Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sajjad Aheer/
  4. Social Media Troll Brigade

Social Media Troll Brigade

سوشل میڈیا ٹرول بریگیڈ

آج کے معروضات کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ سوشل میڈیا ٹرول بریگیڈ اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کاوش پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر تے ہوئے، پون صدی کی سیاہ رات کے اس پار نظر آنے والی موہوم سی روشنی کی طرف پیش قدمی کرنے والی قوم کا احوال ہے۔ پہلا حصہ تمام تر صاحبانِ فکر کے روزمرہ کے تجربات کا حصہ ہے اس لیے آسانی سے ریلیٹ کیا جا سکتا ہے۔

ٹرول بریگیڈ کی پہلی قسم تو وہ ہے جو باقاعدہ تنخواہ دار ہیں ۔ ایک سادہ آدمی کی سوچ سے بھی زیادہ تعداد میں یہ لوگ سوشل میڈیا پر باقاعدہ مصروفِ جہاد ہیں ۔ کچھ اپنی آئی ڈیز سے اور کچھ فرضی شناخت کے ساتھ۔ یہ باقاعدہ ڈیوٹی کرتے ہیں اور اس کے بدلے تنخواہیں وصول کرتے ہیں ۔ اس کو آپ سادہ زبان میں "روبوٹ" کیٹیگری کہہ سکتے ہیں ۔ ان کے آگے مزید دو گروپ ہیں، پہلا گروپ"ذہن ساز"یا "مائینڈ میکرز" گروپ ہے۔ جس نے ایک خاص سوچ اور نقظہ نظر کی ترویج کرنی ہے۔

یہ کچے ذہنوں کو عظمتوں کے خواب بیچ کر، وفاداری خریدنے کی تجارت پر مامور رہتے ہیں ۔ ان کا ٹارگٹ کم عمر، کم علم اور کم فہم طبقات ہوتے ہیں ۔ یہ سارے طبقات، سوشل میڈیا"فدائی" کیٹیگری کا بہترین میٹیریل ہوتے ہیں اور اگر 16 سال کی عمر میں قابو آ جائیں تو اگلے پندرہ بیس سال خوب ہنگامہ خیز ہو سکتے ہیں پھر اگر قسمت نے یاوری کی تو لوٹ آئیں گے ورنہ پھر خزاں رسیدہ پتہ، ہوا کے رحم و کرم پر۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے مخالف سوچ کی مذمت کرنی ہے۔ حالات کچھ بھی ہو ں، گالی دینی ہے۔ بات کتنی ہی مدلل کیوں نہ ہو، غداری اور کفر کا فتویٰ لگانا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی ڈیوٹی کا حصہ ہے اور اس میں سوچ اور سمجھ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ انہوں نے مختلف سوچ کو بہر حال پچھاڑنا ہے۔ آپ دودھ کے دھلے بن کے آ جائیں، ان کی صحت پہ کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ جتنی زیادہ گالیاں دیں گے، ان کے تار ہلانے والوں کی نظر میں یہ اتنے اچھے پرفارمر ہوں گے۔ یہ اگر گالیاں دینے میں نرم پڑیں گے تو اس کی مثال بالکل ایسی ہوگی، جیسے میدان جنگ میں دشمن کی فوج کے سامنے آپ نرم پڑ رہے ہو ں۔ اس گروپ کو آپ " لٹھ بردار" یا"ہتھوڑا گروپ" کہ سکتے ہیں ۔ ٹائٹل کی پسند میں اس بار چوائس ہے۔

دوسری کیٹیگری وہ ہے جو تنخواہ تو وصول نہیں کرتے لیکن ان کا کچھ نہ کچھ مفاد بالواسطہ یا بلاواسطہ استحصالی طبقات سے جڑا ہے۔ جیسے کہ وہ خود یا ان کا کوئی رشتہ دار، یار دوست، عزیز، یا کوئی خوابوں کا شہزادہ یا شہزادی اس نظام کے مراعات یافتہ ہیں ۔ استحصالی نظام کی بقا میں ہی ان کی بقا ہے، لہٰذا وہ اس کو اپنی بقا کا مسئلہ سمجھ کے گالی دیں گے اور اپنے آپ کو ثوابِ دارین کے حق دار سمجھ کر غلط سے غلط نقطہِ نظر کی وکالت بھی کریں گے۔ یہاں "دارین"ذاتی اجتہاد ہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ غدار اور بے دین کی سرکوبی کر رہے ہیں ۔ اور اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ مادرِ وطن اور دینِ متین کی خدمت بھی، تو ثواب"دارین" کے ہی حقدار ٹھہرے۔

تیسری کیٹیگری ان طبقات کی ہے جو بالکل ہی "ویلے" ہیں ۔"ویلا"پنجابی زبان میں اس ہستی کو کہتےہیں جس کو کرنے کےلئے کوئی کام نہ ہو۔ کام کاج سے "ویلے" اوراوپر کی منزل خالی۔ اس کیٹیگری کو آپ"خدائی فوجدار " کہ سکتے ہیں ۔ ہماری معاشرت میں آپ نے اکثر سنا ہوگا، "خالی ذہن شیطان کا گھر"۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے پاس موبائل فون اور موبائل کمپنیوں کی مہربانی سے ماہانہ پیکج کی سہولت رہتی ہے۔ خناس، بدکلامی اور انٹرنیٹ کی خرافات سے پیدا شدہ فرسٹریشن کے علاؤہ اوپر کی منزل خالی، فری ٹایم اور تقریباً لامحدود رسائی، تقریباً سب تک۔ اب یہ کتنا ڈیڈلی کمبینیشن یا جان لیوا امتزاج ہو سکتا ہے؟ اس معیار کا مجاہد اور نشانے پر فیض احمد فیض اور حبیب جالب اور اس قبیل کے لوگ۔

چوتھی اور آخری کیٹیگری"ذہنی غلاموں " کی ہے۔ فطرتاً ہر شخص کو خداوند عالم نے آزاد پیدا کیا ہے۔ آزاد لوگوں میں دو خصوصیات ہوتی ہیں ۔ سوچنا اور سوال کرنا۔ وہ فطرت کے خلاف ہر چیز کو سوال کرتے ہیں ۔ کسی بھی طرح کی شخصی غلامی، تسلط، خداوند عالم کی، اس کی مخلوق کے بارے مشیت کے خلاف ہے۔ ذہنی اورفطری غلاموں کو ان دونوں سے، یعنی سوچنے اور سوال کرنے سے چڑ ہوتی ہے۔ اور وہ ردعمل کے طور پر سوال کرنے والے کو گالی سے نوازتے ہیں ۔ اقبال نے کہا ہے کہ

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے را ہ و رسم شاہبازی

پون صدی سے بڑے فریم میں دو طبقات رہے ہیں ۔ ایک طرف مقتدرہ یا استحصالی طبقہ اور دوسری طرف محکوم اور محروم طبقہ۔ پاکستان میں پون صدی کی طویل سیاہ رات نے سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت کو مسدود کر دیا ہے۔ ذہنی غلامی لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔ تاریکی میں روشنی کا اہتمام اس وقت مشکل ہو جاتا ہے کہ جب رہنے والے تاریکی سے مانوس ہو چکے ہوں ۔ پھر وہ روشنی کی مزاحمت اور اہتمام کرنے والے کی مذمّت کرتے ہیں ۔ فیض احمد فیض نے کہا ہے۔

چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جاۓ

غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے

ہوتی نہیں جو قوم بھی حق بات پہ یکجا

اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا

Check Also

Gumshuda Hoti Mehkar Aur Eco Saheli

By Mutruba Sheikh