Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Qurbani Ka Falsafa Ya Haqiqat Ki Talkh Tasweer?

Qurbani Ka Falsafa Ya Haqiqat Ki Talkh Tasweer?

قربانی کا فلسفہ یا حقیقت کی تلخ تصویر؟

یہ جملہ، "کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے"، بظاہر بہت گہرا اور فلسفیانہ لگتا ہے۔ ہمیں بچپن سے ہی اس جملے کو سچ ماننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ امتحان میں کامیابی چاہتے ہیں؟ نیند اور کھیل قربان کریں۔ اچھی نوکری چاہیے؟ ذاتی زندگی اور سکون چھوڑ دیں۔ یہ جملہ زندگی کے اصولوں میں ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن کیا یہ واقعی ایک حکمت بھرا قول ہے یا محض ایک ایسا بہانہ جو ناانصافی کو قبول کروانے کا ذریعہ ہے؟

زندگی کی کہانیوں میں اس جملے کو بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔ کامیابی کی ہر کہانی کے پیچھے کسی کی قربانی کی داستان سنائی جاتی ہے۔ لیکن ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیں: یہ قربانی ہمیشہ کون دیتا ہے؟ کیا وہ شخص جو پہلے سے مراعات یافتہ ہے، یا وہ جو پہلے ہی وسائل سے محروم ہے؟

اگر ہم نظام کو دیکھیں تو قربانی کا فلسفہ غریبوں اور کمزوروں کے لیے ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے۔ مزدور اپنی صحت، وقت اور خوشیاں قربان کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ لیکن ان بچوں کا مستقبل بھی کیا بدلتا ہے؟ یا وہ بھی ایک اور نسل کے مزدور بن جاتے ہیں؟

اسی طرح اگر ریاست کی سطح پر دیکھیں، تو یہ فلسفہ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔ حکمران عوام کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیے انہیں قربانیاں دینی ہوں گی۔ لیکن یہ قربانی کون دیتا ہے؟ عوام اور اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ وہی حکمران جو ان قربانیوں کو اپنی کامیابی کے تمغے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

"قربانی" کا لفظ اس قدر معمولی ہو چکا ہے کہ اب یہ کسی بھی ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف، وہی حکمران اپنی مراعات میں اضافہ کرتے ہیں، اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے ہیں اور بہترین طبی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔

عورتوں کے لیے بھی یہ فلسفہ ایک خاص انداز میں لاگو کیا جاتا ہے۔ "ماں بننے کے لیے اپنے خواب قربان کرو، خاندان کی خوشی کے لیے اپنی خواہشات چھوڑ دو"۔ عورتیں اپنی زندگی کو ایک مستقل قربانی کے عمل میں بدل دیتی ہیں، لیکن انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان قربانیوں کا صلہ کیا ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا قربانی کا یہ فلسفہ واقعی کوئی حقیقت ہے، یا یہ صرف ایک خوبصورت پردہ ہے جو ظلم اور استحصال کو چھپاتا ہے؟ ایک مزدور اپنی پوری زندگی قربان کرتا ہے، لیکن اس کی مزدوری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ایک طالب علم اپنی نیند قربان کرتا ہے، لیکن اسے نوکری کے مواقع نہیں ملتے۔ ایک عورت اپنے خواب قربان کرتی ہے، لیکن اسے اپنی محنت کا اعتراف نہیں ملتا۔

یہ جملہ ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ہر شخص ایک نہ ختم ہونے والے دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ اس دوڑ میں کچھ لوگ اپنی محنت سے آگے بڑھتے ہیں، جبکہ کچھ کی قربانیاں کسی اور کی کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قربانی کا فلسفہ اکثر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو کمزور ہیں۔ طاقتور طبقہ اس فلسفے کو اپنی طاقت کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی مشکلات ایک عظیم مقصد کے لیے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشکلات ان کے لیے ایک مستقل حقیقت بن جاتی ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم اس فلسفے پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی قربانی ہمیشہ ضروری ہے؟ یا ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں یہ فلسفہ صرف ایک عذر ہے؟ جب تک ہم اس پر سوال نہیں اٹھائیں گے، تب تک ناانصافی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

تو اگلی بار جب آپ یہ جملہ سنیں کہ "کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے"، تو ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں: یہ قربانی کون دے رہا ہے؟ اور اس کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ شاید یہ سوال ہی اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کا پہلا قدم ہو۔

Check Also

Gold Jiska Hai, Wo Bhi Hamara Larka Hai

By Asif Masood