Badzubani Ka Culture, Siasat Aur Sahafat Ka Naya Mayari Zawal
بدزبانی کا کلچر، سیاست اور صحافت کا نیا معیاری زوال
ہمارے معاشرے میں سیاسی اور صحافتی گفتگو کی سطح اس قدر گر چکی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا بھی ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ آج کل کے حالات ایسے ہیں کہ نہ تو سیاست کے میدان میں شائستگی باقی رہی ہے اور نہ ہی صحافت کے قلم میں وہ وقار جو کسی زمانے میں اسے سماج کی شعوری روشنی قرار دیتا تھا۔ حالیہ دنوں میں ایک معروف کالم نگار نے اپنے تحریری شعلوں سے جو منظر پیش کیا، وہ ہمارے سیاسی اور صحافتی زوال کی ایک اور افسوسناک مثال ہے۔ انہوں نے الفاظ کے چناؤ میں جس بے باکی اور غیر مہذب رویے کا مظاہرہ کیا، وہ معاشرتی مکالمے کے معیار کو مزید نیچے لے جانے کی ایک اور کوشش معلوم ہوتی ہے۔
ایک سیاسی خاتون شخصیت کو "جادو کا کارخانہ" کہا گیا، کارکنوں کو "مؤکل، جنات، بھوت" جیسے القابات دیے گئے اور ایک اہم سیاسی رہنما کو "ڈونکی راجہ" کے لقب سے نوازا گیا۔ اگر یہ الفاظ کسی مزاحیہ پروگرام کا حصہ ہوتے، تو شاید کسی کو ہنسی آجاتی۔ لیکن جب یہ کسی بڑے اخبار یا پلیٹ فارم پر شائع ہوں، تو ان کی حیثیت نہ صرف سوالیہ نشان بن جاتی ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی اس کی شدید مذمت لازم ہو جاتی ہے۔ طنز و مزاح اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن ان کے لیے ایک حد بندی اور اخلاقی معیار کا ہونا ضروری ہے۔ جب آپ ان حدود کو عبور کرتے ہیں، تو نہ صرف آپ کی تحریر اپنی وقعت کھو دیتی ہے بلکہ آپ کا قلم بھی اپنے مقصد سے بھٹک جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ صرف ایک فرد یا ایک ادارے تک محدود نہیں رہا۔ بدزبانی، نام بگاڑنے اور مخالفین پر طنز کے پردے میں ذاتی حملے کرنے کا یہ کلچر اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب اس کے بغیر کوئی سیاسی بات مکمل ہی نہیں سمجھی جاتی۔ یہ رویہ نیا نہیں، بلکہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔ یاد کریں جب بھٹو صاحب نے اصغر خان کو "آلو" کہا تھا۔ بینظیر بھٹو نے فاروق لغاری کو "گو بابا گو" کہہ کر مخاطب کیا۔ نواز شریف کو "ضیاء کا روحانی بیٹا" کہا گیا اور انہوں نے آگے چل کر زرداری کو "مسٹر ٹین پرسنٹ" اور بینظیر کو "سیکیورٹی رسک" قرار دیا۔ شہباز شریف کے مشہور الفاظ کہ وہ زرداری کا "پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹیں گے" تو اب سیاسی تاریخ کا ایک افسوسناک حصہ ہیں۔
لیکن یہ سب اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب نون لیگ نے بینظیر بھٹو کی ایڈیٹ شدہ جعلی تصاویر والے پوسٹرز کو ہیلی کاپٹر سے جلسے میں گرا کر مخالفین کی تذلیل کی۔ اس رویے نے نہ صرف سیاست بلکہ معاشرے میں بھی ایک نیا زہر شامل کیا۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ یہ زہر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ ہم میں سے اکثر اسے پہچاننے سے بھی قاصر ہیں۔
اور پھر اس زہریلے کلچر کو ایک نئی سطح پر لے جانے کا کارنامہ جدید سیاست کے رہنماؤں نے انجام دیا۔ "ڈیزل"، "چیری بلوسم"، "زرداری بیماری"، "بلاول بے بی"، "مریم میرا نام نہ لو، تمہارا شوہر ناراض نہ ہو جائے" جیسے جملے آج کل عام ہو چکے ہیں۔ یہ صرف الفاظ نہیں ہیں، یہ ایک پورے معاشرتی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں کسی کی عزت یا شخصیت کو نشانہ بنانا معمول کی بات بن چکی ہے۔ ایک طرف رہنما ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے پیروکار ان کو مزید نچلی سطح پر لے جا کر اپنے مخالفین کی تضحیک کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف سیاست تک محدود نہیں، بلکہ اس کا اثر صحافت پر بھی پڑا ہے۔ صحافت، جو کبھی حقائق کو عوام تک پہنچانے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، اب اکثر سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ کالم نگار اور اینکر حضرات اب ایسے القابات گھڑنے میں مصروف ہیں جو ان کے اپنے پسندیدہ رہنماؤں کے مخالفین کو نیچا دکھانے میں مددگار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت اپنی وقعت کھو رہی ہے اور عوام اس پر اعتماد کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ بدزبانی کا کلچر نہ صرف معاشرتی زوال کی نشانی ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر کس حد تک گر چکے ہیں۔ اب سیاسی مباحثے گالی گلوچ اور طنزیہ القابات کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ یہ رویہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس کے اثرات عوام تک پہنچ چکے ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند کے رہنما کا دفاع کرتے ہوئے مخالفین پر ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو نہ صرف غیر اخلاقی ہیں بلکہ معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں۔
اگر ہم اس صورتحال کا کوئی حل نکالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ اجتماعی زوال ہے اور اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو اس زہر کو بڑھاوا دینے میں شامل ہے۔ چاہے وہ سیاستدان ہوں، صحافی ہوں، یا عوام۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویے کو بدلیں اور اپنی گفتگو میں شائستگی اور اخلاقیات کو واپس لائیں۔ طنز و مزاح کا اپنا ایک مقام ہے، لیکن اس کے لیے حدود کا تعین ضروری ہے۔ جب تک ہم ان حدود کو نہیں مانیں گے، ہم نہ تو سیاست کو بہتر بنا سکیں گے اور نہ ہی صحافت کو۔ یہ اجتماعی گراوٹ ہے جسے ہم نے خود پروان چڑھایا ہے اور اب ہمیں ہی اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا ہم اس چکر سے نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم اسی زہر کو اپنی اگلی نسل کے لیے وراثت میں چھوڑنا چاہتے ہیں؟ یہ سوچنے کا وقت ہے اور عمل کرنے کا بھی۔