Insaf Aik Khawab, Qanoon Ek Haqeeqat
انصاف ایک خواب، قانون ایک حقیقت
پاکستان میں انصاف ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیشہ شروع ہوتی ہے مگر کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر سیاسی تقریر، ہر انتخابی منشور اور ہر نئی حکومت کے دعوے "انصاف کی فراہمی" پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ انصاف بس پوسٹرز اور نعروں تک محدود رہتا ہے۔ دوسری طرف، قانون ایک ایسی حقیقت ہے جو صرف کاغذ پر موجود ہے یا پھر صرف ان لوگوں کے لیے جو طاقتور نہیں ہیں۔
ہمارے ملک میں انصاف کی تلاش ایسی ہی ہے جیسے صحرا میں پانی تلاش کرنا۔ بڑے دعوے، چھوٹے نتائج۔ کوئی بھی طاقتور فرد جب قانون کے شکنجے میں آتا ہے، تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ایک دن بعد ہم سنتے ہیں کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے، پچھلے بیس سال سے چھپتی ہوئی کسی بیماری کا شکار اور یہ بیماری بھی تب ہی یاد آتی ہے جب عدالت بلاتی ہے۔ کیا irony ہے کہ ہمارا نظام انصاف ان کے لیے ہے جو بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ سکتے ہیں اور قانون ان کے لیے ہے جو گرفتاری کے بعد ہتھکڑیاں پہن کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں قانون کو مذاق بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ کسی طاقتور شخص کے خلاف "سخت کارروائی" کی جائے گی۔ یہ کارروائی زیادہ سے زیادہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس کا کیس ایک کمیشن کو سونپ دیا جاتا ہے۔ کمیشن رپورٹ لکھتا ہے، رپورٹ شائع نہیں ہوتی اور جب شائع ہوتی ہے، تو عوام کو سمجھ آتا ہے کہ اس میں کچھ نیا نہیں۔ آخر میں سب وہیں آ کر ختم ہوتا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔
عدالتوں میں بھی انصاف کی حالت کسی کہانی سے کم نہیں۔ ایک عام شہری اگر کسی معمولی جرم میں گرفتار ہو تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مہینے گزارنے پڑتے ہیں۔ مگر اگر آپ ایک بڑے بزنس مین یا سیاستدان ہیں، تو سب کچھ مختلف ہے۔ ضمانت فوراً، مقدمے میں التوا اور آخر میں بریت۔ یہ وہ قانونی "معجزہ" ہے جو صرف یہاں ممکن ہے۔
ہمارے معاشرے میں "قانون کی حکمرانی" کا مطلب صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اس قانون کو موڑنا جانتے ہیں۔ قانون کتابوں میں لکھا ہوا ہے، مگر حقیقت میں یہ صرف ان کے لیے ہے جو کسی عدالت میں جا ہی نہیں سکتے۔ جن کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں ہیں، وہ انصاف کہاں سے لائیں؟ اور جن کے پاس پیسے ہیں، وہ انصاف خرید لیتے ہیں۔
پاکستان میں irony کی انتہا اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب ایک سیاستدان "انصاف کی حکمرانی" کی بات کرتا ہے۔ یہی وہ سیاستدان ہے جس نے اپنے دور حکومت میں ہر وہ کام کیا جو قانون کے خلاف تھا۔ یہی وہ شخص ہے جو اپوزیشن کے لیے جیلوں کے دروازے کھولتا ہے اور اپنے لیے بیمار ہونے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ انصاف کی یہ کہانی اتنی بار دہرائی گئی ہے کہ عوام کو اب یہ مزاحیہ لطیفہ لگتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ پاکستان میں انصاف کب ہوتا ہے؟ شاید تب جب میڈیا کا دباؤ زیادہ ہو یا عوام کی ناراضی بڑھ جائے۔ مگر اس انصاف کی عمر ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ جیسے ہی عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، انصاف بھی اپنی اصل جگہ واپس چلا جاتا ہے: یعنی کہیں نظر نہ آنا۔
قانون کے ساتھ یہاں مذاق اتنا عام ہے کہ اس پر کوئی حیرانی بھی نہیں ہوتی۔ اگر آپ کے پاس پیسہ اور طاقت ہے، تو قانون آپ کا دوست ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں، تو قانون ایک ایسا جج بن جاتا ہے جو ہمیشہ آپ کے خلاف فیصلہ دے گا۔
یہاں عدالتوں میں مقدمات کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید فیصلہ آنے تک مدعی یا مدعا علیہ دونوں ہی مر چکے ہوں گے اور اگر فیصلہ آ بھی جائے، تو اس پر عملدرآمد کروانے کے لیے آپ کو ایک اور مقدمہ دائر کرنا پڑے گا۔ یہی وہ چکر ہے جس میں عام پاکستانی پھنسا ہوا ہے۔
پاکستان میں انصاف کی حالت دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ یہ ایک خواب ہے جو کبھی حقیقت نہیں بنے گا۔ قانون کی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف کاغذ پر لکھا ہوا ایک نظام ہے، جو عمل میں آتے ہی اپنی وقعت کھو دیتا ہے اور اس سب کے باوجود، ہم ہر نئے الیکشن میں یہ امید لگاتے ہیں کہ شاید اس بار کچھ بدلے گا۔
لیکن تبدیلی کیسے آئے گی؟ وہی لوگ جو قانون بناتے ہیں، اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہی لوگ جو انصاف کے رکھوالے ہیں، خود قانون کے شکنجے سے باہر ہیں اور عوام؟ عوام بس تماشائی ہیں، جو ہر روز یہ کھیل دیکھتے ہیں، سر ہلاتے ہیں اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
یہاں انصاف کا حصول صرف ان کے لیے ممکن ہے جو اپنی آواز بلند کر سکیں، اپنی بات آگے لے جا سکیں اور جو یہ نہ کر سکیں، وہ اس نظام کے غلام رہتے ہیں۔ پاکستان میں انصاف ایک مذاق اور قانون ایک کھیل بن چکا ہے اور اس کھیل کے اصول صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اسے کھیل رہے ہیں۔
شاید ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ انصاف ایک خواب ہے اور قانون ایک حقیقت جسے طاقتور اپنی مرضی سے بدل سکتے ہیں۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں بدلیں گے، یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا اور عوام یونہی ہارتے رہیں گے۔