میں ایک لمحہ بھر کا حصہ ہے اور ہم اس لمحے کو بھی اپنی خود غرضی کے لیے ضائع کر رہے ہیں۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہر ستارہ، ہر کہکشاں اور ہر سیارہ اپنے اصولوں کے تحت وجود رکھتا ہے، مگر ہم نے اپنی زندگی کو اصولوں سے عاری کر دیا ہے۔
یہ تمام حقائق ایک آئینہ ہیں، مگر ہم نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہم اپنی زمین کو، اپنی زندگی کو اور اپنی دنیا کو اس طرح برتتے ہیں جیسے ہم ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے۔ مگر سچ یہ ہے کہ کائنات کے عظیم نظام میں ہماری حیثیت کچھ بھی نہیں۔ ہم سب وقت کے ایک چھوٹے سے ذرے کی مانند ہیں، جو جلد یا بدیر فنا ہو جائے گا۔
یہ کائنات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کچھ ہیں۔ انسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو سمجھیں، اپنی کمزوریوں کو تسلیم کریں اور اپنے غرور کو مٹا کر دوسروں کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ مگر شاید، یہ سبق ہماری انا کے لیے بہت تلخ ہے۔ ہم، زمین کے مالک بننے کی کوشش میں، کائنات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔